عہد آصفی میں اُردو زبان کا ارتقاء ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمد رضی الدین معظم

Share

محمد رضی الدین معظمعہد آصفی میں اُردو زبان کا ارتقاء

محمد رضی الدین معظم
مکان نمبر 20-3-866 ’’رحیم منزل ‘‘ ، شاہ گنج ، حیدرآباد ۔2
سیل: +914069990266, 09848615340

آج کل اُردو ہندی کا جھگڑا ادبیات سے گزر کر سیاست کی حدود میں پہنچ گیا ہے اور ’’ہندو مسلم ‘‘ کو ’’اردو ہندی ‘‘ سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ ایسے پر آشوب دور میں اردو ادب پر کچھ لکھنا ایک حد تک سیاست میں الجھنا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ بندۂ عاجز سیاسیات سے کوسوں دورہے۔ البتہ تاریخی اعتبار سے اتنا ضرور کہوں گا کہ اُردو ، ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ زبان ہے ۔ اُردو کے لئے ہندوؤں نے بھی اسی قدر جد وجہد کی ہے جس قدر مسلمانوں نے۔ جتنا حق ’’ماں باپ‘‘ کا اولاد پر ہوتا ہے اتنا ہی حق ہندو مسلمانوں کا حق اردو زبان ہے ۔ مسلمان اکثر اردو کو اپنی ملک تصور کرتے ہیں تو یہ انکی غلطی ہے اور ہندو اگر مسلمانوں کے اس ادعا کی وجہ سے ’’پوتر پتری ‘‘کو ’’ملکش‘‘ سمجھتے ہیں تو یہ ان کی غلطی ہے ۔ اردو ہندوستان کی زبان ہے اور ہندو مسلمان دونوں اس کے ’’ماتا پتا‘‘ ہیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کے دوش بدوش ہندوؤں نے اردو کی تعمیر میں حصہ لیا ہے ۔ پنڈت گانگو ، لالہ نسارام ، لالہ لچھمی نارائن شفیقؔ ، مہاراجہ چندو لال بہادرؔ ، راجہ رائے بہادر رایاں ، راجہ گردھاری پرشاد ، مہاراجہ سرکشن پرشاد بہادر، پنڈت دیا شنکر نسیم ، فراق گورکھپوری، راجندر سنگھ بیدی ، کنہیالال کپور، پریم چند، کرشن چندر وغیرہ کی اردو خدمات اور زرپاشیاں بھلائی نہیں جاسکتیں۔ میں بلا خوف تردید کہنا چاہتا ہوں کہ اردو مسلمانوں کی زبان سمجھ کر اس سے بیزاری بہت بڑی غلطی ہے۔
اردو زبان نہ تو شاہجہاں کی عہد کی پیداوار ہے اور نہ عہد اکبری کی۔ اس دور سے بہت پہلے خصوصاً دکن میں اردو کی داغ بیل پڑچکی تھی اور عہد بہمینہ میں اردو عالم وجود میں آچکی تھی۔ گو ابھی یہ آفت کا پرکالہ گھٹنیوں چل رہی تھی ۔ مگر اس پر بڑے بڑے متقی فدا تھے۔ حضرت خواجہ بندہ نوازگیسو دراز رحمتہ اللہ علیہ سے لے کر فیروز شاہ بہمنی تک اس کے زلف گرہ گیر کے اسیر تھے۔ سب سے پہلے شاہان بہمنی نے گانگو پنڈت کے مشورے سے اردو کو سرکاری زبان قرار دیا اور ہندوی یا ہندی مدت تک شاہان بہمینہ کی سرکاری زبان بنی رہی جسے عام لوگ دکنی کہتے تھے۔
حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمتہ اللہ علیہ نے گیسوئے اردو کو سنوارنے میں اتنا ہی حصہ لیا جتنا کہ مذہب اسلام کی اشاعت اور اعلائے کلمتہ الحق کے لئے کیا تھا۔ حضرت کے کئی ایک رسائل نثر میں ایک اور ضخیم فہرس نامہ جو کئی ہزار ابواب پر مشتمل ہے نظم میں شاہکار تصنیف ہے ۔ شاہانِ بہیمنہ نے اس نوخیز زبان کی انتہائی سرپرستی کی اور اپنا دور ختم کرکے عادل شاہی اور قطب شاہی حکمرانوں کو سونپا ۔ عادل شاہی حکمرانوں نے اس نوخیز زبان کی بڑی آؤ بھگت کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وسیمیؔ ، نصرؔ تی، امنؔ ، سیواؔ ، مومنؔ ، ہاشمیؔ ، مرزاؔ جیسے شعراء کرام شانہ بدست گیسوئے اردو کو سنوانے لگے۔ قطب شاہی حکمرانوں نے ملا غواصی ، ملا قطبی ، ابن نشاطی ، جنیدی ، نوای ، فائز، شاہی ، مرزا کو اس آفت زمانہ کی حفاظت کے لئے مقرر کرنے کے علاوہ خود بھی اس کی خوب خدمت بجالائی۔ محمد قلی قطب شاہ عبداللہ قطب شاہ اور ابوالحسن تانا شاہ نے وہ والہانہ خدمات انجام دیں کہ ’’بھاگ گھر‘‘ میں اسی بھاگونتی یا بھاگیہ متی کا چرچا گھر گھر ہوگیا۔
عہد مغلیہ میں بھی مغل حکمرانوں نے بھی اس نئی نویلی کی بڑی آؤ بھگت کی اور ہرطرح پروان چڑھایا ۔ عاجزؔ ، بحریؔ ، امینؔ ، ولیؔ دکنی، وجدیؔ ، آزادؔ جیسے فدائی اس نوخیز کے فدا ہوگئے اور انہوں نے نت نئے طریقوں سے آرائش و زیبائش کی۔ اس فتنۂ نوخیز کو آفت زمانہ بنادیا۔
بارہویں صدی ہجری کے وسط میں حضرت آصف جاہ نظام الملک اعظم نے اپنے قدوم میمنت لزوم سے دکن کو مسخر فرمایا تو آپ کی نگاہ بھی اس آفت زمانہ پر پڑی اور اس بِس کی گانٹھ نے حضرت کا من موہ لیا۔ پھر کیا تھا اس پرکالۂ آتش کے حسن جہاں سوز میں چار چاند لگ گئے۔ ولیؔ اورنگ آبادی، داؤدؔ دکنی ، سراجؔ اورنگ آبادی، درگاہ قلی خاں سالارجنگ، نوازش علی خاں شیداؔ ، علی علی شاہ ، نور الدین رنگیںؔ ، عاشق علی خاں ایمانؔ ، صمصام الدولہ صارمؔ ، لچھمی نارائن شفیقؔ ، عنایت اللہ قنوتؔ ، غلام علی آزادؔ ، غلام علی ارشدؔ جیسے بلبل اس گل صد برگ پر فدا ہونے لگے اور ان کے زمزموں سے چمنستان دکن گونج اٹھا۔ نواب نظام علی خاں بہادر نے بھی اس کی بڑی قدر دانی فرمائی۔ قمرالدین منتؔ ، احسن اللہ خاں بیانؔ ، مرزا علی لطفؔ ، حافظ تاج الدین مشتاقؔ ، شیر محمد خاں ایمان، محمد صدیق قیسؔ ، حسن علی خاں ایماؔ ، عباس علی خاں احسان ، عبدالوالی عزتؔ ، عارف الدین خاں عاجزؔ نے اس فتنہ زمانہ کے حسن جہاں سوز کو اشک تجلی طور بنادیا ہے ۔
