نفسیاتی مضمون

Share

ڈاکٹر مجید خان
ظالم اولاد
دواخانوں کے حالات بدل رہے ہیں ۔ میں اس وقت دواخانوں کی مشکلات پر روشنی ڈالوں گا ۔ خاص طور سے جہاں پر پُرتشدد مریضوں کو شریک کیا جاتا ہے ۔ نئی قانونی پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں ۔ یہ تمام قوانین گو کہ مریض کی بھلائی کیلئے بنائے جارہے ہیں مگر عملاً جن مسائل سے روزانہ دماغی امراض کا دواخانہ دوچار ہوتا ہے اس کی چند مثالیں میں پیش کرنا چاہوں گا ۔ایک کافی کمزور ، مہذب اور خوش اخلاق شخص اپنی مشکلات کا رونا روتے ہوئے یوں ذکر کرتے ہیں ۔ میرے دو لڑکے ہیں ۔ بڑے لڑکے کے تعلق سے مشورہ کرنے کے لئے آیا ہوں ۔ آنے کے لئے قطعی تیار نہیں ہے ۔ آپ کے نام سے مشتعل ہوجاتا ہے اور سب کو قتل کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے ۔ قوی ہیکل ہے ۔ 100کیلو سے زیادہ وزن ہے اور وحشی کی طرح ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں آیا جایا کرتا ہے ۔ قہقہے لگاتا ہے ۔ گھر کے باہر کہیں نہیں جاتا ۔ صفائی کی کوئی فکر نہیں ۔ نہ جانے کب غسل کیا ہوگا ۔ اگر کھانے میں دیر ہوگئی تو ماں کو لات مارنا شروع کردیتا ہے ۔ نوکر اس کے غصے کی وجہ سے رہنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ اب ہم کریں تو کیا کریں۔ رات بھر سوتا نہیں اور دن میں دیر تک سوتا ہے ۔ اگر آپ کچھ دوا دیں تو چوری چھپے اس کے تشدد کے لئے ہم دے سکتے ہیں ۔ اب براہ مہربانی ایک نسخہ عطا فرمایئے ۔تفصیلات پوچھنے پر پتہ چلتا ہے کہ صاحبزادے یہاں سے انجینئرنگ پاس کئے ، پھر امریکہ گئے ، MS پاس کئے ۔ کئی سالوں تک وہاں رہے اور چند ماہ پہلے اچانک واپس آگئے اور یہ صورتحال ہے ۔ خاندان والوں کی مدد لینا بھی مشکل ہے ، کیونکہ

وہ سب سے نفرت کرتے ہیں اور کافی لحیم شحیم ہونے کی وجہ سے لوگ انکے قریب جانے سے ڈرتے ہیں ۔ ہم بڑی مصیبت میں گھرگئے ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو دماغی مریض نہیں سمجھتے ، اسلئے علاج کیلئے راضی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

مجھ سے خواہش کی جارہی ہے کہ بغیر مریض کو دیکھے میں ایک نسخہ دے دوں ۔ بہترین نسخہ تو میں دے سکتا ہوں جو انکے تشدد کو کم کرسکتا ہے مگر بغیر مریض کو دیکھے یہ کیسے کرسکتا ہوں ۔ خدانخواستہ کچھ حادثہ ہوجائے اور پتہ چلا کہ ڈاکٹر کی دوا بھی استعمال کئے تھے تو ڈاکٹر سے پوچھ تاچھ شروع ہوجاتی ہے کہ آپ بغیر مریض کو دیکھے کیسے کوئی دوا تجویز کرسکتے ہیں ۔ مریض کے والد کے ساتھ پوری ہمدردی کرتے ہوئے اور ان کے مصیبتوں کو سمجھتے ہوئے بھی ان کی مدد کرنا ممکن نہیں تھا ۔

