’ جانِ پُر سوز ‘ اور محسن علی آرزوؔ : ایک مختصر تعارف :- افضل رضویؔ

Share

’ جانِ پُر سوز ‘ اور محسن علی آرزوؔ : ایک مختصر تعارف

افضل رضویؔ
صدر پالف آسٹریلیا

ڈاکٹر محمد محسن علی پیشے کے لحاظ انسانی جسم کے نبض شناس ہیں لیکن ان کے نوکِ قلم سے نکلنے والی آرزؤوں نے انہیں آرزوؔ بنادیا ہے۔ ڈاکٹر محسن ایک نفیس، نرم خو اور ملنسار شخصیت کے مالک ہیں۔ان کی گففتگو سے علم شناسی ٹپکتی ہے لیکن ان کا اٹھنا بیٹھنا ان کی منکسر المزاجی کا آئینہ دار ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اگر کسی کی شخصیت کو جانچنا ہو تو اس شخص سے گفتگو کرکے دیکھ لو معلوم ہو جائے گا کہ اس کی استطاعتِ شخصی کتنی ہے اور اس کا ظرف کتنا ہے۔پس جس شخص میں جتنی انکساری اور ملنساری ہو، اس کا ظرف بھی اتنا ہی وسیع ہوتا ہے اور یہ زندگی خالقِ کائنات کا ایک ایسا انمول تحفہ جو بس ایک بار ہی عطا ہوتا ہے اور جو انسان اس عطائے واحدہٗ لاشریک کا صحیح ادراک کرتے ہیں وہ زمانوں تک جیتے ہیں کیونکہ وہ کچھ ایسا کر جاتے ہیں کہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ان کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو یہ جان جاتے ہیں کہ زندگی کسی جھیل کا ٹھہراہوا یخ بستہ پانی نہیں بلکہ وہ اس کی خاموشی کے اندر چھپے ہوئے طوفان کا اپنی باطنی آنکھ سے مشاہدہ کر لیتے ہیں۔
ڈاکٹرمحمد محسن علی آرزوؔ 18جنوری1979میں شہرِ اقبالؒ(سیالکوٹ) میں پیدا ہو ئے۔کم سنی ہی میں والدین کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے کیونکہ ان کے والد پاکستان ائیر فورس میں تھے اور یوں ان کی ابتدائی تعلیم کراچی ہی میں ہوئی۔ایف۔جی۔پبلک اسکول سے1996 ء میں میٹرک کے امتحان میں امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد1998 ء میں ڈی۔جے۔کالج میں داخل ہو گئے اور پھریہاں سے ایف۔ایس سی کا امتحان نمایاں حیثیت سے پاس کرنے کے بعد ڈ۱ؤ میڈیکل کالج کراچی سے2003ء میں ایم۔ بی۔ بی۔ایس کی تعلیم مکمل کی۔دورانِ تعلیم میڈیکل کالج کی ادبی تنظیم بزمِ ادب سے وابستہ رہے، کالج میں مشاعروں کے انعقاد میں پیش پیش رہتے تھے.اردو شاعری کے ساتھ ساتھ نثر میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں۔ نثر میں سنجیدہ تحریر یں بھی ہیں اور طنز و مزاح بھی۔شاعری گویا ان کے رگ و پے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بقول شاعری کا سلسلہ میڈیکل کی تعلیم کے دوران بھی گاہے گاہے چلتا رہا۔1998 ء میں نوائے وقت کی ذیلی ادبی تنظیم حلقہ دانش سے بھی وابستہ رہے۔نواے وقت میں پہلی مرتبہ ان کا کلام شائع ہوا، جس کا ایک شعر یہ تھا:
چشم پر نم سے آ ب کے رشتے
جیسے میرے اور آپ کے رشتے
محمدمحسن علی آرزوؔکے بقول انہوں نے پہلا شعر بارہ تیرہ سال کی عمر میں تب کہا تھا جب وہ جما عت ہفتم کے طالب علم تھے۔
خود ہی پتھر مارتا ہوں اپنے عکس کو
شایئد کوئی مجھے مظلوم تو کہے
میڈیکل کی تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ڈاکٹر محسن علی نے کچھ عرصہ پاکستان میں طبی خدمات سر انجام دیں اور پھر 2007ء میں آسٹریلیا میں سکونت اختیار کر لی۔
شاعری کیا ہے؟ شعر کسے کہتے ہیں؟ایک شاعر شعری کیفیت سے کیسے گزرتا ہے؟ خیالات و جذبات کو قرطاسِ ابیض پر اتارنے کے لیے کن حالات سے دو چار ہوتا ہے اور کیا شعر صرف الفاظ کی ترکیب و ترتیب کا نام ہے؟ ہرگز نہیں۔ شعری شعور کے پس منظر میں جذبات، خیالات و احساسات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوتا ہے جو عمدہ شاعری تخلیق کرنے کا موجب بنتا ہے۔
محسن علی کے شعری مجموعے ”جانِ پُرسوز‘‘کا مسودہ مجھے موصول ہوا تو جانا کہ ان کے اندر تو واقع میں شاعرانہ اوصاف موجود ہیں۔انہوں نے اپنے اس شعری مجموعے میں غزلوں اور نظموں کے ساتھ ساتھ نثرِ لطیف کے خوب صورت مرقعے بھی شامل کیے ہیں۔اگرچہ یہ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے؛لیکن اس کے باوجود وہ ایک منجھے ہوئے شاعر کے طور پر ابھرے ہیں۔ ان کے اشعار میں لفظوں کا بے محابا استعمال اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ مستقبل میں ایک معتبر شاعر کے طور پر جانے جائیں گے۔ان کی شاعرانہ شخصیت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو نہ تو صرف روایت تک محدود رکھاہے اور نہ ہی جدیدیت کااسیر کیا ہے بلکہ انہوں نے اردو کی شعری روایت سے استفادہ کرتے ہوئے جدید طرز اظہار کو فنی سلیقہ مندی کے ساتھ اپنایا ہے؛یہی وجہ ہے کہ ان کے شاعرانہ لب و لہجے میں روایت کی خوشبواور جدت و ندرت کی تازگی ایک ساتھ ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
محسن علی کی غزلوں اور نظموں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے شعرائے متقدمین و متاخرین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے متانت و سنجیدگی اور سادگی و شائستگی کو اپنایا ہے نیزجدیدیت سے بھی بھرپوراستفادہ کیا ہے جس سے ان کے طرز اظہار میں جدت و ندرت بھی آگئی ہے اور شعری اظہارحسین و دلکش اور موثر بھی ہو گیا ہے۔
ایک اور اہم بات جس کا تذکرہ یہاں ضروری محسوس ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ اردو شاعری کی روایت رہی ہے کہ اکثرشعراء اپنے مجموعہئ کلام کاآغاز حمد باری تعالیٰ سے کرتے ہیں اور پھر اللہ کے رسولﷺ کے حضور گلہائے عقیدت پیش کرتے ہیں۔چنانچہ محسن علی نے بھی اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ”کچھ اپنے قلم سے اللہ کے حضور“کے عنوان سے کچھ حمدیہ اشعار پیش کیے ہیں۔
اپنے احساس ندامت کو بنا کر آنسو
اپنی پلکوں کی منڈیروں پہ سجا دیتا ہوں
اس قدر پیار ہے دنیا کی اداؤں سے مجھے
روز محشر کے تقاضوں کو بھلا دیتاں ہوں
گو خطا کار ہوں بدکار ہوں، باغی تو نہی
کر کے توبہ تیری رحمت کو صدا دیتا ہوں

