پرفل بدوائی دیانتدارانہ صحافت کی آوازجو خاموش ہوگئی

Share

JPGپروفل بدوائی

پرفل بدوائی دیانتدارانہ صحافت کی آواز

محمد ریاض احمد

کالم نگار اپنی تحریروں کے ذریعہ جہاں معاشرہ میں پائی جانے والی برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے وہیں ایک طرح سے وہ اپنے قلم کے ذریعہ ظلم و اسرائیلیت (یہاں سوچ سمجھ کر بربریت کی بجائے اسرائیلیت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے) ناانصافی تعصب و جانبداری ، امتیازی سلوک اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف باضابطہ ایک طویل لڑائی لڑتا ہے اور اس لڑائی میں آخر اسے کامیابی ہی حاصل ہوتی ہے چاہے وہ اس جد وجہد میں اپنی زندگی سے محروم ہی کیوں نہ ہوجائے ۔ اس کے قلم سے نکلے ہوئے الفاظ دوسروں کیلئے انصاف رسانی کو یقینی بنادیتے ہیں ۔ مظلومین میں ظالموں کے حلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ہمت پیدا کرتے ہیں ۔ عالمی و قومی اداروں اور حکومتوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہیں ۔ کرپشن کے خلاف ایک تحریک ثابت ہوتے ہیں اور فرقہ واریت کے منہ پر مسلسل طمانچے رسید کرتے جاتے ہیں ۔ اس کالم نگار کی تحریر کا ہر لفظ مکار و عیار اور ظالم و جابر حکمرانوں و سیاستدانوں اور حکام کیلئے کسی مصیبت سے کم نہیں ہوتا ۔

