ضامن علی حسرتؔ فکروفن کے آئینہ میں ۔ ۔ ۔ پروفیسرمحمد نسیم الدین فریسؔ

Share
پروفیسر نسیم الدین فریس
پروفیسرمحمد نسیم الدین فریسؔ

ضامن علی حسرتؔ فکر وفن کے آئینہ میں

کتاب کا نام : غوث خواہ مخواہ اوراُن کے چند ہمعصرشعراء کی طنزیہ ومزاحیہ شاعری کا تجزیاتی مطالعہ
مصنف : ڈاکٹر ضامن علی حسرت
مبصر: پروفیسرمحمد نسیم الدین فریسؔ
شعبہ اُردو مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی گچی باؤلی
حیدرآباد ۔(تلنگانہ اسٹیٹ) ۔ موبائل : 09490784290

پیشِ نظر کتاب’غوث خواہ مخواہ اور اُن کے چند ہمعصر شعراء کی طنزیہ ومزاحیہ شاعری کا تجزیاتی مطالعہ ‘‘ میرے مخلص دوست ڈاکٹر محمد ضامن علی صدیقی کی نویں تصنیف ہے یہاں اس امر کا اظہار بھی شاید بیجانہ ہوگا کہ محمد ضامن علی صدیقی صاحب ’’ ایم ۔فل‘‘ میں میرے شاگرد بھی رہے ہیں۔ انہوں نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآبادسے ’’ایم ۔فل‘‘(اردو) میں امتیازی کامیابی حاصل کی۔ ’’ایم۔فل‘‘ میں تحقیقی مقالے کا موضوع ’’اردو کے چند مزاح نگاروں کے سفرناموں کا تجزیاتی مطالعہ ‘‘ تھا جو انہوں نے راقم الحروف کی رہنمائی میں قلمبند کیا۔ یہاں ’’رہنمائی‘‘ کا لفظ محض رسماً استعمال ہوا ہے ورنہ ضامن صاحب ایسے پختہ کار مصنف ہیں جنہیں کسی رہنمائی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ہاں تحقیقی اُصول وضوابط کے مطابق میں نے انہیں مقالے کی ترقیم سے متعلق کچھ اشارے ضرور کئے اور انہوں نے اپنے طور پر سارا تحقیقی مواد جمع کیا اور نہایت