ماہ لقابائی چندا نے بھی اس پر فدا ہو کر اپنا تن من دھن نثار کردیا اور اردو میں ایک دیوان مرتب کرلیا جو اردو کاپہلا دیوان ہے کیوں کہ اس سے پہلے کسی عورت نے باضابطہ شاعری کرکے دیوان مکمل نہیں کیا تھا۔
نواب سکندر جاہ کے زمانہ میں اس فتنۂ نوخیز کی بڑی آؤبھگت رہی ۔ مہاراجہ چندو لال جیسے شخص بھی اس سنگھاسن کی پری پر ریجھ گئے پھر کیا تھا اس کے سبب شیخ حفیظؔ اور شاہ نصیر کو دلی سے بلوایا گیا ۔ مرزا غالبؔ اور شیخ ابراہیم ذوقؔ کو بھی مہاراجہ چندو لال نے طلب فرمایا مگر ان سے دلی کی گلیاں نہ چھوٹیں ۔ مرزا داؤد ہنرؔ ، بہاء الدین خاں عروجؔ وغیرہ نے اس پرکالۂ آفت کے چاہنے والوں میں بڑا نام پیدا کیا۔
نواب ناصر الدولہ بہادر اور نواب افضل الدولہ بہادر کے زمانہ میں بھی اس نوخیز نے بڑا عروج پایا۔ حافظ محمود شاہ معین خاموؔ ش، مرزا سالکؔ ، بچولال تمکینؔ ، سیتل پرشاد خرمؔ ، شمس الدین فیضؔ ، بہاری لال رمزؔ وغیرہ نے اسی کی محبت میں وہ نالہ ہائے موزوں کئے جو آسمان ادب پر شعر بن کر چمکے۔
عین اسی ہنگامے میں جب کہ احمد علی عصرؔ ، حید ر علی حیدرؔ ، ذوالفقار علی رضاؔ ، احمد علی شہید جیسےآتش نوا ترانۂ الفت سنارہے تھے۔ اعلیٰ حضرت میر محبوب علی بہادر آصف سادس نے تخت سلطنت پر قدم رنجہ فرمایا ۔ حضرت آصف سابع جو عموماً حضرت غفران مکاں کے نام سے جانے جاتے تھے نہ صرف بلند پایہ شاعر تھے بلکہ بلندپایہ نقاد بھی واقع ہوئے تھے۔ حضرت غفران مکاں کو اس نوخیز کی چلبلی ادائیں اور دلفریب گھاتیں ایسی بھائیں کہ اس سے دلچسپی پیدا ہوگئی۔ استاد داغ ؔ ، حضرت امیر مینائی ، ظہیر دہلوی ، حید جنگ حید، نظم طباطبائی ، سورج بھان سرکش تھانوی، ناصر علی برترؔ ، غلام علی جوشؔ ، دلاور علی دانش، حضرت امیر حمزہ ، مخدوم حسینی رفعت، نواب اقبال یارجنگ بہادر اقبالؔ ، نواب لقمان الدولہ بہادر دلؔ ، خیرات علی سخیؔ ، نواب آصف یاور الملک بہادر وزیرؔ ، محمد علی رنجؔ ، نواب صادق جنگ بہادر علمؔ ، اعظم علی شائق ، نواب ضیغم بہادر سرفراز وغیرہ نے اس دور میں اپنی شعلہ بیانی اور آتش نوائی سے ہلچل مچادی اورنئی نویلی دلہن کی طرح ’’نئی نویلی اردو زبان‘‘ نکھر کر اس نوبت پر آگئی جسے دیکھ کر استاد داغؔ نے بے ساختہ کہہ دیا ؂
اُف تری کافر جوانی جوش پر آئی ہوئی
یہ دور اپنی تابناکیوں کا جلوہ دکھارہا تھا کہ نواب میر عثمان علی بہادر تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہوگئے ۔ پھر کیا تھا یہ نشہ دوآتشہ ہوگیا ۔ استاد حضرت فصاحت جنگ جلیل ؔ ، عبدالحئی بازغؔ ، ضامنؔ کنتوری، حضرت رضی الدین حسن کیفیؔ ، منتخب الدین تجلی، جلال الدین توفیقؔ ، محمد علی خاں ناظم، وارث علی وارثؔ ، حسن علی خاں امیرؔ ، نواب صولت جنگ بہادر عابدؔ ، نواب عزیز یار جنگ بہادر عزیز ، نجم الدین ثاقبؔ ، حضرت احمد حسین امجدؔ جیسے ممتاز معظم شاعروں نے افق شعرکو خوب چمکادیا۔
