ہندوستان میں ریڈیو@ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز

Share

ریڈیو

ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز
ہندوستان میں ریڈیو

لینڈ مارکس ان انڈین براڈکاسٹنگ (آکاشوانی 24-30؍مئی 1977) کے مطابق براڈ کاسٹنگ کا پہلا تجربہ ہندوستان میں 1921ء میں اس وقت ہوا جب بمبئی کے گورنر سر جارج لائڈ کی فرمائش پر ڈاک اور تار کے محکمہ کے اشتراک سے ٹائمس آف انڈیا نے بمبئی سے موسیقی کے ایک پروگرام کی نشریات کا اہتمام کیا۔ ممبئی سے پونے دوسو کیلو میٹر کے فاصلے پر پونے میں سر جارج لائڈ نے یہ پروگرام سنا۔
ہندوستان میں براڈ کاسٹنگ یا ریڈیو نشریات کا آغاز نومبر 1923ء میں کلکتہ کے ایک ریڈیو کلب سے ہوا۔ 1924ء میں ممبئی اور مدراس میں بھی ریڈیو کلب قائم کئے گئے۔ مالی مشکلات کی وجہ سے اکتوبر 1927ء میں مدراس کا پریسیڈنسی ریڈیو کلب بند ہوگیا۔ 1926میں سر ابراہیم رحمت اللہ کی چیرمین شپ میں انڈین براڈکاسٹنگ کمپنی قائم ہوئی۔ اس کے مالیہ کی دیکھ بھال محکمہ صنعت و تجارت کے سپرد کی گئی۔

