جگنو ۔ Glow Worm ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرعزیزاحمدعُرسی

Share
Grow worm
ڈاکٹرعزیزاحمدعرسی

چمکنے والا پتنگا
جگنو۔ Glow Worm
(صفت برق چمکنا ہے میرا فکر بلند)

ڈاکٹرعزیزاحمدعُرسی
ورنگل ۔ تلنگانہ

ہمیں اکثر اوقات رات کے اندھیرے میں چمکتی ہوئی روشنیاں نظر آتی ہیں۔ شب کے سینے پر تیرتی ہوئی یہ روشنیاں دراصل جگنو ہیں جو شب کی سلطنت میں دن کے سفیر بن کر آدھمکتے ہیں اور آسمان سے اڑ کرزمین پر آنے والے یہ ننھے ننھے ستارے اپنی مدھم و ٹھنڈی روشنی سے رات کی تاریکی کو مٹانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ جگنو زیادہ تر ان علاقوں میں دکھائی دیتے ہیں جہاں کبھی ریل کی پٹری ہوا کرتی تھیں لیکن امتداد زمانہ نے اس گذر گاہ پر گاڑیوں کی آمدورفت ختم کردی ہو۔ تب ایسے افتادہ راستے جگنوؤں کے زیر تصرف آجاتے ہیں جہاں ان کی اندرسبھا منعقد ہوتی ہے اسی لئے وہ اس علاقے کو اپنے وجود سے روشن کرنے کی سعی کرتے رہتے ہیں کہ جیسے جیسے رات کا اندھیرا بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے ان کی چمک میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