بظاہر ایک پڑھا لکھا انسان قانونی طور پر ایک ذمہ دار شہری مانا جاتا ہے ۔ اس کے حقوق میں دراندازی نہیں کی جاسکتی ۔ اگر وہ پاگل رہنا چاہتا ہے تو وہ اس کا ذاتی معاملہ ہے ۔ ایسے کئی خاندان ہیں جہاں پر ظالم و جابر بچے اپنے والدین کو یرغمال بنائے رکھتے ہیں ۔ مسلسل اخراجات کیلئے رقم کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں اور نہ ملنے پر مار پیٹ شروع کردیتے ہیں ۔ عزت کی خاطر بیچارے والدین خاموشی سے یہ ظلم و ستم برداشت کرتے رہتے ہیں چونکہ فلیٹ میں رہتے ہیں اس لئے بدنامی کا ڈر لگا رہتا ہے ۔
اگر یہ شخص امریکہ میں ہوتا تو قانونی اعتبار سے اس کا خاطر خواہ علاج ہوسکتا تھا مگر وہ صرف پڑھائی اور ملازمت کے ویزا پر تھا اس لئے ان مقامی سہولتوں سے وہ محروم رہا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ موجودہ حالات میں کیا کیا جائے ۔

میں نے کہا کہ آپ مقامی پولیس اسٹیشن جایئے اور کسی ہمدرد انسپکٹر سے مل کر یہ تفصیلات سنایئے اور اس سے درخواست کیجئے کہ وہ اس مریض کو دواخانہ لے آئے ۔ جیسے ہی یہ لوگ پولیس کا نام سنتے ہیں ، تھوڑی عقل آتی ہے اور ان کی بات سننے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں ۔ مگر بیچارے والد صاحب اس کے لئے تیار نہیں تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پولیس آئے تو ہماری بدنامی ہوگی ۔ میں نے کہا کہ اکثر وہ لوگ سادہ لباس میں آتے ہیں مگر یہ تجویز ان کو پسند نہیں آئی ۔
دوسرا مشورہ میں نے یہ دیا کہ قانوناً اس لڑکے کو ایرہ گڈہ ہاسپٹل میں شریک کروایا جاسکتا ہے مگر افسوس کی بات تویہ ہے کہ موجودہ منٹل ہیلتھ ایکٹ تقریباً کالعدم ہے اور نیا قانون جس کو منٹل ہیلتھ کیر ایکٹ کہا جائے گا موجودہ لوک سبھا میں لایا جانے والا ہے ۔ یہ قانون تو اور بھی پیچیدہ ہے کیونکہ اس میں مریض کے حقوق اور ان کو بلاوجہ دواخانے میں شریک کروانے کے خلاف تحفظات ہیں مگر تشدد بھرے مریض سے ساتھ رہنے والے رشتہ داروں کو جو خطرات ہیں اس کا کوئی عملی حل نہیں تجویز کیا گیا ہے ۔ جس طرح سے اکثر قوانین بغیر کسی بحث و مباحثہ کے پاس ہوجاتے ہیں وہ مسائل کو اور بھی پیچیدہ کردیتے ہیں ۔ یہی حال اس نئے قانون کا بھی ہونے والا ہے ۔
پرانے زمانے میں ہم دو چار ہٹے کٹے لوگوں کو بھجواتے تھے اور زبردستی ان کو نیند کا انجکشن دے کر دواخانے کو لایا جاتا تھا اور الکٹرک علاج سے وہ لوگ بہتر ہوجاتے تھے ۔ مگر آج یہ کام اتنا آسان نہیں رہا ۔ خاندان کے لوگ ایک چیخ پکار کرنے والے ’علانیہ پاگل‘ عورت کو دواخانہ لارہے تھے تو وہ پکارنے لگی کہ دشمن میرا اغوا کررہے ہیں پولیس سب کو تھانے لے گئی ۔

