ہندوستانی موسیقی کے فروغ میں امیرخسروکا حصہ ۔ ۔ ڈاکٹرحبیب نثار

Share
ameer
امیرخسرو
habeeb nisar
ڈاکٹرخبیب نثار

ہندوستانی موسیقی کے فروغ میں امیرخسرو کا حصہ

ڈاکٹرحبیب نثار
شعبہ اردو،حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی، حیدرآباد
موبائل : +919391062713 ۔ ۔ ۔ ای میل :

امیرخسرو‘ ہندوستان کی تاریخ میں ننہاایسی شخصیت کے مالک ہیں جو بیک وقت صوفی کی خانقاہ سے منسلک ہیں، بادشاہانِ وقت کے دربار سے وابستہ ہیں، فارسی کے عظیم ترین شاعر ہیں، اردو کے بنیاد گذار ہیں، مستند مورخ ہیں اور محافل موسیقی کے سرُ اور تال ان کے ساز اور نغموں سے معمور ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی ۱۹۰۹ ؁ء میں لکھی اپنی تصنف ’’بیان خسرو‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’ہندوستان میں چھ سو برس سے آج تک اس درجہ کا جامع کمالات پہدا نہیں ہوا اور سچ پوچھوتو اس قدر مختلف اور گوناگوں اوصاف کے جامع ، ایران و روم کی خاک نے بھی ہزاروں برس کی مدت میں دوچار ہی پہدا کیے ہوں گے۔‘‘ (۱)

