مسجد افضل گنج، حیدرآباد – – – ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی – ورنگل

Share

مسجد افضل گنج

مسجد افضل گنج، حیدرآباد
Masjid Afzal Gunj, Hyderabad

ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی – ورنگل
09866971375

جامع مسجد افضل گنج کو نظام دکن پنجم افضل الدولہ نے تعمیر کروایا تھا۔ افضل الدولہ میر تہنیتؔ علی خان صدیقی آصف جاہ پنجم ریاست حیدرآباد کے بڑے فعال حکمراں گذرے ہیں انہوں نے ریاست کو پانچ صوبوں اور 16اضلاع میں تقسیم کیا تھا جو ان کی انتظامی فراست کا بہترین ثبوت ہے ۔ان کے والد آصف جاہ چہارم میر فرخندہ علی خان تھے اور انکی والدہ کا نام دلاور النساء بیگم تھا،انہوں نے تین شادیاں کیں جن کے نام (۱) صاحبزادی محبوب بیگم (۲)صاحبزادی اللہ رکھی بیگم (۳)صاحبزادی حسینی بیگم تھے ۔ آصف جاہ پنجم نے ریاست حیدرآباد میں کئی اصلاحات کیں جیسے ، پوسٹ کا نظام، ریل ، مالگذاری کا نظام، عدالت کا نظام وغیرہ ۔انہیں تعمیرات اور رفاہ عام کے کاموں سے بھی دلچسپی تھی، انہوں نے اپنی بیویوں اور ماں کے نام سے مکہ المکرمہ میں حیدرآبادی رباط بنائے، جن میں ایک ’’حسین بی رباط‘‘ 1993تک کارکرد تھی،یہ رباط موجودہ ہلٹن مکہ ہوٹل کے مغربی جانب