غرض ایک کالم نگار اپنے ذہن و قلب کی آواز کو الفاظ کا مہذب و معتبر لباس پہنائے اس انداز میں عوام تک پہنچاتا ہے کہ اس سے ان کے دلوں میں اپنے حق کیلئے لڑنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور یہ ایسا جذبہ ہوتا ہے جس کے سامنے کوئی بااثر حکومت کوئی طاقتور فوج اور کوئی ڈکٹیٹر ٹھہر نہیں سکتا ۔ ملک کے ممتاز کالم نگار پرفل بدوائی بھی ایسے ہی صحافی تھے جنہوں نے Pen is Mightier than sword جیسے محاورہ کو حقیقت میں اپناتے ہوئے اپنی تحریروں کے ذریعہ اسے عملی طور پر ثابت بھی کردکھایا ۔ دنیا میں کوئی چیز باقی رہنے والی نہیں جس طرح زندگی کے ایک مرحلہ پر انسان تھک ہار کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سوجاتا ہے اسی طرح اس کا قلم بھی تھک جاتا ہے لیکن اس کی وراثت کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ منگل کو ایمسٹرڈیم نیدر لینڈ سے ایک افسوسناک خبر موصول ہوئی کہ ملک کے ممتاز کالم نگار پرفل بدوائی کا ایک ہوٹل میں کھانے کے دوران حلق میں گوشت پھنس جانے کے باعث انتقال ہوگیا ۔ اس خبر نے ساری صحافتی برادری میں غم و اندوہ کی لہر دوڑادی ۔ پرفل بدوائی کا روزنامہ سیاست کے توسط سے اردو میڈیا اور اردو والوں سے بھی گہرا تعلق تھا ۔ وہ کم از کم 35 برسوں سے سیاست کیلئے مسلسل لکھتے رہے تھے ۔ ہر اتوار کو کسی نہ کسی اہم قومی و بین الاقوامی موضوع پر ان کا مضمون ضرور ہوتا ۔ وہ اپنے مضامین میں سیاست ، اقتصادیات ، ماحولیات ، سائنس و ٹکنالوجی ، فرقہ پرستی ، قوم پرستی ، کرپشن ،تعلیم ، سماجی و معاشرتی مسائل ، سامراجی طاقتوں کی چالاکی ان کے خفیہ ایجنڈوں ، جوہری اسلحہ کے خطرات ، ترک نیوکلیئر اسلحہ ، دہشت گردی ، کسانوں کے مسائل ، امیر و غریب کے درمیان پائی جانے والی خلیج ، دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کے اثرات اور کمیونزم جیسے موضوعات پر سیر حاصل تبصرہ کرتے ۔ روزنامہ سیاست میں شائع ان کے مضامین کو نہ صرف ہندوستان بلکہ مشرق وسطی و یوروپی ممالک میں بہت ہی سنجیدگی سے پڑھا جاتا کیونکہ پرفل بدوائی دراصل صحافت کا ایک معتبر نام تھا وہ ملک میں صحافت کی ایک طاقتور آواز تھے ۔ ان کا قلم کسی بھی قسم کے دباؤ سے آزاد تھا ۔
خاص طور پر قبائلیوں کے حقوق ، کسانوں کی بہبود کو یقینی بنانے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے تھے ۔ یہی وجہ ہیکہ اپنی 66 سالہ زندگی کے تقریباً 40 سال پرفل بدوائی نے قبائیلیوں کسانوں اور کمزور طبقات کے حقوق کی جد وجہد اور صحافت کے ذریعہ سامراجی و فرقہ پرست طاقتوں سے مقابلہ میں گذار دئے ۔ انہوں نے اپنی جاندار تحریروں کے ذریعہ ترک جوہری اسلحہ کی مہم کو ہندوستان سے دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا اور عالمی اداروں و بڑی طاقتوں پر واضح کیا کہ دنیا کی بقا ترک جوہری اسلحہ میں ہی ہے ورنہ انسان کے تیارکردہ اسلحہ کے ذخائر ہی اس کی تباہی و بربادی کا باعث بنیں گے ۔ 1949 کو ناگپور میں پیدا ہوئے پرفل بدوائی کے والدین نے کبھی سوچا تھا کہ ان کا لڑکا آئی آئی ٹی ممبئی سے فارغ التحصیل ہو کر دولت و شہرت حاصل کرے گا لیکن آئی آئی ٹی ممبئی میں زیر تعلیم رہنے کے باوجود نوجوان پرفل نے تعلیم سے زیادہ قبائیلیوں کے حقوق کی جد وجہد میں زیادہ دلچسپی لی اور اس طرح انھوں نے تعلیم کا سلسلہ ترک کردیا۔ اپنی نوجوانی سے ہی وہ بائیں بازو کی تحریکوں سے کافی متاثر رہے چنانچہ آدی واسیوں کے ساتھ کام کے دوران پرفل بدوائی نے بائیں بازو کے مفکرین و دانشوروں کے ساتھ مل کر سوگاوا نامی ایک گروپ کی بنیاد ڈالی ۔ انھوں نے آدی واسیوں کے ساتھ دو سال تک کام کیا ۔ ان میں دوسروں کیلئے ایک فکر ہوا کرتی تھی وہ ایک ایسے فکرمند انسان اور فکرمند صحافی تھے جو ہمیشہ دوسروں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی بہبود کیلئے سوچا اور لکھا کرتے تھے ۔ عالمی اور قومی سیاست پر ان کی گہری نظر تھی ۔