23؍جولائی 1927ء کو ممبئی ریڈیو اسٹیشن کا قیام عمل میں آیا۔ جبکہ اپریل 1930ء میں مدراس کارپوریشن نے براڈکاسٹنگ شروع کی جو 16؍جون 1938ء تک جاری رہی۔ دہرادون میں بھی مقامی کوششوں سے 16؍اپریل1936ء کو ایک ریڈیو اسٹیشن سے نشریات شروع ہوئیں جن کا سلسلہ 10؍مئی 1938ء تک جاری رہا۔ مالی مشکلات کی وجہ سے یہ ایڈیشن بھی بند ہوگیا۔
کلکتہ میں بھی ایک ریڈیو اسٹیشن قائم کیا گیا تھا مگر یہ بھی 1930ء میں بند ہوگیا۔ حکومت نے کلکتہ اور ممبئی کے ریڈیو اسیٹشنوں کا اثاثہ اپنی تحویل میں لے لیا اور نشریات کے تمام ادارے بلاواسطہ طور پر لیبر اینڈ انڈسٹریز ڈپارٹمنٹ کی نگرانی میں انڈین اسٹیٹ براڈ کاسٹنگ سرویس کی تحویل میں آگئے۔ جس کے بعد یکم؍جنوری 1934ء کو انڈین وائرلیس ٹیلیگراف ایکٹ نافذ ہوا۔ اس سے پہلے یہ قانون تھا کہ لائسنس کے بغیر ریڈیو سیٹ رکھا تو جاسکتا تھا لیکن سنا نہیں جاسکتا تھا۔ اس نئے ایکٹ کے بعد بغیر لائسنس کے ریڈیو سیٹ رکھنا بھی غیر قانونی قرار دیا گیا۔ جس کے اثر سے 31؍دسمبر 1933ء تک ریڈیو لائسنس کی تعداد 10ہزار 872 سے بڑھ کر 16,179ہوگئی۔
اگست 1935ء میں بی بی سی کے تجربہ براڈ کاسٹر لائنل فیلڈن کو براڈ کاسٹنگ کا کنٹرولر بنایا گیا جنہوں نے یکم؍جنوری 1936ء کو دہلی میں سنٹرل اسٹیشن کا افتتاح کیا اور ایچ ایل کریکے اور سی ڈبلیو گاڈیر جیسے نامور انجینئرس کی خدمات حاصل کیں جنہوں نے ہندوستان کے نشریاتی اداروں کو جدید تکنیک سے آراستہ کیا۔ 1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت براڈ کاسٹنگ کی مستقل حیثیت قائم ہوئی جس کے بعد مختلف شہروں میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہوئے۔ دوسری طرف 1933ء میں خود مختار دیسی ریاستوں میں سب سے پہلے نظام حیدرآباد نے ریاست حیدرآباد میں لاسلکی ریڈیو اسٹیشن قائم کیا۔ حیدرآباد میں ریڈیو نشریات کو متعارف کرنے کا سہرا چراغ علی کے سر جاتا ہے جن کے نام سے حیدرآباد کی چراغ علی گلی موسوم ہے۔ نظام حیدرآباد نے ’’نشرگاہ‘‘ کو خرید لیا۔ سر اکبر حیدری نے محبوب علی صاحب کو انتظامی امور کا سربراہ بنایا۔ نئی نشرگاہ یکم؍جنوری 1939ء کو کھولی گئی۔ حیدرآباد کے علاوہ خود مختار ریاستوں اورنگ آباد، بروڈہ، میسور اور تریوندرم میں بھی ریڈیو اسٹیشن قائم ہوئے۔ تقسیم ملک سے پہلے 14ریڈیو اسٹیشنس تھے۔ تقسیم کے بعد لاہور، پشاور اور ڈھاکہ کے ریڈیو اسٹیشن پاکستانی حصہ میں چلے گئے۔ ہندوستان میں بمبئی، کلکتہ، مدراس، دہلی، لکھنؤ اور تروچراپلی میں 6ریڈیو اسٹیشن آل انڈیا ریڈیو کے مراکز تھے اور پانچ ریڈیو اسٹیشن خود مختار ریاستوں کے پاس تھے جو یکم؍اپریل 1950سے آل انڈیا ریڈیو کی تحویل میں آگئے۔
ریڈیو نشریات، ذرائع ابلاغ یا نشریاتی صحافت میں ایک نیا انقلاب ثابت ہوئی۔ مطبوعہ صحافت (Print Journalism) جس میں اخبارات، جرائد و رسائل، ورقیے، پوسٹرس وغیرہ شامل ہیں‘ ان میں شائع ہونے والی خبریں پڑھا لکھا طبقہ ہی پڑھ سکتا ہے جسے پڑھنا نہیں آتا وہ کسی کا محتاج رہتا کہ اخبار سے پڑھ کر اسے سنایا جائے۔ ریڈیو پڑھے لکھے اور اَن پڑھ دونوں کے لئے یکساں طور پر مفید اور کارآمد ثابت ہوا۔ اس سے دلچسپی بڑھتی گئی اور پھر ریڈیو سے جیبی ٹرانسسٹر کی ایجاد نے اسے ہر فرد کی ضرورت بنادیا۔ خبریں، ڈرامے، موسیقی ریز پروگرامس، تبصرے، انٹرویوز غرض یہ کہ ہر قسم کے پروگرامس عوام کیلئے پیش کئے جانے لگے۔