امیرخسرو نے موسیقی کے پیچ و خم اور تال و سرُ کے نشیب و فراز سے آشنائی اپنے نانا عمادالملک کے یہاں حاصل کی۔ عمادالملک کو موسیقی سے نہایت شغف تھا۔ ان کے یہاں اکثر موسیقی کی محفلیں برپا ہوتی تھیں۔ گائک ، سازنواز اور مطربانِ خوش نوا، دور دور سے ان کا شہرہ سن کر آتے تھے۔ امیرخسرو کی عمر ۱۸ برس تھی کہ عمادالملک نے ۶۷۱ ھجری ۱۲۷۳ ؁ء میں انتقال کیا۔ آٹھ برس بعد ۷۰۔۶۷۹ھ ۱۲۸۱ ؁ء میں جبکہ ان کی عمر ۲۶ برس تھی وہ سلطان بلبن کے شہزادہ محمد قاآن کے ہمراہ ملتان آگئے۔ موسیقی میں دستگاہ انھیں پہلے ہی سے حاصل تھی لیکن شہرت ملتان آنے کے بعد ہوئی۔ یہیں انہوں نے ترمتی خانم کو غزل گائیکی کی تربیت کی۔یہی وہ زمانہ ہے جبکہ مسلمانوں نے موسیقی کے ارتقاء میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں۔
’’ اب ہندوستان کے علوم و فنون مسلمانوں کے غیر ملکی نہیں رہے تھے بلکہ خود ان کے گھرکی دولت بن گئے تھے۔ اس لیے ممکن نہ تھا کہ ہندوستانی موسیقی کے علم وذوق سے وہ تغافل برتتے چنانچہ ساتویں صدی میں امیرخسرو جیسے مجتہد فن کا پیدا ہونا اس حقیقت حال کاواضح ثبوت ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اب ہندوستانی موسیقی ، ہندوستانی مسلمانوں کی موسیقی بن چکی تھی اور فارسی موسیقی غیرملکی موسیقی سمجھی جانے لگی تھی۔‘‘(۲)
مسلمانوں نے جب ہندوستانی موسیقی کو ہندوستانی مسلمانوں کی موسیقی بنالیا تو گویا ہندوستانی موسیقی نے اپنے ارتقاء کی آخری منزل کو پالیا۔ اسی زمانے میں نئے نئے ساز اور نغمے اختراع کئے گئے۔
امیرخسرو نے ہندوستان کی موسیقی کو کلاسیکی موسیقی کے دبستان سے آراستہ کیا جس کے لیے انھوں نے خیال ، جیسا صنف نغمہ اور ستار و طبلہ جیسے ساز اختراع کئے۔ امیرخسرو کی مہارت موسیقی کو تسلیم کرنے والے کئی مورخین اور محققین ہیں جن میں سے چند حسب ذیل ہیں۔
۱۔صادق علی خاں ’’سرمایہ عشرت‘‘ ۱۸۷۳ء
۲۔ علامہ شبلی نعمانی ’’بیان خسرو‘‘ ۱۹۰۹ء
۳۔ حکیم کرم امام خاں ’’معدن الموسیقی‘‘ ۱۹۲۵ء
۴۔ اشفاق علی خاں ’’نغمات الہند‘‘
۵۔ نقی محمد خاں خورجوی ’’ حیات امیرخسرو مع ایجاداتِ موسیقی‘‘
۶۔ کنور خالد محمود و عنایت الہی ملک ’’سُر سنگیت ‘‘ ۱۹۶۲ء
۷۔ استاد چاند خاں ’’ موسیقی حضرت امیرخسرو‘‘ ۱۹۷۸ء
ان کتابوں کے علاوہ رسالہ آجکل دہلی بابت اگست ۱۹۵۶ء کے موسیقی نمبر میں مولانا امتیاز علی عرشی‘ جناب محمد رضاعلی خاں اور میکش اکبرآبادی کے مضامین اس سلسلے میں اہم ہیں و نیز شاہد احمددہلوی مدیر ساقی کے متعددمقالے بھی اس سلسلے میں اہمیت کے حامل ہیں۔
ہندوستان اور اس کی تہذیب سے متعلق جب سے مغربی مورخین نے تصانیف لکھنا شروع کیا تب ہی سے امیرخسرو کی اختراعات موسیقی پر حرف رکھنیکا رواج عام ہوا۔ چنانچہ حافظ محمود شیرانی ، ڈاکٹر وحید مرزا ، عرش ملیسانی ، رشید ملک ‘سید محمد عسکری، گیان چندجین، راغب حسین اور ڈاکٹر جمیس کپن ہندوستانی موسیقی کی صنف نغمہ خیال اور ان کے اختراع کردہ ساز ستار اور طبلہ کو سولہویں صدی سے اٹھارویں صدی کی اختراعات قرار دیتے ہیں۔
آئیے! امیرخسرو کی ان اختراعات کا تاریخ کے آئینہ میں ، تہذیبی‘ تقابلی اور فنی مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ عہد خسرو میں ہندوستانی موسیقی کے چلن پر ایک نظر ڈال لیں۔
۱۳ ویں، صدی عسوی میں مسلمانوں کی ہندوستان میں آمد کی وجہہ سے ہندوستانی تہذیب میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں اس کا بیان پنڈت سارنگ دیونے اپنی تصنیف ’’ سنگیت رتناکر‘‘ (قریب ۱۲۴۷ء)میں کیاہے اس کتاب کے حوالے سے سرزمین ہندوستان پر اُس زمانے میں ہونے والی تہذیبی تبدیلیوں کی بابت رشید ملک لکھتے ہیں۔
’’ یہ وہ وقت تھا جب دونوں تہذیبوں کے امتزاج سے ایک نیاکلچر وجود میں آرہا تھا جہاں ان دونوں تہذیبوں کے تصادم سے روز مرہ زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہورہاتھا وہاں برآعظم کی موسیقی میں بھی نہایت اہم تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں۔ ’’سنگیت رتناکر‘‘ کے مطالعہ سے ہم ان تبدیلیوں کا کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ یہی وہ زمانہ تھا جیسے ہم حضرت امیرخسرو کا زمانہ کہتے ہیں۔(۳)
امیرخسرو کی اختراعات ہندوستان میں رونماہونے والی انہی تہذیبی تبدیلیوں کی مرہونِ منت ہیں۔ ان کی اختراعات میں’’خیال‘‘ سب سے اہم ہے۔ یہ طرزِ نغمگی آج ہندوستانی موسیقی میں سب سے زیادہ پسندیدہ اورہر دلعزیز سمجھا جاتاہے۔ ’’خیال‘‘ کی گائیکی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ امیرخسرو نے ’’ ستار اور طبلہ‘‘جیسے ساز بھی اختراع کئے ہیں اور ان کے باج کو بھی فروغ دیا ‘ عام کیاہے۔
ہم یہ جانتے ہیں کہ عرب میں قول گانے کا رواج تھا۔ عربوں کے یہاں رثا بھی گایا جاتاتھا لیکن سماع کی محفلوں میں رثا گانا مناسب و موذوں نہ تھا اسی لئے قول گانے کارواج عام ہوا۔ اسی طرح ایران میں موسیقی کے راگ کے لئے نقش اور مقام کی اصطلاحیں مروج تھیں۔ نقش کا ذکر امیرخسرو کے یہاں بھی ملتاہے۔
امیرخسرو کی حیات میں موسیقی کے ارتقاء کا جو بیان مختلف کتب میں ملتا ہے وہ تمام تر شاہی درباریوں کی لکھی ہوئی کتابوں سے ماخوذ ہے۔ میری گذارش ہے کہ امیرخسرو جیسے صوفی کی خدمات کا اگر حقیقی سراغ لگانا ہوتو جب تک ہم خانقاہی ادب سے رجوع نہیں کرینگے حقیقت کی بازیافت کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے۔
ہندوستان کے قدیم خانقاہی شاعری میں ہمیں جکری، سہیلا، حقیقت و مکاشفہ کے نام سے گیت ملتے ہیں جھنیں محفل سماع میں گایاجاتاتھا۔ جکری کا ذکر سب سے پہلے حضرت نظام الدین اولیاء کے ملفوظات میں ملتا ہے اور جکری کے سب سے قدیم نمونے ہمیں بہاالدین باجن کے کلام میں ملتے ہیں جہنوں نے اپنی تصنیف خزائن رحمت اللہ مصنفہ ۱۴۰۵ء کے چھٹے باب میں یکجا کئے ہیں۔
امیرخسرو کی اختراعات کی حقیقت جاننے کی غرض سے ہم پہلے خیال کو جانچتے ہیں۔عربی اور ایرانی موسیقی میں قول ‘ نقش اور مقام موجود تھے اگر ہم ان اسماء کی معنوی جہت پر غور کریں تو پتہ چلتاہے کہ یہ تمام ایک ہی مدعا کے تین نام ہیں ایسے میں کیا یہ ممکن نہیں کہ امیرخسرو نے گانے کی غرض سے موذوں کی جانے والی اپنی بندوشوں کو ’’ خیال‘‘کے نام سے معنون کیاہو۔ متذکرہ بالا تین اصطلاحوں یعنی قول ‘ نقش اور مقام سے قریب ہمیں خیال کی اصطلاح معلوم ہوتی ہے کہ ابتداً یہ خالص سماع تک محدود تھی اور سماع کا اصل مقصد ’’لو‘‘ لگانا ہوتاہے، اللہ سے لو لگانا ، خدا کا خیال کرنا، مزید برآں سماع میں گائے جانے والے گیتوں کے لئے ’’خیال‘‘کی اصطلاح کوئی ایسا ہی صوفی شاعر تجویز کرسکتا ہے جو خوداسمِ بامسمیٰ صوفی ہواور امیرخسرو سے پہلے اور ایک عرصہ بعد تک یعنی بارہویں صدی عیسوی سے پندرھوین صدی عیسوی تک ، تاریخ دوسرے کسی ایسے صوفی کی نشاندہی سے معذور نظر آتی ہے۔
امیرخسرو کی اختراع ’’خیال‘‘ کے سلسلے میں ایک خارجی شہادت ہمیں بہاالدین باجن کے یہاں ملتی ہے جو ان کے قریبی زمانے سے تعلق رکھتے ہیں (۱۳۸۰ء۔۱۴۰۵ء) باجن کا خیال ملاحظہ ہو۔
یہ باداشہ کا ہاوا
ان سک دکہہ کنوا وا
ان ہرکوں حق، حق لاوا