اپنی الفت سے میرے دل میں اجالا کر دے
تیرا بندہ ہوں تیرے در پہ ندا دیتا ہوں
حمدیہ اشعار کے بعد حسبِ روایت نعتیہ اشعار بعنوان”نعت شریف – بحضور سرور کو نین ﷺ“ بھی”جانِ پُرسوز‘‘کوجان بخشتے ہیں۔ دیکھیے کس نیاز مندی اور محبت وعقیدت سے سرکارِ مدینہ سرور سینہ ﷺ کے حضور نذرانہ ئ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
سراپا رحمت باری وجود ذات عالی ہے
شافع روزِ محشر، شاد تیرا ہر سوالی ہے

مجسم نور نے تخلیق پائی نور ِیزداں سے
اسی اک نور سے روشن جہان کن فکانی ہے

عطا کر روح کو عشقِ محمد ﷺ سے توانائی
میرے مالک تیرے محبوب کی امت سوالی ہے
محسن علی کے شعری مجموعہ ”جانِ پُرسوز‘‘کی نظموں پر نظر ڈالی جائے تو ان میں کئی نظموں کا مضمون اپنے اندر جوش و جذبہ سے بھرپور ہے۔اس سلسلے میں مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات اور کشمیریوں کی حالتِ زار کے تناظر میں لکھی گئی ان کی نظم ”اے وادیئ کشمیر“مثال کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے۔ان کی یہ نظم مفتی تقی عثمانی صاحب کی اسی عنوان پر لکھی گئی ولولہ انگیز نظم”اے وادیئ کشمیر! اے وادیئ کشمیر!“ کی یاد تازہ کردیتی ہے جو انہوں نے جون 1965ء میں لکھی تھی اور ہیئت کے اعتبار سے مخمس تھی؛ جب کہ محسن کی نظم مسدس میں کہی گئی ہے۔ دونوں نظموں کا انداز اور مضمون نہایت ولولہ انگیز ہے۔
اے وادی ئکشمیر
تاریخ کے پردے پہ لرزتی ہوئی تصویر
احساس کے چہرے پہ سلگتی ہوئی تحریر
ظلمت کے اندھیروں میں ابھرتی ہوئی تحریر
آفاق کے قدموں میں دہکتی ہوئی زنجیر
آزادیئ انسان کے ہر لمس کی تحقیر
اے وادیئ کشمیر! اے وادیئ کشمیر!

اک سوگ میں ڈوبی تیری گلیوں کی فضا
بارود کی بو ہے، کہیں آہ بکا ہے!!
ہر سمت شہیدوں کے جنازے کی صدا ہے
تیری نہیں، یہ ملت مسلم کی فضا ہے
ابھرے گی اسی راکھ سے آزادی کی تصویر
اے وادیئ کشمیر! اے وادیئ کشمیر!
2020ء کا سورج اپنے ساتھ ایک عالمی وباء ”کورونا وائرس“ (COVID 19)لے کر طلوع ہوا اور اس نے اردو کے نثری و شعری ادب کو بھی بے حد متاثر کیاہے۔چنانچہ نثر کے ساتھ ساتھ شاعری میں بھی ”عہدکورونا“ کی اصطلاح معروف ہوئی ہے۔ جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں ساری دنیا کورونا وائرس کی زد میں ہے۔ اردو زبان کے شعراء کی ایک کثیر تعداد نے اس اصطلاح کو اپنے اشعار کی زینت بنایا ہے۔ محسن علی نے بھی اس حوالے سے ایک نظم”سنبھل بھی جاؤ“کے عنوان سے کہی ہے،جس میں اس وبائی مرض کے تکلیف دہ دورمیں پاکستان کی مذہبی اور سیاسی صورتِ حال کو موضوع بنایا ہے۔ اس نظم سے چند اشعار یہاں درج کیے جارہے ہیں۔
جہاں میں آئی ہوئی مصیبت پکارتی ہے سنبھل بھی جاؤ
اگربدلنی ہے اپنی حالت تو میرے لوگو بدل بھی جاؤ
کوئی ہے سنی کوئی شیعہ ہے جہاں میں ایسے کو ئی جیا ہے
یہ فرقہ بندی یہ درجہ بندی ان آفتوں سے نکل بھی جاؤ