8جون 1936ء میں انڈین اسٹیٹ براڈ کاسٹنگ کو آل انڈیا ریڈیو بنادیا گیا۔ 1940ء میں احمد شاہ بخاری آل انڈیا ریڈیو کے پہلے کنٹرولر بنے۔ 1943ء میں کنٹرولر کی جگہ ڈائرکٹر جنرل کا عہدہ قائم ہوا اور احمد شاہ بخاری اس عہدہ پر فائز ہوئے۔
ہندوستان کی آزادی کے بعد جالندھر،، جموں، پٹنہ، کٹک، سری نگر، گوہاٹی، شیلانگ، ناگپور، وجئے واڑہ، بروڈہ، الہ آباد، دھارواڑ، کوزکوڈ، پونہ، راجکوٹ، جئے پور، اندور، شملہ، بنگلور، اجمیر، بھوپال، چنڈی گڑھ، رانچی، کرسیانگ میں مقامی ریڈیو اسٹیشن قائم ہوئے۔ 2؍مارچ 1990ء کو ٹاملناڈو میں 100واں ریڈیو اسٹیشن قائم ہوا، یکم؍اپریل 1993ء کو بہرام پور اڑیسہ میں 150واں ریڈیو اسٹیشن قائم ہوا۔ یکم؍اکتوبر 1994ء کو ناسک میں 175واں ریڈیو اسٹیشن قائم ہوا۔
بہرحال آل انڈیا ریڈیو آج ہندوستان کے چپہ چپہ میں اپنے اسٹیشن اور ٹرانسمیشن مراکز قائم کرچکا ہے۔ 15؍اگست 1993ء کو ٹائمس آف انڈیا کے اشتراک سے ٹائمس ایف ایم چیانل کا آغاز ہوا۔ یکم؍ستمبر 1993ء سے ایف ایم چیانل ٹائمس سلاٹ کے تحت مدراس سے نشر ہونے لگا۔ 1994ء کلکتہ سے بھی اس کا آغاز ہوا۔ ستمبر 1994ء میں ملٹی ٹریک ریکارڈنگ اسٹوڈیو کا قیام عمل میں آیا۔ 28؍ستمبر 1994ء کو بنگلور میں500 کیلو واٹ کے چار سوپر پاور شاٹ ویو ٹرانسمیٹر کے افتتاح کے بعد بنگلور دنیا کا سب سے بڑا نشریاتی سنٹر بن گیا۔ یکم؍فروری 1996ء کو دہلی میں ایک نئے براڈکاسٹنگ ہاؤز کی بنیاد رکھی گئی۔ 2؍مئی 1996ء کو آل انڈیا ریڈیو نے انٹرنیٹ پر آن لائن سرویس کی شروعات کی۔ 13؍جنوری 1997ء کو عوام کے اصرار پر انٹرنیٹ پر آڈیو سہولت فراہم کی گئی۔ یکم؍اپریل 1997ء کو تجرباتی طور پر دہلی سے ڈیجیٹل آڈیو براڈ کاسٹنگ (DAB) کا آغاز ہوا۔ 26؍جنوری 1998ء سے سکینڈ ایف ایم چیانل ٹرانسمیٹر نے ریڈیو آن ڈیمانڈ کے تحت اپنی خدمات انجام دینا شروع کیں۔ 25؍فروری 1998ء سے آل انڈیا ریڈیو نیوز آن ٹیلیفون‘ فون اِن سیوا اور لائیو آن انٹرنیٹ جیسے پروگرامس شروع کئے۔ جس سے ریڈیو نے اپنی اہمیت اور شناخت کو برقرار رکھا۔ ایف ایم اسٹیریو چیانل مفید نیٹ ورک کے طور پر ملک کے تمام ریاستوں کی راجدھانیوں اور شہروں میں اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔
آل انڈیا ریڈیو اور اس سے پہلے صوبائی حکومتوں کی خانگی نشریات نے عوام کو دنیا اور اس سے ہونے والے واقعات سے لمحہ بہ لمحہ واقف رکھنے میں بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔ مقامی ریڈیو اپنے نشریاتی پروگرام کے ذریعہ متعلقہ علاقہ کا ہر طرح سے جائزہ لیتا ہے ان کی معاشرتی تہذیبی اور تاریخی معاملات پر روشنی ڈالتا ہے۔ قومی سرویس ملک کے مختلف مقامات کے عوام کو ایک دوسرے سے مربوط رکھتا ہے اور قومی و بین الاقوامی خبروں سے واقف کرواتا ہے۔ جبکہ جنرل اوورسیز سرویسبیرونی ممالک میں رہنے والے ہندوستانیوں کی تفریح و معلومات کے لئے مختلف زبانوں جن میں اردو بھی شامل ہے اپنی نشریات پیش کرتا ہے۔