معیاری تحقیقی مقالا تحریر کیا۔ اُن کا یہ مقالا اتنا معیاری تھا کہ مقالہ کو’’ فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی لکھنو(حکومت اتر پردیش) نے مالی امداد کے لئے منتخب کیا۔مذکورہ کمیٹی کی اعانت سے یہ مقالا زیورِ طباعت سے آراستہ ہوکر 2013 میں کتابی شکل میں شائع ہوا جسے بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔و اقعہ یہ ہے کہ ضامن علی صدیقی جیسے صاحبِ علم ، صاحبِ نظر اور تحریری سلیقہ رکھنے والے ریسرچ اسکالر س بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں۔
ڈاکٹر ضامن علی حسرتؔ کی اصل شناخت شاعر کی حیثیت سے ہے، ریاست آندھرا پردیش میں شاعروں کے دو زُمرے کئے جاتے ہیں ایک حیدرآبادی شعراء کا زمرہ ہے جو شہر حیدرآباد میں رہتے ،بستے ہیں، دوسرے اضلاعی شعراء کا زمرہ جن میں وہ شاعر شامل ہیں۔ جن کا تعلق ریاست آندھرا پردیش (سابقہ) کے مختلف اضلاع سے ہے۔ اضلاعی شعراء کے زُمرے میں ضامن علی صدیقی صاحب ایک امتیازی مقام رکھتے ہیں۔ ان کا تعلق ضلع نظام آباد سے ہے۔ شعری ذوق انہیں ورثہ میں ملا ہے۔ اُن کے جدۂ بزرگ محمد مظہر علی صدیقی صبا ؔ ایک کہنہ مشق ، خوش فکر اُستاد شاعر تھے۔ اُن کا سلسلہ سید علی برترؔ حیدرآبادی کے واسطے سے غالب ؔ سے جا ملتا ہے۔ صباؔ اصلاً لکھنو(اتر پردیش) کے باشندے تھے لیکن ترکِ وطن کرکے حیدرآباد میں توطن اختیار کیا تھا وہ برترؔ کے شاگرد تھے۔ ضامن علی صدیقی نے اپنے دادا کا شعری مجموعہ مرتب کرکے ’’آبلۂ دل‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ خود ضامن علی صدیقی نے شاعری میں استاد سخن جناب یوسف نرملی سے تلمذ حاصل کیا ۔ 2006 ء میں اُن کا شعری کا مجموعہ ’’تشنہ ساحل‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آچکا ہے۔ وہ آندھرا پردیش ، کرناٹک اور مہاراشٹرا میں مقبول ہیں او ربیشتر مشاعروں میں مدعو کئے جاتے ہیں، شاعری کے ساتھ ساتھ ضامن علی حسرتؔ کو نثر نگاری میں بھی دسترس حاصل ہے۔ مختلف علمی وادبی موضوعا ت پر اُن کے مضامین آئے دن شائع ہوتے رہتے ہیں۔ تاحال اُن کی 8نثری تصانیف شائع ہوچکی ہیں۔ جن میں 6نثری تصانیف ہیں اور دوشعری مجموعے ہیں جن کے نام ’’ریت کی دیوار‘‘،’’توبہ میری توبہ‘‘،’’تشنہ ساحل‘‘،’’متاعِ ادب‘‘،’’آبلۂ دل‘‘،’’اُردو کے چند منتخب مزاح نگاروں کے سفر ناموں کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ اور’’تیسری آنکھ‘‘ ہیں۔ زیرِ نظر کتاب نثر میں ان کی نویں تصنیف ہے۔ فی الحقیقت یہ اُن کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ ہے جس کو انہوں نے نظرِ ثانی اور چند ترمیماتی مرحلوں سے گذارکر کتابی شکل دی ۔یہ مقالہ میرے عزیز دوست ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کی نگرانی میں تحریر کیاگیا ہے جس پر انہیں عثمانیہ یونیورسٹی نے پی ایچ ۔ ڈی کی ڈگری سے نوازا ہے۔یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے، پہلے باب میں انہوں نے طنز ومزاح کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے دونوں کے فرق پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے نیز اُس کے فن و تکنیک کا بھی جائزہ تفصیل سے لیا ہے۔ یہ باب پیش آئند ابواب کے لئے پس منظر کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرے باب میں فاضل مصنف نے غوث خواہ مخواہؔ کے سوانحی حالات اس طرح پیش کئے ہیں کہ خواہ مخواہؔ کی سیرت اور شخصیت کا بھرپور تعارف قارئین کے سامنے آجاتا ہے۔ کتاب کا تیسرا باب ’’غوث خواہ مخواہؔ فکر وفن ‘‘ کی تفہیم وتحسین کے لئے وقف ہے جس میں مصنف نے نہایت باریک بینی اور تعمق کے ساتھ خواہ مخواہ کی شاعری کی خوبیو ں اور محاسن کو کامیابیوں کے ساتھ اُجاگر کیا ہے۔