موجود میدان میں واقع تھی، حرم شریف کی توسیع کے سلسلے میں اس کو منہدم کردیا گیا۔ حیدرآبادی رباط آج بھی حجاج اکرام کی مکہ مکرمہ میں خدمات انجام دے رہی ہے لیکن ان کا ابتدائی مقام بدل گیا ہے،ان دنوں یہ حیدرآدی رباط حرم شریف سے ایک کلو میٹر دور علاقہ مسفلہ میں واقع ہے۔ افضل الدولہ نے حیدرآباد میں اپنے نام سے افضل گنج کے علاقے کو ترقی دی جو آج بھی معروف تجارتی مرکز ہے۔مسجد کے اطراف بازار ہے مسجد کی ملگیوں میں بھی کئی دوکانات ہیں ، مسجد کے قریب شہر حیدرآباد بلکہ ریاست آندھرا پردیش کا سب سے بڑا دواخانہ عثمانہ ہے۔جس کو افضل الدولہ کے پوتے میر عثمان علی خان آصف جاہ ہفتم نے بنوا یا تھا ۔ افضل الدولہ نے زیادہ عرصے تک حکومت نہیں کی کیونکہ ان کی عمر بڑی مختصر تھی، وہ صرف 42برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
افضل گنج ایک مصروف علاقہ ہے اس مصروف علاقے میں افضل الدولہ نے 1866 ء میں ایک مسجد تعمیر کروائی ۔جس کے متعلق مجھے مسجد کے مصلیوں نے بتایا کہ یہ مسجد افضل الدولہ کی ایک زوجہ حسینؔ بی نے اپنے مہر کے پیسوں سے تعمیر کروائی تھی اور اس مسجد کی تعمیر کا علم بھی افضل الدولہ کو آغاز تعمیر کے بہت بعد ہوا۔افضل گنج حیدرآباد یہ مسجد تعمیری اعتبار سے کافی خوبصورت ہے، تعمیری وجاہت سے بھر پور یہ مسجدقدرے اونچائی پر بنائی گئی ہے،اس مسجد کا شمار حیدرآباد کی بہترین مساجد میں کیا جاسکتا ہے۔ اس مسجد کا تعمیری انداز اوراندرونی عربی طرز کی تعمیری آرائش نے اس مسجد کو دیدہ زیب بنادیا ہے۔ان دنوں مصلیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اس کی توسیع عمل میں لائی گئی ہے لیکن قدیم عمارت کو جوں کا توں باقی رکھا گیا ہے تاکہ اس کی تاریخی اہمیت کوبرقرار رکھا جاسکے۔مسجد کا اندرونی حصہ بہت خوبصورت ہے، قدیم مسجد کی چوڑائی یعنی شمالاً جنوباً 50 فٹ ہے اور جبکہ شرقاً غرباً 35فٹ ہے۔تین عالی شان گنبدان سے مزین یہ مسجد اندرونی حصے میں تعمیری نفاست اور نزاکت کا اعلیٰ معیار رکھتی ہے ۔ اندرونی قبوں میں نقوش عربیہ کا بہترین کام موجود ہے جو انسان کی جمالیاتی حس کو چھیڑتا ہے تاکہ مصلی ان دلفریب نزاکتوں میں کھو کر خدا کے حسن کی کیفیت کو یاد کرنے لگیں اور خدا کے حضور سجدہ ریز ہوکر اپنی عبادتوں میں خشوع و خضوع مانگنے لگیں۔ مسجد کا محراب لاجواب خوبصورتی رکھتا ہے، محراب کی چوڑائی دس فٹ ہے جس کے اندر پانچ کمانوں کے نقش بنے ہوئے ہیں۔ محراب کی کمان نیچے سے اٹھتی ہوئی اوپر جاکر قدرے تنگ ہوجاتی ہے اور گھوڑے کی نعل جیسی شکل بناتی ہے ، مسجد کی تعمیری خوبی یہ ہے کہ محراب کی اس کمان کا انداز مسجد کے اندر موجود ہر دو ستونوں کے درمیان دیکھا جاسکتا ہے جس کی وجہہ سے نمازی کے دل میں خوشگوار احساس پیدا ہوتا ہے اور وہ اس تشاکل کو دیکھ کر خدا کی تخلیق کے تشاکل کو یاد کرنے لگتا ہے اور اس کی عظمت پر فریفتہ ہوجاتا ہے۔مسجد کے ساکف کی سطح (Lentil level)پر کئی پرتوں پر مشتمل ڈیزائن بناہوا ہے،یہ تہہ دار پرتیں محراب کی مکمل گولائی میں گھوم کر دوسری جانب کی ساکف سے مل جاتی ہیں۔یہ ڈیزائن قابل دید ہیں جو محراب کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں، ان پرتوں والے ڈیزائن کے اوپر کنگورے بنے ہیں ،ان کنگوروں کے اوپر سے نشیبی ساخت رکھنے والی محرابیں بنائی گئی ہیں جو بتدریج چھوٹی ہوکر ایک محرابی سلسلہ بناتی ہیں ،یہ سلسلہ وار چھوٹی بڑی محرابیں محراب کے اوپری حصے میں واقع مرکز پر جاکر ختم ہوجاتی ہیں، یہی دراصل نقوش عربیہ کا نگاہوں کو ٹھنڈک پہنچانے والا ڈیزائن ہے جو مسجد میں مختلف مقامات پر اپنے حسن کی بہار دکھلاتا رہتا ہے جیسے اندرونی ستونوں کے ساکف کی سطح سے اوپر گلدستے کی ڈنڈی کی طرح یہ محرابی سلسلہ شروع ہوکر قبے کے قاعدے تک پہنچتا ہے اوریہی محرابی ساختیں گنبد کا وزن سہارتی ہیں اوراندرونی آرائش کو عربی تزئین کاری سے مرصع بنادیتی ہیں۔