آل انڈیا ریڈیو یا آکاشوانی کی کمرشیل سرویس ’وودھ بھارتی‘ کا آغاز 1967ء میں ہوا جس سے معقول آمدنی ہوتی ہے۔ 1969ء میں شروع کئے گئے ’یووانی‘ پروگرام نوجوانوں کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ زبیر شاداب نے لکھا ہے کہ موسیقی، تکلم (اسپوکن ورڈ) اور خبر آل انڈیا ریڈیو کے تین اہم ستون تسلیم کئے جاتے ہیں۔ موسیقی دو قسم کی ہوتی ہے۔ ساز کی موسیقی، آواز کی موسیقی۔ جنہیں مزید سات اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
(1)کلاسیکی (2)نیم کلاسیکی (3)ہلکی پھلکی (4)لوک موسیقی
(5)ساز سنگیت (6)فلمی موسیقی (7)مغربی موسیقی۔
تکلم یا اسپوکن ورڈس میں ریڈیو تقریر، کلام شاعر، شعری و ادبی نشست، مباحثہ، انٹرویو، کھیل کے میدان سے یا کسی تقریب کا آنکھوں دیکھا حال، ریڈیو رپورٹ، ریڈیو ڈراما، ریڈیو فیچر اور اسکرپٹ۔تینوں ہی اہم ہیں اور ان کا صحافت پر اثر رہا ہے۔ اہم موقعوں پر اہم قائدین کی نشری تقاریر کو اخبارات اپنے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ تبصروں سے بھی استفادہ ہوتا ہے۔ ڈرامے اور فیچر پر تبصرے یا ان سے متعلق مضامین شائع ہوتے ہیں۔ آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہونے والے پروگرام ہر دور میں مقبول عام رہے۔ ہوا محل، انسپکٹر ایگل، آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد سے چھوٹی چھوٹی باتیں اور ادبی پروگرام نیرنگ، نوجوانوں کا گلدستہ بہت مشہور رہے۔ خبریں تو ہر دور میں اہمیت کی حامل رہیں۔
ایسے دور میں جبکہ ٹی وی اپنی مقبولیت کی انتہا پر آکر بتدریج عوامی مقبولیت سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ ریڈیو اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کررہا ہے۔ کیونکہ ریڈیو پروگرام کی سب سے اہم خصوصیت یہی ہے کہ اسے سنتے ہوئے اپنا اپنا کام انجام دیا جاسکتا ہے‘ بلکہ کام کی روانی میں بھی مثبت فرق آتا ہے۔ جبکہ ٹیلیویژن پروگرام کے لئے سب کچھ چھوڑ کر توجہ دینی پڑتی ہے۔ ریڈیو پروگرامس میں سامعین کے لئے تجسس، دلچسپی برقرار رکھی جاتی ہے مثال کے طور پر کرکٹ اور ہاکی کی کامنٹری ریڈیو سے سننے میں جو لطف آتا ہے اور جس طرح سے جوش و خروش پیدا ہوتا ہے وہ ٹیلیویژن میں لائیو ٹیلی کاسٹ دیکھنے میں نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھی کچھ لوگ ٹی وی کی آواز کم کرکے ریڈیو پر کامنٹری سنتے ہیں۔ اُسی طرح بعض ڈرامے اتنے دلچسپ نشر ہوتے ہیں کہ سامعین کے تصور میں کردار خود بخود اُبھر کر آتے ہیں۔ فلمی کہانیاں نشر ہوتی تھیں تو سامعین اپنے تصور میں پوری فلم دیکھ لیتے تھے۔ آج کا دور ایف ایم ریڈیو کا دور ہے۔ موبائل فونس پر ایف ایم ریڈیو سے استفادہ کیا جارہا ہے۔ مختلف ریڈیو کلبس اتنے دلچسپ پروگرام اور خبرنامے نشر کررہے ہیں کہ اس کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
ریڈیو نشریات۔ زبیر شاداب۔وکی پیڈیا۔ ھسٹری آف ریڈیو۔
fazil
Article:Radio in India
written by Dr Syed fazil Hussain Perwez
mob:+919395381226

Share

One thought on “ہندوستان میں ریڈیو@ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز”

Comments are closed.

Share
Share