یہ نفرتوں کو فروغ دینا منافقوں کی نشانیاں ہیں
عذاب ربی پکارتا ہے برے عمل سے تو ٹل بھی جاؤ
یہ قلب مومن پکارتا ہے خداکی رحمت یہیں کہیں ہے
کٹے گی مشکل کی یہ گھڑی بھی، یقین رکھو سنبھل بھی جاؤ!
محسن کی شاہکار نظم جو انہوں نے ایک ایسے موضوع پر کہی ہے جو ایک کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ بچے، جوان، بوڑھے، مرد وزن سبھی ایک سی ارادت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔یہ موضوع جو سرحدوں کا تابع نہیں، رنگ ونسل کا محتاج نہیں، مذہب و مسلک کا پابند نہیں اور نہ ہی جنسی تفریق کا قائل ہے۔یہ موضوع ایک ایسی ہستی سے متعلق جس سے ہر انسانی جان محبت بھی کرتی ہے اور ادب واحترام بھی، میری مراد ”ماں“ کی ہستی سے ہے۔ محسن علی نے اس ”ماں“ کے عنوان سے جو نظم لکھی ہے وہ دل کو مو لینے والی ہے۔اس نظم کا ایک بندنذرِ قارئین کیا جارہا ہے۔
جس کوخالق نے محبت کی اجازت دی ہے
جس کے رشتے نے تعلق کو عقیدت دی ہے
جس کی ممتا نے گھرانوں کو سجاوٹ دی ہے
جس کی تعلیم نے قوموں کو قیادت دی ہے
جس کے قد موں میں ہے جننت، وہ حقیقت ماں ہے
جس سے ملتا ہے خدا، ہاں! وہ عبادت ماں ہے
مذکورہ بالا نظم اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اسے امسال(2020)کے یومِ امہات کے موقع پر بھارت کے معروف گلوکار نے نہ صرف گایا بلکہ اس کی ویڈیو گرافی بھی کی گئی ہے۔یوں محسن علی نے اس نظم کے ذریعے ہر بیٹے کی آوازبن کر ”ماں“ کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے جس پر وہ داد وتحسین کے حق دار ہیں۔
محسن آرزوؔ نے ایک دہائی سے زائد عرصہ آسٹریلیا میں گزارا ہے جس سے ان کا اشیاء کو دیکھنے کا زاویہ وسیع ہوا ہے اور وہ دورِ حاضر کے معاشرہ سے بخوبی واقف ہیں۔آج ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ وہ سراب کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔حقیقت کی تلخیوں کا سامنا کرنا انتہائی دشوار ہورہا ہے اور ردِ عمل کے طور پرزندگی گھٹن کی شکار ہے،اس کی رنگینی ماند پڑ رہی ہے اور رونق ناپید ہورہی ہے۔تصنع، بناوٹ اورریاکاری ایسے تلخ حقائق ہیں جن سے مفر ممکن نہیں؛ اس کے باوجود محسن کی کی ”ایک خواہش“ ہے کہ:
ایک خواہش کہ شب گزیدہ ہے
جس کے لفظوں کی لرزہ خیزی پر
آہ پر، اور غم انگیزی پر
زیست کا اعتبار قائم ہے
ایک خواہش کہ جس کا حاصل کُل
دولتِ قرب اور وصال نہیں
زیست بہ صورتِ جمال نہیں
ہاں مگر بے خودی جو دائم ہے
نظم ”آگہی“ میں محسن نے پیدائش سے سفرِ عدم تک کو نہایت خوب صورتی قلم بند کیا ہے۔ نظم ایک ردھم اور تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتی جاتی ہے اور اختتام پر پہنچ کر محسن آرزوؔ کی یہ”آگہی“ ایک عذاب بن کر انہیں تڑپانے لگتی ہے تو وہ پکار اٹھتے ہیں:
سفر کا مقصد و حاصل نظر میں آتا نہیں
بھنور ہے زیست تو ساحل نظر میں آتا نہیں
کوئی تو مجھ کو حقیقت شناسیاں دے دے
شعور و فہم کی باہم نشانیاں دے دے
میں آرزوؔ یہ سہوں کیسے آگہی کا عذاب
کہ جیسے آگ لگی ہو کہیں پہ زیرِ آب
نظم”حالاتِ حاضرہ“ میں محسن آرزوؔ کو تنہائی کا شدت سے احساس ہے اور وہ یہ خیال کرتا ہے کہ انسان اپنے سائے سے بھی خوف کھاتا ہے۔کبھی اسے اخلاقی ا قدار کی کمی ستانے لگتی ہے تو کبھی جدید مغربی مادی تہذیب کے زیرِ اثر پنپنے والی نئی ثقافت کا خوف آگھیرتا ہے تو لفظ اس کے خیالات لبادہ اوڑ کر کچھ یوں صفحہئ قرطاس پر بکھر جاتے ہیں۔
اس دور پریشاں میں ہر سمت ہے تنہائی
انسان سے ڈرتی ہے انسان کی پرچھائی
ہر سمت اندھیرا ہے ہر اوڑ اداسی ہے
نہ سر پہ دوپٹہ ہے نہ ہاتھ میں راکھی ہے
محسن علی آرزو ؔ کی شاعری کے مطالعے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ شاعر کے خیالات نہ صرف پختہ ہیں بلکہ شستہ بھی ہیں۔بایں ہمہ وہ کہیں کہیں قنوطیت کا شکار نظر آتے ہیں لیکن یہ یاسیت دائمی نہیں بلکہ عارضی ہے تاہم اس یاسیت کا تعلق ان کی وطنِ مولود سے محبت کی وجہ سے ہے کیونکہ جب وہ اپنے شہر کراچی کو دہشت وبربریت کا شکار دیکھتے ہیں تو قنوطیت کے سیاہ بادل انہیں اپنے پنجوں میں جکڑ لیتے ہیں؛لیکن وہ جلد ہی اس چنگل سے باہر نکل کر رجائیت کا دامن تھام لیتے ہیں۔دیکھیے ایک نظم میں کراچی کی حالتِ سوزاں پرنوحہ کناں ہیں:
آج فضا خاموش کیوں ہے؟
درختوں پہ جو رونق تھی
ہواؤں میں جو بادل تھے
گلابوں میں جو شبنم تھی
فضاؤں میں جو ہلچل تھی۔۔۔کہاں ہے؟
کہاں ہے؟
کہاں ہے؟
کہاں ہے؟
”احساسِ محرومی“میں آرزوؔ کے یہاں مایوسی اس قدر گہری ہے کہ وہ اس سے کسی طور اپنے آپ کو جدا نہیں کرسکتا۔ اس کی نظریں خوشی کی ایک جھلک تک دیکھنے کو ترستی ہیں۔دیکھیے ان احساسات کا کس خوب صورتی اظہار کیا ہے۔
خوشی کی ایک جھلک کو نظر ترستی ہے
غموں کی دھوپ میرے راستوں میں پھیلی ہے
کسی نظر میں نظاروں کا کوئی نام نہیں
میرے چمن میں بہاروں کا کوئی نام نہیں
قدم دیارِ مسرّت سے آشنا ہی نہیں
ذہن خیالِ مسرت کو جانتا ہی نہیں
آسماں پہ کوئی اُمید کا بادل بھی نہیں
میری کشتی کے لیے دور کا ساحل بھی نہیں
محسن آرزو ؔ کے دل میں وطن کی بے پناہ محبت ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب ”پردیس“میں انہیں وطن کی یاد ستاتی ہے تو لفظ ان کے دلی جذبات کا عکاس بن کر کچھ یوں صفحہئ قرطاس پر بکھر جاتے ہیں:
چلتے چلتے ہوا کے سائے دل میرا مرجھائے
یاد وطن کی آئے مجھ کو یاد وطن کی آئے
ہنستی ہنستی آنکھوں سے اِک آنسو چھلکا جائے
بارش کے اجلے پانی میں تن من دھلتا جائے
وقت کے پچھلے پہر کی کروٹ نیند اڑا لے جائے
جن گلیوں میں بچپن گزرا انکی یاد ستائے
وطن کی یاد کے ساتھ ساتھ محسن علی آرزوؔکو اپنا بچپن یاد آتا ہے تو وہ بے قرارہو جاتے ہیں اوراپنے”بچپن کے حسین لمحے“یاد کرکے ان کے لوٹ آنے کی تمنا کرتے ہیں۔ذیل میں چھوٹی بحر کے پانچ مصرعوں میں آرزوؔ کا مدعا ملاحظہ کیجیے۔
وہ لمحے امیدیں ہیں
اے کاش کہ بر آئیں
سب رنج مٹا جائیں
اک روز یہ چپکے سے
بچپن میرا لے آئیں
مذکورہ بالانظموں کے علاوہ”تبصرہئ شہید“،”حاصل“،”خواہش“،”تجزیہ“،”فیصلہ“،”شبنمی وفا“،”خواب وصال“،”نوجوانی کا خواب“، ”آنسو“،”ناریل“،”احساسِ محرومی“، ”میں خیالِ شبِ تنہائی ہوں“،”خواب سراب“ اور حالاتِ حاضرہ وغیرہ بھی قابل ذکر نظمیں ہیں۔
محسن آرزوؔ کی شاعری میں کلاسیکی رچاؤ،جدت و ندرت،فنی سلیقہ مندی،سلاست وسادگی جیسی خصوصیات موجود ہیں جن کی بدولت ان کی شاعری محض لفظوں کا ہیر پھیر نہیں بلکہ مقصدیت کی طرف گامزن معلوم ہوتی ہے۔محسن آرزو ؔ کا کلام اپنے زمانہ اور ماحول سے سچی وابستگی اور زندگی کی حقیقی صداقت کا اظہار ہے، جسے بجاطور پر ان کی شاعری کی پہچان کہا جاسکتا ہے۔
محسن علی آرزوؔ کی نظموں کی طرح غزلیں بھی معیاری ہیں۔اس کی غزلوں کا ایک مخصوص وصف طنزیاتی عنصر ہے۔ان کے لیے انسانوں کی ایک دوسرے سے دوری،محبت کی کمی اور تفرقہ بازی تکلیف دہ ہے۔ دیکھئے آج کے بے ضمیر،خود غرض اور مفاد پرست معاشرہ پر انہوں نے کس اچھوتے انداز میں چوٹ کی ہے۔
نیرنگء دنیا میں محبت کی کمی ہے!
نہ درد کی قیمت ہے، نہ آنکھوں میں نمی ہے
خانقاہ میں ملی ہے مجھے مد ہوش شریعت
ساقی تیرے مے خانے میں کیا کوئی ولی ہے
مذہب نہیں اب قوم کی پہچان کا باعث
ملّت کئی اقسام کے نعروں میں بٹی ہے
انسان اشرف المخلوقات ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اسے سربستہ رازوں تک رسائی دی ہے۔وہ اپنی عقل وفہم کے ادراک سے مشکل سے مشکل اور پچیدہ سے پچیدہ مسائل کا حل نکالنے کی صلاحیت اور قدرت رکھتا ہے۔محسن نے انسان کے اسی وصف کو اپنی ایک غزل میں بیان کیا ہے۔
دلِ مومن خداوندا! تجھے پہچان سکتا ہے
یہ پُتلا خاک کا ہر اِک حقیقت جان سکتا ہے
غزلوں کایہ سلسلہ جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے۔محسن کے اندر کا جاندار شاعر سامنے آتا جاتا ہے۔ایک غزل میں انہوں نے اسد اللہ غالب ؔ کی ایک مشہورِ زمانہ غزل کے مضمون کو ایک نئے انداز میں پیش کیا ہے۔غالب ؔ نے کہا تھا:

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
سو یہی حالت ہمیں آرزوؔ کے یہاں بھی دیکھنے کو ملتی ہے؛ لیکن فرق یہ ہے کہ غالبؔ کو اپنا گھر دشت وصحرا لگتا تھا جب کہ آرزو ؔجس دشتِ تنہائی میں سامانِ زندگی کرر ہے ہیں وہ ان کے لیے تو نہیں؛ لیکن محبوب کے لیے ایک ویرانے کی تصویر کشی کررہاہے، جس پرمحبوب انگشت بدنداں ہو کراستفہام کرتاہے۔
وہ میرے گھر میں جو آئے تو ٹِھٹھک کر بولے
کیسی ویرانی ہے؟ کیا کوئی یہاں رہتا ہے!
پھر استفہام سے نکل کر محسن آرزوؔدل سے نکلنے والے نغموں کی طرف چل نکلتے ہیں اور برملا پکار اٹھتے ہیں کہ:
جانِ پُر سوز سے افکار کا مجمعہ نِکلا
سازِ دل سے جو لہو چیرتا نغمہ نکلا
وحشتِ جاں سے ہوئے خار مغیلاں گلقند
دشت کی ریت پہ جاناں تیرا چہرہ نکلا
سرخرو ہو گئی مخلوق کی ہر نوع لیکن
سب خطاؤں کی وجہ خاک کا پتلا نکلا
نہ کسی نے کبھی امید بندھائی میری
نہ کوئی شہرِ ستم گر میں شناسا نکلا
دشمنی میں بھی تو اسلوب نبھائے اُس نے
میرا قاتل ہی مجھے جان سے پیارا نکلا
محسن آرزوؔ کی غزلوں میں تشبیہہ اور استعارے کا استعمال بھی قابل ِ توجہ ہے۔ایک جگہ انہوں نے محبوب کے لیے چاند کی تشبیہہ استعمال کی ہے۔وہ محبوب سے اپنے تعلق کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
آنکھوں کی پتلیوں نے سمیٹا تھا عکسِ یار!
اور پھر وہ چاند سا میرے دل میں اُتر گیا
وطن سے محبت کا جذبہ محسن آرزوؔ کی نظموں کے ساتھ ساتھ غزلوں میں بھی ابھر کر سامنے آتا ہے۔وہ نہ صرف وطن سے محبت کا اظہارکرتے ہیں بلکہ ملتِ اسلامیہ کے دوام کی بات بھی کرتے ہیں اور اس کے لیے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں۔ دیکھیے درج ذیل اشعار میں اسی مضمون کو خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ تجھ پہ ہے قرض تیرے دیس کے ہر ذرے کا
باندھ لے سر پہ کفن’ جہد کے اسرار میں چل