یہ دراصل شب وصل کے انتظار کی گھڑیوں کا کرب ہے جس میں مادہ جگنو اپنا وجود جلاکر اپنے محبوب کی راہ دیکھتی ہے۔ محبوب کی راہ میں روشنیاں بکھیرنے کا یہ منظرکبھی کبھی کچھ گھنٹے تک چلتا رہتا ہے اور اس طرح دنیا کو ایک نہایت خوشنما، دل کو لبھانے والا، حسین منظر ملتا ہے کہ قدرت نے بطور خاص انسان کے پریشاں افکار کو فرحت بخش سانچوں میں ڈھال کر اس کے ذہن کو تازگی عطا کرنے کے لئے ہی ایسے مناظر کو پیدا فرمایا ہے۔ اسی لئے ہم ان لمحات کو ایسے سانچے کہہ سکتے ہیں جو انسانی تھکن کو مسرت آگیں احساس سے بدل دیتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی مادہ جگنو کے ہجر کی گھڑیاں ختم ہوتی ہیں اور روشنی سے منور نقروی شب جب شب وصل میں بدل جاتی ہے تو پھر انکا چمکنا بند ہوجاتا ہے۔ پھر اس کے بعدقدرت کی کاریگری پر حیران انسان کو اندھیرے میں سوائے جھینگر کی جھائیں جھائیں سنائی دینے کے کوئی اور شئے دکھائی نہیں دیتی۔
جگنو عرصہ دارز سے شعراء کا محبوب موضوع رہے ہیں۔ورڈ سورتھ نے اسی پتنگے پر اپنی ایک مکمل معرکۃ الاراء نظم "The Pilgrim’s Dream” لکھیاور اقبال نے اردو شاعری میں جگنو کو ایک علامت کے طور پر استعمال کیا ۔ ان کے نزدیک پرندے کی چہک ، گل کی مہک اور جگنو کی چمک ایک ہی شئے کے مختلف نام ہیں اور وہ شئے زبان ہے جو خدا کی عطا اور اس کے وجود کا بین نشان ہے۔ اسی لئے شاعرکہتا ہے کہ ع
انداز گفتگو نے دھوکے دیئے ہیں ورنہ
نغمہ ہے بوئے بلبل ،بوپھول کی چہک ہے
کثرت میں ہوگیا ہے وحدت کاراز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھو ل میں مہک ہے
جگنو کو (Glow worm) بھی کہاجاتا ہے۔ لیکن یہ کوئی wormنہیں ہے بلکہ Arthropoda سے تعلق رکھنے والا ایک چھوٹا سا کیڑا ہے۔ جس کا چمکنا دراصل اسکے خارج کردہ سگنلس ہیں جس کودیکھ کران کیڑوں کے ’’نر‘‘(Male) ان کی جانب ملتفت ہوتے ہیں۔ دنیائے قدرت کے کارخانے میں صرف جگنو ہی اپنے اندر چمکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا بلکہ دوسرے کئی کیڑے اورجاندار ہیں جومختلف مقاصد کے لئے اپنے وجود کوروشن رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔جیسے سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں رہنے والی مچھلیا ں اور سمندر کی ان ہی وسعتوں میں رہنے والے دوسرے جانور جواسی بے پناہ گہرائیوں میں اپنی غذا حاصل کرنے کے لئے یادفاعی مقاصد کیلئے جسم سے روشنی پید اکرتے ہیں، اس کے علاوہ عالم حیوانات و نباتات سے متعلق بیکٹیریا،الجی اور فنجی Marine Polycheat وغیرہ بھی اپنے جسم سے روشنی کااخراج عمل میں لاتے ہیں۔ ان میں روشنی فاسفورس کے سالمات میں واقع ہونے والے کیمیائی تعامل کے باعث خارج ہوتی ہے۔ لیکن یہاں زیر گفتگو وہ کیڑے ہیں جن کے جسم سے روشنی پھوٹتی ہے ۔ ہم ان تمام کیڑوں کو حیوانات کی درجہ بندی کے اعتبار سے ایک ہی جماعت میں جگہ دیتے ہیں۔ جس کو Lampyridae کہاجاتا ہے۔ اس جماعت سے تعلق رکھنے والے تقریباً1900 انواع کواب تک شناخت کیاجاچکا ہے، جس میںfire flies اورfire worm وغیرہ شامل ہیں۔ عام طور پر دکھائی دینے والا جگنو ایک ’’بھونرا جیسا‘‘کیڑا ہے جسکو انگریزی میں Beetle کہا جاتا ہے، اس کا سائنسی نام Lampyris noctiluca ہے ۔ انکے چمکنے کازمانہ مئی کے اواخر سے شروع ہوتاہے اور ستمبر کے اوائل تک چلتا رہتا ہے۔ لیکن جب آسمان پر مہتاب جلوہ گرہوتویہ ستارے چمکنا بھول جاتے ہیں اور انکی روشنی ماند پڑجاتی ہے اس طرح انسان چاندنی رات میں جگنوؤں کوچمکتا ہوا نہیں دیکھ پاتا،سوائے اس کے کہ کبھی کبھار کوئی تیز روشنی نظر آجائے۔