چند دن بعد یہ صاحب پھر واپس آئے اور کہنے لگے کہ مقامی پولیس کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھا رہی ہے تو پھر میں نے ان کو سمجھایا کہ مریض کو گھر سے نکالئے اور زبردستی دواخانے میں اسکی مرضی کے خلاف شریک کروایئے ۔ اس کے بغیر علاج ممکن نہیں ہے ۔ دواخانوں میں جو رجسٹرڈ ہیں اس قسم کے مریضوں کو ان کی مرضی کے خلاف شریک کیا جاسکتا ہے مگر بیچارے خوفزدہ تھے ۔ وہ گھر سے باہر نکلنے کو ڈر رہے تھے ۔ ماں کے ساتھ بیٹے کا سلوک وحشیانہ تھا ۔ اگر کھانے میں دیر ہوجائے تو گلا دبانے کو جاتا تھا ۔ اب آپ غور کیجئے آپ کے گھر میں ایسا خطرناک مریض ہو تو آپ کیا کرینگے ۔ چھوٹا بھائی تو ہاسٹل چلا گیا ۔ میں نے پھر ایک ترکیب سوچی ۔ والدین ہی اس کا کچھ حل نکال سکتے ہیں ۔ دن کے وقت تو وہ سویا رہتا ہے اس لئے اس وقت میں نے دونوں کو بلایا ۔ میں نے کہا کہ چونکہ دونوں کی زندگی حرام ہوگئی ہے اور علاج بغیر اس کی مرضی کے کرانا ممکن نہیں ہے اس لئے اس کے یرغمال بنے رہنا مناسب نہیں ہے ۔ میں نے مشورہ دیا کہ وہ دونوں فلیٹ چھوڑدیں اور اس کو اکیلا چھوڑ دیں ۔ امریکہ میں کئی سال اکیلا رہ چکا ہے ۔ میں یہ دیکھنا چاہ رہا تھا کہ کیا یہ تجویز ماں کو پسند آئے گی ۔ بیچاری اتنی بیزار ہوچکی تھی کہ کسی صورت میں اس سے پیچھا چھڑانا چاہتی تھی ۔ میں نے ان کو سمجھایا کہ وہ پہلے ایک تفصیلی خط لکھیں جن میں اس کے پاگل حرکات اور علاج کی ضرورت کے تعلق سے لکھیں اور یہ لکھیں کہ ان کو ڈر ہیکہ وہ ان کو اپنے غصے میں جان سے نہ مار دے ۔ یہ بھی لکھیں کہ وہ اس کے ساتھ رہ نہیں سکتے اور وہ ان سے ملنے کی کوشش نہ کرے ۔ مزید تفصیلات کیلئے فلاں فلاں سب انسپکٹر سے ربط پیدا کریں وہ آپ کی پاگل حرکتوں سے واقف ہے اور آپ کے علاج میں آپ کی مدد کریں گے ۔

ماں کو سنگدل بننا ضروری تھا ۔ یہ طے پایا کہ مقامی ہمدرد سب انسپکٹر سے مشورے کے بعد یہ کارروائی کرنی چاہئے ۔ میں بھی عہدیداران سے بات کرنے کے لئے تیار تھا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ لوگ میرے مشورہ پر عمل کریں گے یا نہیں ۔ ظاہر ہے جب وہ خط پڑھے گا اور دیکھے گا کہ اس کا ناشتہ تیار نہیں ہے تو کتنا آگ بگولا ہوگا وہ دلچسپ رہے گا ۔ باہر مجبوراً نکالنا پڑے گا ۔ وحشیوں جیسا حال ، جنگلی جانور کی طرح بال بڑھے ہوئے ، میلے کپڑے اور کئی مہینوں تک بغیر غسل کیا ہوا جسم ، مجبوراً والدین کی تلاش میں اس کو مقامی پولیس اسٹیشن جانا پڑے گا ۔ فلیٹ میں پڑوسی تو دیکھ رہے ہوں گے کیونکہ ان کو بھی رازدار بنانا ضروری تھا ۔ یہ ایک ہی حل مجھے سمجھ میں آرہا تھا ۔ پولیس کی مدد کی حد تک میں نے ذمہ داری قبول کی ۔ مگر اب دیکھنا باقی ہے کہ والدین اس اسکیم کو عملی جامہ پہناسکیں گے یا نہیں ۔ اسی لئے آج کل یہ ناگزیر ہوگیا ہے کہ اولاد کے غصے اور تشدد پر نظر رکھیں اور حالات کو بے قابو ہونے نہ دیں ۔ نہیں تو قانون آپ کی حفاظت کرے گا نہ سماج !۔
روزنامہ سیاست

Share

One thought on “نفسیاتی مضمون”

Comments are closed.

Share
Share