گر ہے خواہش کہ ملے ملتِ مسلم کو دوام
آرزو ؔاپنے ہی اسلاف کے کردار میں چل
ایک اور غزل میں شاعرکو اس بات کا اافسوس ہے کہ وہ کچھ کرنا چاہتا تھا وہ نہیں کر سکا۔اسی طرح ایک اور غزل میں شاعرسفر میں ہے لیکن منزل، مقصود نظر نہیں آتی گویا کسی مقصد کا متلاشی نظر آتا ہے۔
تاریک زندگی میں اجالا نہ کر سکے
ہم آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے
مجھ کو منزل نظر نہیں آتی!
کتنی صدیوں سے چل رہا ہوں میں
زلف ِ محبوب کا تذکرہ ہر شاعر کے یہاں مل جاتا ہے اور محسن آرزوؔ بھی اس سے مبرا نہیں رہے۔ انہیں زلفِ محبوب کی طوالت تو بدلیوں کی مسافتوں سے بھی زیادہ لگتی ہے۔کبھی جرأت نے کہا تھا:
اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی
حالانکہ وہ محرومیئ بینائی کا شکار تھے۔ اس کے باوجود جب انہوں نے یہ مصرع کہا اور انشا ء اللہ خاں سے دوسرے مصرعے کی فرمائش کی تو انشاء نے بے ساخطہ کہا:
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
اب محسن آرزو ؔ کے ہاں اسی مضمون کو دیکھییے،کہتے ہیں:
بدلیوں کی مسافتیں کیا ہیں
زلف تیری سفر میں رہتی ہے
دن گزرتا ہے تیری یادوں میں
رات عہدِ ہجر میں رہتی ہے
دیگر غزلوں میں بھی ان کی پروازِ تخیل کا مشاہدہ کیا جاسکتاہے۔ یہاں چند غزلوں سے مزید اشعاربطور نمونہ رقم کیے جارہے ہیں اوربخوفِ طوالت کوئی تبصرہ نہیں کیا جارہا۔