اس کیڑے(Beetle) کی مادہ کا سائز بڑا ہوتاہے جو25 ملی میٹر تک لمبا ہوسکتاہے اس کے جسم کے دونوں جانب چھ جوڑ پیر پائے جاتے ہیں۔ اس کےWings نہیں پائے جاتے یہ جاندار اپنی ساخت کے اعتبار سے لارواہی نظر آتے ہیں لیکن قطعوں کاانداز اور محاس کے ساخت ان دونوں کے مابین فرق پیداکرتی ہے۔ یہ گہرے بھورے یاکالے رنگ کے ہوتے ہیں۔ مادہ کی زندگی مختصر ہوتی ہے خصوصا چمکنے کی عمر بڑی مشکل سے دوہفتے رہتی ہے۔ اس مدت میں مادہ غذا بالکل استعمال نہیں کرتی۔ ان کا دور حیات چار مرحلوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ انڈے، لاروئے، پیوپا اور بالغ۔ مادہ جب انڈے دے لیتی ہے تواس کی طبعی زندگی کے دن پورے ہو جاتے ہیں اور وہ مرجاتی ہے۔ انڈے جب لاروا میں تبدیل ہوتے ہیں تویہ مکمل ایک سیزن تک یا کبھی کبھار اس سے بھی زیادہ مدت تک خفتہ زندگی گذارتے ہیں لیکن اس عرصہ میں ان کی دم (Tail) مسلسل چمکتی رہتی ہے۔ اس اثنا میں یہ لاروے زیادہ تر گونگھوں کواپنی غذا بناتے ہیں۔ لاروا کی غذا مقدار کے اعتبار سے زیادہ ہوتی ہے لیکن بالغ جاندار بہت ہی کم کھاتے ہیں۔ ان کے جسم کے آخری تین قطعے ہلکے رنگ کے ہوتے ہیں۔ جسم کے ہر قطعہ کے کنارے ہلکی گلابی لکیر پائی جاتی ہے۔جبکہ Male چھوٹے سائز کاہوتا ہے یہ تقریباً13 تا15 ملی میٹر تک ہوتا ہے۔ اس کے Wings پائے جاتے ہیںیہ تیزی سے اڑنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ ان کا رنگ ہلکا بھورا ہوتا ہے۔ان کی آنکھیں بڑی ہوتی ہیں۔ اس کیڑے میں (بشمول نر و مادہ) کوئی زہریلا مادہ نہیں پایا جاتا اور نہ ہی یہ زہر کوخارج کرتے ہیں۔ یہ نہ بیمار یوں کوایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کو کچھ چبھو کر نقصان پہنچاتے ہیں۔کیونکہ بے آزارصوفی فطرت رکھنے والے اس کیڑے کا کام صرف چمکنا اور دنیاکوروشن کرناہے جس کے عوض وہ دنیا سے کچھ نہیں لیتے۔ ان کی یہ بے نیازانہ کیفیت انسان کو بہت کچھ سکھاتی ہے۔ لیکن وہ انسان ہی کیا جو ایک حقیر پتنگے کی فطرت پر عمل کرے اور اس کو روز مرہ زندگی میں داخل کرلے۔ چونکہ جگنو اپنی روشنی بکھیر کر دنیا سے کچھ بھی طلب نہیں کرتا اسی لئے ہم جگنو کو پتنگوں کی دنیا کا صوفی قرار دے سکتے ہیں۔اس طرح ہم جگنو کو قطعی طور پر غیر ضرر رساں کہہ سکتے ہیں ۔چمکنے کی صلاحیت نر اور مادہ دونوں میں پائی جاتی ہے لیکن عام مشاہدہ ہے کہ نرکے مقابلے میں ان کی مادہ زیادہ چمکتی ہے۔ ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نہ صرف ان کیڑوں کے نر و مادہ چمکتے ہیں بلکہ قدرت نے ان پتنگوں کے لاروا حتی کے انکے انڈوں میں بھی چمک رکھی ہے۔ اسی لئے تو جگنو کسی کے بھی پوچھنے پر ہر جگہ کہتا پھرتا ہے کہ
تجھے جس نے چہک گل کو مہک دی
اسی اللہ نے مجھ کو چمک دی
لباس نور میں مستور ہوں میں
پتنگو ں کے جہاں کا طور ہوں میں
جگنو میں عام طور پر روشنی پیدا کرنے والے اعضاء جسم کے آخری تین قطعوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان قطعوں میں ایک پروٹینی پرت پائی جاتی ہے جس کوLuciferin کہا جاتا ہے۔ اس پرت کے نیچے منعطف کرنے کی خصوصیت رکھنے والی ایک اور پر ت موجود ہوتی ہے تاکہ روشنی کے پھوٹنے کی مقدار میں اضافہ کیاجا سکے۔ ان جانداروں میں روشنی Luciferin پرت میں ہونے والے تکسیدی عمل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ تعامل پانی اور آکسیجن کی موجودگی میں انجام پاتا ہے۔ چونکہ اس تعامل میں Luciferase خامرہ بحیثیت عامل حصہ لیتا ہے اسلئے ہم اس روشنی کوLuciferin اورLuciferase کے مرکب کانتیجہ قرار دے سکتے ہیں۔ جس میں تمام ہی کیمیائی توانائی روشنی میں تبدیل ہوجاتی ہے یہ چونکا دینے والا مکمل عمل (Adenosine Triphosphate) یعنیATP کی وجہ سے انجام پا تاہے جوہر جاندار کے جسم میں موجود ہوتاہے۔ اس تعامل میں کسی بھی قسم کی حرارت خارج نہیں ہوتی اسی لئے روشنی کے اخراج کے بعد ان جانداروں کے جسم میں کسی بھی قسم کی گرمی نہیں دیکھی جاسکتی ۔ عام طورر پر جب توانائی کیمیائی تعاملات کے بعد حرارت میں تبدیل ہوتی ہے تو اس توانائی سے صرف 10فیصد روشنی ہی حاصل ہوتی ہے اور بقیہ 90 فیصد حصہ توانائی حرارت میں تبدیل ہوجاتا ہے اورروشنی دینے والا جسم گرم ہوجاتا ہے۔ لیکن جگنو میں Luciferin کی وجہہ سے جسم میں گرمی پیدا نہیں ہوتی۔Luciferin کی پرت کو جگنوکے تنفسی نظام کی اہم ہوائی نالی (Trachea) سے چھوٹی چھوٹی نالیاں پہنچتی ہیں تاکہ ہوائی آکسیجن اس پر ت کومسلسل اورمستقلا پہنچائی جاتی رہے اور روشنی کااخراج بلا وقفہ انجام پا تا رہے۔ ان جانداروں سے عام طور پرخارج ہونے والی روشنی کا رنگ ہلکاسبز یانیلا ہوتا ہے۔
Firefly بھی ایک کیڑا ہے جس کو Lighting Bug بھی کہاجاتا ہے۔ اس کاسائنسی نامLamprohiza splendidula ہے۔ اس میں بھی روشنی کے غدود یاLuciferin جسم کے آخری حصے میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں روشنی ہر مرتبہ چند لمحوں کے وقفے کے بعد Flash کی صورت میں خارج ہوتی رہتی ہے۔ ا س میں بھی Luciferin کی تکسید سے روشنی پیدا ہوتی ہے۔ لیکن کیمیائی توانائی کو روشنی میں تبدیل کرنے کیلئے اندرونی طور پر P AT کے چھوٹے چھوٹے انجکشن لگے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ایک خاص وقفہ سے اس جاندار کی دم چمکنے لگتی ہے۔ چونکہ ہر جاندار انسان کی خدمت کیلئے پیداکیا گیا ہے اسی لئے اس میں بھی انسانیت کی بہتری کی لئے ایک کیمیائی مرکب پایا جاتا ہے جس کوان دنوں استعمال کیاجاکر دل اور عضلات کی بیماریوں کاپتہ لگایا جارہاہے۔ Fire fly کےATP کامادہ انٹی بیوٹک ٹسٹ، آلودہ پانی اورماحول کی صفائی کیلئے بھی استعمال کیا جارہاہے۔ علاوہ اس کے انسان کی خلائی تسخیر کے دوران خلائی گاڑی میں بھی اس کے کیمیائی مرکبات کی مد د لے کرزمینی زندگی کی مختلف اشکال سے متعلق معلومات حاصل کی گئی ہیں۔
یہاں خداکی قدرت کی نشانی ملاحظہ فرمائیے کہ یہ جگنو جو بے بس،کمزور اور حقیرکیڑے (Beetle) ہیں جب چاہیں اپنے جسم سے پھوٹنے والی روشنی کو بند کرسکتے ہیں اور جب چاہیں روشنی خارج کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔ چونکہ روشنی کااخراج ایک تکسیدی عمل ہے اسی لئے جب اس کیڑ ے کو روشنی بندکرنا مقصود ہوتا ہے تو وہ اس پر وٹینی پرت (Luciferin) تک وافر مقدار میں آکسیجن کی فراہمی کوروک دیتا ہے، اس طرح ان کے جسم سے پھوٹنے والی روشنی آہستہ آہستہ خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔ سائنس داں اس کوایک اعصابی عمل قرار دیتے ہیں ۔لیکن ۔۔اگر ہم دوسرے ڈھنگ سے سونچیں تو محسوس ہوگا کہ قدرت نے انکایہ عمل ان کے ارادے کاتابع بنایا ہے تاکہ یہ کیڑے اپنی مرضی کی مطابقت میں چمک سکیں اور دیدہ بینا رکھنے والے لوگ اس مشاہد ے سے خدا کی خلاقیت کو تسلیم کریں کہ یہ خدا کے وجود کی نشانی ہے ورنہ ایک حقیر کیڑا کیا سونچنے کی صلاحیت رکھ سکتا ہے۔ کسی شاعر نے جگنو پر کیا خوب فلسفہ بیان کیا ہے ۔
پروانہ بھی ایک پتنگا جگنو بھی ایک پتنگا
وہ روشنی کا جویا یہ روشنی سراپا

Share

One thought on “جگنو ۔ Glow Worm ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرعزیزاحمدعُرسی”

Comments are closed.

Share
Share