انگریزی ، اردو اور ملک کی دیگر زبانوں میں ان کے مضامین کو صنعت کار و تاجرین سے لیکر سیاستداں اور عام شہری خاصی دلچسپی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے کیونکہ انھیں اندازہ تھا کہ وہ اپنے مضامین میں ایسے حقائق کا اظہار کرجاتے ہیں جو ملک و قوم کیلئے مفید ثابت ہوسکتے ہیں ۔ جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں لکھا ہے کہ وہ صحافت کی ایک معتبر و طاقتور آواز تھے چنانچہ ان کی تحریروں میں فرقہ پرستوں کیلئے ایک برہمی پائی جاتی تھی ۔ ایک محب وطن ہندوستانی اور ایک ذمہ دار صحافی کی حیثیت سے پرفل بدوائی فرقہ پرستی کو ملک کیلئے بہت بڑا خطرہ اور اس کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ تصور کرتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے اکثر مضامین سے مذہب کی آڑ میں عوام کے جذبات کا استحصال کرنے والے فرقہ پرستوں کو چڑ سی ہوگئی تھی ۔ پرفل بدوائی نے اپنے قلم کے ذریعہ آر ایس ایس قیادت سے لیکر وزیراعظم نریندر مودی کو بھی کافی سبق سکھائے ۔ سوشیل سائٹس کے ایک مایہ ناز محقق کی حیثیت سے انھوں نے ہندوستانی معاشرہ میں پائی جانے والی اونچ نیچ ادنی و اعلیٰ اور چھوت چھات کے علاوہ توہم پرستی کی وبا کو بے نقاب کرتے ہوئے ہندستانیوں کو اس کے مضر اثرات سے باخبر کیا ۔ پرفل بدوائی نے اپنے صحافتی سفر کا باقاعدہ آغاز 1972 میں Economical Political Weekly کے ایک کالم نگار کی حیثیت سے کیا اور پھر 1983 تا 1993 بزنس انڈیا ، فینانشیل اکسپریس اور ٹائمز آف انڈیا میں خدمات انجام دیں ، ٹائمز گروپ کے وہ ایسے صحافی رہے جو 20 برسوں کے دوران بہت زیادہ شائع ہوتے رہے ۔ ان کی تحریروں کو کوئی ایک پالیسی تصور کرتے تو کسی کی نظروں میں وہ ایک پیام ہوا کرتی تھیں ۔ ٹائمز آف انڈیا میں برسوں سینئر ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرنے کے بعد فری لانس کی حیثیت سے پرفل بدوائی نے تحقیقاتی صحافت کو بھی ایک نئی جہت عطا کی نتیجہ میں ان کے قلم کی شہرت ہندوستان اور برصغیر ایشیا سے نکل کر یوروپ تک جاپہنچی ۔ درجنوں اخبارات ، رسائل و جرائد میں ان کے مضامین بڑے اہتمام سے شائع ہوتے رہے۔ فرنٹ لائن ریڈف ڈاٹ کام ، کشمیر ٹائمز ، گارجین (برطانیہ) le monta diplomatique (فرانس) ، سیاست ، آسام ٹریبون ، لوک مت ٹائمز ، دی نیوز انٹرنیشنل (پاکستان) اور ڈیلی اسٹار (بنگلہ دیش) کیلئے وہ مسلسل کالم لکھا کرتے تھے ۔ وہ کئی ایک کتابوں کے مصنف بھی تھے ۔ ان کی آخری کتاب The Politics of climate change and the global issue, mortagging our future سال 2012 میں منظر عام پر آئی اور علمی و صحافتی حلقوں میں اسے کافی پذیرائی حاصل ہوئی ۔ بائیں بازو کی سیاست پر ان کی ایک اور کتاب بہت جلد منظر عام پر آنے والی ہے ۔ اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی ادارہ سے منسلک ہونا بعض شخصیتوں کے لئے اعزاز کا باعث ہوتا ہے لیکن پرفل بدوائی کا معاملہ ہی کچھ اور تھا وہ جس ادارے سے منسلک رہے وہ اس ادارے کے لئے ایک اعزاز رہا ۔ ٹرانشینل انسٹی ٹیوٹ آف ایمسٹرڈم کے فیلو بدوائی دنیا میں ترک نیوکلیئر اسلحہ کی مہم چلانے میں پیش پیش رہا کرتے تھے ۔ وہ ہندوستان کے جوہری پروگرام کے بھی مخالف تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہندوستانیوں کیلئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کیا جائے ، سماجی بھید بھاؤ کا خاتمہ ہو ، ادنی و اعلیٰ ، اکثریت و اقلیت کے درمیان تعصب وجانبداری کی جو دیوار کھڑی کی گئی ہے اسے گرادیا جائے ۔ ہمارے ملک نے 1998 میں جب پوکھران میں جوہری دھماکہ کیا تھا اس وقت بھی پرفل بدوائی نے اس کی شدید مخالفت کی تھی ۔ این پی ٹی ، سی ٹی بی ٹی اور ہند امریکہ سول نیوکلیئرمعاہدے پر ان کے بے شمار مضامین نے اقتدار کے ایوانوں میں کافی ہلچل مچائی وہ اپنے مضامین میں یکم جنوری 1967 کو نیوکلیئر کلب میں شامل ہونے والی پانچ بڑی طاقتوں پر بھی شدید تنقید کیا کرتے تھے ۔ ان کے خیال میں یہ ممالک خود کو تو جوہری طاقت برقرار رکھنے کے خواہاں تو ہیں لیکن دوسرے ممالک ان کی تقلید کرتے ہیں تو وہ ان پر پابندیاں عائد کردیتے ہیں جو تقاضۂ انصاف کے سراسر خلاف ہے ۔ ترک جوہری اسلحہ کی مہم میں ان کے کردار اور جد و جہد کے پیش نظر انٹرنیشنل پیس بیورو نے اس مایہ ناز سیاسی تبصرہ نگار کو میک برائیڈ انٹرنیشنل پیس پرائز عطا کیا ۔ ایک مجرد کی حیثیت سے زندگی گذارتے ہوئے پرفل بدوائی نے اپنی ساری صحافتی زندگی مظلوموں ، کمزوروں کیلئے آواز اٹھانے کیلئے وقف کردی اور صحافت میں اپنی سچائی کے ذریعہ ایک منفرد پہچان بنانے والا یہ باہکمال اور انصاف پسند انسان ایمسٹرڈیم میں انتقال کرگیا۔
روزنامہ سیاست

Share
Share
Share