آصف سابع میر عثمان علی خاں بہادر نہ صرف اعلیٰ پایہ شاعر اور عدیم النظیر سخن فہم تھے فقید المثال نقاد بھی واقع ہوئے تھے۔ خسرو ملک معانی نکتہ رسی و ژرف نگاہی نے اردو کو اور نکھاردیا اور وہ اردو جو بقول قائم چاند پوری’’اک بات لچر سی زبان دکنی تھی‘‘ مسلمہ زبان بن گئی ۔ اب کیا تھا اردوذریعہ تعلیم بنادی گئی۔ اردو زبان میں جملہ علوم و فنون منتقل کئے جانے لگے۔ جامعہ عثمانیہ اردو جامعہ بن کر اُبھری اور وہ اردو جس کی تعلیم صرف ابتدائی جماعتوں تک ہی محدود تھی پی۔ایچ۔ڈی ، ڈی لٹ اور یسرچ اسکالر پیدا کرنے لگی ۔ اُردو نے نہ صرف دکن بلکہ پورے ہندوستان میں استحکام حاصل کرلیا اور حضرت آصف سابع کی فیاضی دریا دلی اور زرپاشی سے ہندوستان کے منتخب افراد کو حیدرآباد میں جمع کردیا اور حیدرآباد اردو زبان کے لئے قابل رشک بن گیا؂
قائم دائم رہے الٰہی یہ شہر
رشکِ فردوس حیدرآباد دکن
توفیقؔ ، کیفیؔ ، تجلیؔ ، ناظم ، عابدؔ ، امیرؔ وغیرہ ایک ایک کرکے آنے والوں کے لئے جگہ خالی کرتے رہے ۔ اور صفیؔ ، غیورؔ ، سرمدؔ ، بازؔ ، وغیرہ اس پر قابض ہوتے رہے۔
ابتداًء دکنی شاعری کا انداز جو کچھ رہا اس سے اردو محققین خوب واقف ہیں ’’ دندان تو جملہ در دہان اند‘‘ قسم کی شاعری کی جاتی تھی ۔ چنانچہ ایک دکنی بزرگ فرماتے ہیں؂
کیا مجھ سے پوچھتا ہے سریجن کدھر گیا
گھر کی طرف گیا ہے تو تحقیق گھر گیا
یا مولانا ہاشمی کا یہ شعر ملاحظہ ہو؂
جہاں کو نکو کنگن تم دیدہ چور ہوگا
بیٹی ہو ہاشمی کی دنیا میں شور ہوگا
یا پھر سیدھی سادھی باتیں مولانا نوری کی طرح یوں کہی جاتی تھیں؂
ہرکس کے خیانت کند البتہ بترسد
بیچارہ نوری نہ کرے ہے نہ ڈرے ہے
چنانچہ سعدی دکھنی نے اسی کو ریختہ بنایا اور ’’ہم ریختہ ہم گیت ہے ‘‘ کہہ کر ریختہ میں موتی رولنا شروع کیا ۔ مگر یہ رنگ زیادہ مدت تک نہیں رہا۔ نہایت تیزی کے ساتھ اس میں تبدیلی ہونے لگی۔ اور اشعار میں سوز و گداز پیدا ہونے لگا؂
کت در رہوں جاؤں کہاں، مجھ دل پہ پہل بچھڑات ہے
اک بات کیسے ہوں گے صنم یاں جی بارابات ہے
یا
جگ ہنسائی نہ کر خدا سوں ڈر
بے وفائی نہ کر خدا سوں ڈر