چوتھا باب غوث خواہ مخواہ کے چند اہم ہمعصر مزاحیہ شعراء کے تنقیدی جائزے پر محیط ہے۔ اس باب میں ملک کے معروف اٹھارہ (18)شعراء کی مزاح نگاری کو معروضِ بحث میں لایاگیا ہے۔ جن میں چند نام یہ ہیں۔ حمایتؔ اللہ، طالبؔ خوندمیری ، فرید انجمؔ ، بگڑؔ رائچوری، حسین پائلیٹؔ ، پیامؔ انصاری، مختار ؔ یوسفی، سراج ؔ نرملی، سراجؔ شولاپوری، پاگل ؔ عادل آبادی اور ڈاکٹر راہی ؔ قریشی وغیرہ ۔
کتاب کا پانچواں باب مجموعی جائزے پر مشتمل ہے اس باب میں مصنف نے ابوابِ گذشتہ کے مباحث کا خلاصہ پیش کیا ہے او راپنی تحقیقی وتنقیدی مساعی کی اہم اقتباسات کو اجمال واقتصار کے ساتھ اس طرح پیش کیا ہے کہ اس پر ’’گاگر میں ساگر‘‘کی مثل صادق آتی ہے۔ کتاب کے آخر میں فنِ تحقیق کے اُصولوں کی پابندی کرتے ہوئے ضامن علی حسرتؔ نے کتابیات کے تحت اُن تمام کتابوں کی فہرست دی ہے جو اُن کے مصادر اور مراجع رہی ہیں۔ پیش نظر کتاب کا مرکزی موضوع ’’غوث خواہ مخواہؔ کی شخصیت اور ان کی شاعری‘‘ ہے۔جیسا کہ اہلِ نظر جانتے ہیں کہ غوث خواہ مخواہ ؔ کا شمار عہدِ حاضر کے صفِ اول کے مزاحیہ شعراء میں ہوتا ہے۔ اُردو میں مزاحیہ روایت نہایت قدیم ہے ۔ جس کے ابتدائی نقوش ہمیں قطب شاہی دور اور عادل شاہی عہد کے دکنی شاعروں کی بعض تخلیقات میں ملتے ہیں۔ مابعد زمانے میں ہجویات ،شہرِ آشوب ،واسوقط وغیرہ اصناف کی شکل میں دکن اور شمالِ ہند کے شعراء متعقدین متوسطین کے یہاں ہمیں طنز ومزاح کے عمدہ نمونے دستیاب ہوتے ہیں۔ عود پنچ کے اجراء سے مزاحیہ شاعری کو ایک نیارُخ ملا خصوصاً اکبرؔ الہ آبادی نے مزاحیہ شاعری کو فلکِ ہفتم تک پہنچادیا اُن کے بعد مزاحیہ شاعری کا تسلسل برقرار رہا ہر دور میں مزاحیہ شاعروں نے اپنے دور کے سماجی، معاشرتی اور سیاسی حالات کو طنز ومزاح کا موضوع بنایا، آج کے دور کے مزاحیہ شاعر بھی اپنے سماجی شعور فنکارانہ اِدراک اور فنی مہارت کے ساتھ طنزیہ ومزاحیہ پیرائے میں معاشرہ کی ناہمواری اور افراد کے مضحکہ خیز روّیوں کو مزاح وظرافت کا ہدف بنایا۔جب ہم غوث خواہ مخواہؔ کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو اُن کے یہاں ہمیں ذہانت اور بذلہ سنجی کے ساتھ ساتھ شائستہ ظرافت کا بلند معیار نظر آتا ہے۔ انہوں نے طنز ومزاح میں رکاکت ابتذال اورپھکّڑ پن سے اپنا دامن بچائے رکھا اُن کے یہاں موضوعات کا تنوع ملتا ہے۔ جس سے اُن کے مشاہدے کی گہرائی اور تجربات کی وسط کا پتہ چلتا ہے۔ غوث خواہ مخواہؔ کے طنز ومزاح میں تلخی ونفرت کا احساس نہیں ہوتا وہ اپنی خوش طبعی اور شگفتہ مزاجی کے ذریعہ صورتِ حال کی تلخی کو مزاح کی شیرنی میں بدلنے کاہنر جانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہیں نہ صرف حیدرآباد ، ہندوستان بلکہ بیرونی ممالک کے مشاعروں میں بھی کلام سنانے کی دعوت دی جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ غوث خواہ مخواہؔ کا طنز ومزاح محض خوش بختی اور دل لگی کیلئے نہیں ہے بلکہ اُس کے پیچھے تعمیری اور اصلاحی جذبہ بھی کار فرما ہے۔ غوث خواہ مخواہؔ کے علاوہ ضامن علی صدیقی نے پیشِ نظر کتاب میں جن اٹھارہ (18)شعراء کی ظرافت نگاری کا محکمہ کیا ہے اُن کے یہا ں بھی ہمیں شوخی، ظرافت اور بذلہ سنجی کے نفیس نمونے ملتے ہیں۔
اس کتاب کی اشاعت پر میں محمد ضامن علی صدیقی کو صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ آئندہ بھی اُ ن کے قلم سے ایسی ہی معیاری تحریری نکلتی رہیں گی۔
کتاب کے حصول کےضمن میں مصنف (09440882330) سے بط پیدا کیا جاسکتا ہے۔
کتاب : غوث خواہ مخواہ اوراُن کے چند ہمعصرشعراء
مصنف : ڈاکٹرضامن علی حسرتؔ
صفحات : 268 – – – قیمت: .300
کتاب ملنے کا پتہ :۱۔ ھدی پبلشرز۔پرانی حویلی حیدرآباد ۔
۲ ۔ انجمن بک ڈپو‘اردو ہال‘حمایت نگر‘ حیدرآباد

Zamin Bhai Title

zamin
ڈاکٹرضامن علی حسرت
Share

One thought on “ضامن علی حسرتؔ فکروفن کے آئینہ میں ۔ ۔ ۔ پروفیسرمحمد نسیم الدین فریسؔ”

Comments are closed.

Share
Share