ہوائے دور بہاراں کی آمد آمد ہے
صدائے زخمِ گریباں کی آمد آمد ہے
جو تیری دید صبح کی دلیل ہو جائے!
طوالتِ شبِ ہجراں قلیل ہو جائے

سحر پر لو نکلنے والی ہے
قید کی رات کٹنے والی ہے
اپنی خلوت سے پیار ہے مجھ کو
بزمِ تنہائی بسنے والی ہے

دیدہئ تر سے خواب کے رشتے
جیسے میرے اور آپ کے رشتے
گوہر زیست اور سیپ میں ہے
چشمِ پر نم اور آب کے رشتے
کِس طرح کب کہاں بنے کیسے
یہ حیات و ممات کے رشتے
یہ یقیں ہے کبھی نہ ٹوٹیں گے
آرزوؔ اور سراب کے رشتے

یہ صبحِ نو کبھی اُس قوم پہ نازِل نہیں ہوتی
خُودی کو بیچ کر بچوں کو جو سُرخاب دیتی ہے
محسن آرزوؔ کے اس مجموعہئ کلام کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس میں صرف نظمیں اور غزلیں ہی شامل نہیں کیں بلکہ نثرِلطیف کے معنی خیز اور خوبصورت ٹکرے بھی شامل کیے ہیں۔ایک جگہ خاموشی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے قبرستان اور اس کے لوازمات کا سہارا لیا ہے،کہتے ہیں:

بڑے کہتے ہیں کہ خاموشی تو قبرستان میں ہوتی ہے۔
شاید مردے شور کو ناپسند کرتے ہوں۔
ہو سکتا ہے وہ زور کو اتنا ناپسند نہ کرتے ہوں
جتنا خاموشی کو پسند کرتے ہوں۔
چونکہ خاموشی قبرستان کی علامت ہے اس لیے ہر مردہ خاموش رہتا ہے۔
اور اپنے ساتھی کے لیے بھی یہی پسند کرتا ہے۔
گویا ہر مردہ شخص دوسرے کو مردگی کی علامت سے محروم نہیں کرنا چاہتا۔”
اور
”لوگ کہتے ہیں کہ شور زندگی کی علامت ہے اس کے باوجود اکثر لوگ خاموشی
کو پسند کرتے ہیں۔ شاید یہ لوگ خاموشی کو اتنا پسند نہیں کرتے جتنا
شور کو پسند کرتے ہیں۔
ہر زندہ شخص شور کرتا ہے اور دوسروں کے شور کو ناپسند بھی کرتا ہے۔
گویا ہر زندگی کا حامل شخص، دوسرے کو زندگی کی علامت سے
محروم کرنے کا خواہاں ہے۔”
”جانِ پُرسوز‘‘کا اختتام بھی ایک نثرِ لطیف کے پارے سے کیا گیا ہے جس کا عنوان اختتام رکھا گیا ہے۔ملاحظہ کیجیے یہ نثرِ لطیف کا یہ ٹکڑا:
” کبھی کبھی سورج کی کرنیں جب پھولوں پر پڑتی ہیں
تو پھولوں پر موجودشبنم اُن کی چمک دمک کا باعث بنتی ہے۔
چند ساعتوں کے بعد پھولوں کی خوبصورتی میں چاند لگا دینے والی شبنم،
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا وجود کھو دیتی ہے۔
اور شبنم کے فنا ہونے کی واحد وجہ سورج کی کرنیں ہوتی ہیں۔ ”
المختصر’جانِ پُرسوز‘‘میں شامل نظموں،غزلوں اورنثرلطیف کے مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ محسن کی شاعری کا محور پاکیزہ ادب ہے اور وہ خود بھی ایک مخلص انسان ہیں اورمحبت و مروت کا پیکر ہیں۔میں ڈاکٹرمحمد محسن علی آرزوؔکو گزشتہ دو تین سال سے جانتا ہوں۔وہ ساؤتھ آسٹریلیاکی پہلی اورآسٹریلیا کی موثر و معتبر علمی وادبی اور ثقافتی تنظیم ”پاکستان-آسٹریلیا لٹریری فیڈریشن (پالف)کے متحرک رکن ہیں اور پالف کے زیرِ اہتمام منعقدہ تقاریب میں باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں اور اپنے کلام سے حاضرین کو محظوظ کرتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ ان کی طب کے پیشے کے باوجود اردو سے اس قدر محبت میری ان کاوشوں کو تقویت دے گی جو میں یہاں اردو زبان و ادب کی ترویج واشاعت اور فروغ کے لیے پالف کے پلیٹ فارم سے کر رہاہوں۔
محسن آرزوؔ کا یہ پہلا مجموعہ کلام ہے جس میں وہ اچھے اور ابھرتے ہوئے شاعر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ آسٹریلیا کے انگلش ماحول میں اور طب جیسے اہم اور مصروف ترین پیشے سے تعلق کے باوجود ان کی اردو سے زبان وادب اور شاعری سے وابستگی پر وہ یقینا مبارک باد کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔مجھے امیدِ واثق ہے کہ محسن آرزو ؔاپنے پروفیشن کے ساتھ انصاف کرنے کے ساتھ ساتھ اردو شاعری کو بھی کئی اور مجموعہ ہائے کلام سے نوازیں گے۔شنید ہے کہ ان کا دوسرا مجموعہئ کلام بھی تیاری کے مراحل میں ہے نیز وہ نثرلطیف کے علاوہ طنز ومزاح پراپنے مضامین بھی جمع کررہے ہیں جن کے جلد منصہ شہود پر آنے کی شنید ہے۔

افضل رضوی
Share
Share
Share