افسانہ : راستہ -@- سلام بن رزاق

Share

سلام بن رزاق

افسانہ : راستہ

سلام بن رزاق
603 -B ‘ نیو آکار سی ایچ ایس ۔ بالمقابل حیدری مسجد ‘نیا نگر‘ میرا روڈ (ایسٹ)‘ تھانے ۔
ای میل :
موبائل : 09967330204

بادشاہ بہت پریشان تھا۔ اُس کی پریشانی دن دونی رات چوگنی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس نے وزیروں سے مشورے کیے۔ افسروں سے رائے طلب کی۔ صلاح کاروں سے صلاح لی۔ کئی منصوبے بنائے، کئی تدبیریں آزمائیں مگر سب بے سود۔ نہ کوئی منصوبہ بارآور ہو سکا نہ کوئی تدبیر ہی کارگر ہوئی۔ بدعنوانی اور رشوت ستانی کسی وبا کی طرح پورے ملک میں پھیلتی جارہی تھی۔ ملک کا اقتصادی ڈھانچہ اس قدر کھوکھلا ہوگیا تھا کہ لگتا تھا پورا ملک کسی بھی وقت ریت کے گھروندے کی طرح بھرُ بھرُا کر ڈھے جائے گا۔ لوگ رشوت خوری کے اتنے عادی ہوگئے تھے کہ اگر کسی دن انہیں رشوت نہ ملتی تو سمجھتے زندگی کا ایک دن اکارت گیا۔ سنتری سے لے کر منتری تک ہر کوئی رشوت لینے کو اپنا حق سمجھتا۔ رشوت کا رواج ایک قدر کے طور پر پورے ملک میں رائج ہو گیا تھا۔ قانون بے بس تھا کیوں کہـ’ لے کے رشوت پھنس گیا ہے دے کے رشوت چھوٹ جا،کا مہامنتر ہر ایک کو زبانی یاد تھا جس کے سبب ہر کوئی قانون کی گرفت سے یوں نکل جاتا جیسے چھلنی سے پانی یا مٹھی سے ریت۔
اسی دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے بادشاہ کے رہے سہے ہوش بھی اُڑا دیے۔

ہوا یہ کہ پچھلے دنوں بادشاہ بیمار ہوگیا۔ علاج معالجے کے بعد جب غسلِ صحت سے فارغ ہوا تو اس نے صدقے کے طور پر اپنے وزن کے برابر سونے کی اشرفیاں تلوائیں اور وزیر اعظم کو حکم دیا کہ انہیں غریب غرباء میں تقسیم کر دے۔ وزیراعظم ایک کائیاں………… اس نے آدھی اشرفیاں خود رکھ لیں اور باقی آدھی شہر کوتوال کے حوالے کیں۔ شہر کوتوال بھی کم سیانا نہ تھا۔ اس نے اپنے حصے کی آدھی اشرفیاں نکال لیں اور باقی اپنے نائب کے سپرد کیں۔ نائب نے اپنا حصہ الگ کر لیا اور بچی ہوئی اشرفیاں اپنے ماتحت کودیں۔ اس طرح گھٹتے گھٹاتے آخر میں صرف ایک اشرفی بچی جو ایک فقیر کو خیرات کردی گئی۔ بادشاہ کو اس کے معتبر ،مخبروں نے جب یہ خبر دی تو اس کی تشویش میں دو چند اضافہ ہوگیا۔ جب کھیت کی باڑھ ہی کھیتی کھانے لگے تو کسان کی بے بسی معلوم۔

مکمل افسانہ پی ڈی ایف میں پڑھیں

Click to access Raasta_convert-Notepad.pdf

Share

One thought on “افسانہ : راستہ -@- سلام بن رزاق”

Comments are closed.

Share
Share