اصل محراب کے اوپر بارڈر کی شکل میں ایک اور کمان بنی ہوئی ہے جو دل خوش کن منظر پیدا کرتی ہے اس دوہری کمان کے اوپر بھی ہم مرکز محرابی سلسلہ مہال کے چھتے کی شکل میں بنایا گیا ہے جو تعمیری حسن پرستوں کو نظر ہٹانے نہیں دیتا۔ان دنوں محراب میں سرخ قالین بچھی رہتی ہے ۔ مسجد کا منبر سادہ ہے ، جدید توسیع میں وضو کے حوض کی جانب مسجد کو 90فٹ بڑھایا گیا ہے اور ایک بڑا چوبی دروازہ لگا کر مسجد کے اندرونی حصے کو محصور کرلیا گیا ہے، قدیم مسجد میں حوض کے بعد خالی جگہ تھی ،مسجد میں جانے کے لئے کئی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں ان سیڑھیوں کے کچھ آثار آج بھی میناروں کے قاعدے میں موجود ہیں، فی الوقت ان سیڑھیوں کی تعداد پانچ ہے ۔
ابتدائی زمانے میں ان سیڑھیوں کی تعداد پندر سے زائد تھی۔
مسجد کی چھت کے بیرونی حصے میں بنے چھجوں کو سہارا دینے کے لئے خوبصورت براکٹس بنائی گئی ہیں جو ہندوستانی تعمیری تہذیب کی بہترین مثال ہے مسجد کی پیراپٹ دیوار بہت خوبصورت ہے اس دیوار کے بیرونی حصے میں قوس دارکمانوں جیسی ساختیں بنی ہیں جو بیرونی دیوار سے کسی قدر آگے کی جانب ہٹ کر بنائی گئی ہیں ان کمانوں کو چھوٹے چھوٹے نازک کام سے مرصع ستون سہارا دئے ہوئے ہیں ، ان ستونوں اور پیراپیٹ دیوار کے درمیان خالی جگہ ہے جو بیرونی جانب سے دیکھنے سے اس حصہ مسجد کے تعمیری حسن کو ناقابل بیان بنادیتے ہیں ا ور یہی وہ ساختیں ہیں جو مسجد کے تعمیری حسن کو بام عروج پر پہنچادیتے ہیں۔مسجد کا صحن کشادہ ہے جس میں دونوں جانب کمانوں والے دالان بنے ہوئے ہیں جو مسجد کے مجموعی ماحول کو پر اثر بناتے ہیں۔سنا ہے کسی دور میں حوض گہرا ہوا کرتا تھا ، حفاظتی اقدامات کے پیش نظر ان دنوں اس کو اتھل بنادیا گیا ہے۔مسجد میں داخلے کے دروازے بہترین تراش خراش رکھتے ہیں ، داخلے کے دروازوں کو بھی مسجد جیسی چھوٹی میناروں اور محرابوں سے مزین کیا گیاہیں مسجد کے اندرونی جانب سے بھی یہ داخلہ دروازوں کی خوبصورتی دیکھنے کے لائق ہے۔ ویسے نئی مسجد کی تعمیر بھی خوبصورت ہے لیکن کچھ دیر کے لئے افضل گنج مسجد کی نئی تعمیر کو تصور میں علاحدہ کرکے دیکھا جائے تو مسجد کی مشرقی دیوار یعنی Facedمیں تین بہترین کمانیں نظر آئیں گی جس پر کیا گیا کام نزاکت سے پُر ہے لیکن یہ کمانیں بھی تعمیری ساخت کے اعتبار سے دوسری اندرونی کمانوں کے مماثل ہیں ، سوائے اس کے کہ اس کے Spandrelمیں بہترین نقوش بنے ہوئے ہیں۔افضل گنج کی مسجد کو دو میناریں ہیں جن کی اونچائی اندازاً 100فٹ ہے، یہ میناریں تعمیری شہکار ہیں جس کی خوبصورتی کا بیان قلم کی قوت سے باہر نظر آتا ہے۔مینار قطب شاہی طرز تعمیر کی بہترین مثال ہے، گچ سے بنائے گئے مسجد کی چھت پر جانے کے لئے مینار کے قاعدے سے سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں ۔یہ مینار اپنے قاعدے میں ہشت پہلو ہیں لیکن اوپر جاتے ہوئے مسجد کی چھت کے قریب تعمیری گل کاریوں کے باعث ہشت پہلو انداز میں پھول جاتے ہیں اور مختلف ڈیزائنوں سے مزین ہوکر چھوٹی چھوٹی محرابیں بناتے ہیں، اس حصے کے اوپر مینار کچھ وقفے کے بعد مزید آٹھ چھوٹی محرابوں کی دوسری بالکونی یا Sky-pod بناتی ہے جو مینار کے حسن کو دوبالا کردیتی ہے۔ دوسری بالکونی کے اوپر مینار گول ہوجاتا ہے،اس کے اوپر ایک متناسب اور پر اثر گنبد جیسی ساخت بنی ہے جس پر مینار کا کلس جگمگاتا رہتا ہے جو نمازیوں کو اندر مسجد میں بلاتا ہے اور دوسروں افراد کو راہ راست پر آنے دعوت دیتا رہتا ہے
Dr. Azeez Ahmed Ursi
ڈاکٹر-عزیزاحمدعرسی

Share
Share
Share