اس رنگ کو خدائے سخن ولی دکنی نے نکھارا اور شاعری کو فرش زمین سے عرش معلی پر پہنچادیا ۔ چونکہ دلی کو اجاڑ کر دولت آباد کو آباد کیا گیا تھا اور امیر ان صدہ (بانیان سلطنت بہمینہ) دلی ہی سے آئے تھے۔ شنہشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے دلی والوں ہی کو لاکر اورنگ آباد کو آباد کیا تھا۔ حضرت آصف جاہ اور ان کے مصاحب و خواص ہمراہی اور خدام دلی ہی کے تھے اس لئے دکن کی زبان طرز معاشرت وغیرہ دلی ہی کی سی رہی مگر جب لکھنو بنا اور پھر بگڑا تو شعراء لکھنو نے بھی حیدرآباد ہی میں پناہ لی اور دلی اسکول میں لکھنو اسکول سمانے لگا ۔ دلی اسکول تو اپنی جگہ آخر وقت تک قائم رہا مگر لکھنو اسکول اپنی وضع نباہ نہ سکا۔ چولی ، مسّی ، دھڑی کے مضامین کم ہونے لگے۔ اور خود لکھنو اسکول کے اساتذہ نے دلی والوں کا تتبّع شروع کردیا ان میں بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے کچھ دلی اسکول کا اثر قبول کیا اور کچھ لکھنو اسکول کا اثر قبول کئے۔ اس طرح ایک جدید رنگ جو دلی سے الگ اور لکھنو سے جدا تھا قائم ہوگیا۔ اس رنگ میں لکھنو والے بھی رنگ گئے اور دلی والے بھی اور ممتاز معظم اساتذہ کرام نے بھی اس کی چھینٹیں فخر سمجھ کر سر اور آنکھوں پر ملیں ۔ چنانچہ شیخ حفیظ ؔ ، فیضؔ ، علویؔ ، میکشؔ ، نظم طباطبائی ،برتر غازی پوری وغیرہ کے گرانمایہ دیوان اس کے شاہد ہیں ۔ اساتذہ شعراء کرام میں مہاراجہ سرکشن بہادر شادؔ ، حضرت فصاحت جنگ جلیلؔ ، ضامن کنتوری ، نواب عزیز یار جنگ بہادر عزیزؔ ، حضرت صفی اورنگ آبادی وغیرہ اسی رنگ کے شعرا تھے ۔ استاد جلیل حضرت امیر مینائی کے جانشین اور لکھنو اسکول کے استاد مانے جاتے تھے مگر آپ کے کلام میں لکھنو سے ہٹا ہوا دلی کی شناخت میں بسا ہوا ایک خاص رنگ تھا۔ اسی طرح مہاراجہ بہادر دکنی بزرگ تھے اور انہیں اساتذہ دلی سے تلمذ حاصل تھا مگر ان کے کلام میں دلی کی شکایت اور لکھنو کے چرچے کے ساتھ ساتھ ایک اور ندرت بھی تھی جس کا احساس صرف ذوق سلیم ہی کرسکتا ہے۔ یہی حال عزیز یار جنگ عزیز ؔ ، ضامن کنتوری اور صفی اورنگ آبادی کا بھی تھا۔
حضرت میر عثمان علی خاں بہادر آصف سابع استاد جلیل سے مشورہ سخن فرماتے تھے ۔ آپ کا کلام فصاحت ایہام اس لذت اور بے ساختگی سے مملو تھا جو دکن کا حصہ بن چکی تھی۔ حضرت آصف سابع کے اشعار دُر بار نہ صرف فصاحت و بلاغت کی جان تھے بلکہ تخیل و محاکات کا اعلیٰ ترین نمونہ و گرانمایہ مثال تھے۔
تذکرہ نویسی میں بھی دکن ہمیشہ سارے ہندوستان سے آگے رہا۔ لالہ لچھمی نارائن شفیقؔ کا چمنستان الشعراء اور گل رعنا اور شوکت اور افتخار وغیرہ کے تذکرے دنیائے تذکرہ میں شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں۔

Share
Share
Share