یوں باجن باجے رے
اسرار چھاجے رے(۴)
باجن کے خیال ایک ایسی خارجی شہادت ہے جیسے ہم ردنہیں کرسکتے ، یہی نہیں انہوں نے اپنی ایک دوسری جکری کے ایک ہی مصرعے میں نقش اور خیال دونوں اصطلاحوں کا بیان کیاہے۔ دکنی کی مخصوص شعری اصناف جکری ، سہیلا ، حقیقت اور مکاشفہ کی ہیت اور ماخذ ، خیال ہی ہے۔ خیال کا شجرہ یوں تشکیل پاتاہے۔

ameer6

خیال کے سلسلے میں دو اقتباس ذیل میں درج کرناخالی از دلچسپی نہ ہوگا۔ شہاب سرمدی، ہندوستانی موسیقی کے اہم مورخ ، نقادہ پارکھ ہیں۔ موصوف محترم تیرھویں صدی عیسوی کے اوائل میں غزل اور ساز کی موسیقی میں مروج اصول کابیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’ یہ حقیقت پیشِ نظر رکھنی چاہئے کہ ۱۳ ویں صدی کے اوائل تک غزل اور طربیہ Instreumentalموسیقی کو لئے اور تال کے بغیر باندھا جاتاتھا اور تب تک دونوں کاشمار’’راوسیں‘‘ میں ہوتاتھا۔ اس اعتبار سے خسرو ان پیش روؤں میں سے ہیں جنھوں نے غزل کے لئے سُراور لئے دونوں کی نئی نئی راہیں نکالیں۔‘‘(۵)
صوفی اور سازی موسیقی میں لئے اور تال کا شامل نہ ہونا ایسی موسیقی ہے جو صرف الاپ تک محدود ہوتی ہے جس میں صرف سُروں کاوسطار کیاجاتاہے جس میں سُروں کی ادائیگی کی جاتی ہے اور وزن و آہنگ سے یہ عاری ہوتاہے امیرخسرو نغمہ کی اسی طرزِ ادائیگی کو نا پسند کرتے تھے۔ شہاب سرمدی کا اقتباس دیکھئے۔
’’خسرو ’’صوتِ خالص‘‘ کو عبث جانتے تھے اور اس کا مذاق اڑاتے تھے
ورکند مطرب لبے ہاں ہاں و ہوں ہوں در سرود
چوں سخن نبود ہمہ بے معنیٰ او ابتر بود
خسرو کے نزدیک صرف سُر الاپنا ’’ ہاں ہاں‘‘ اور ’’ہوں ہوں‘‘ کے سوا کچھ نہ تھا۔ اُن کی پسند کے مطابق سچا سُر وہی تھا جو اچھی بات بھی ساتھ ساتھ کہتاچلے۔‘‘ (۶)
یہ تمام نکات ، یہ تمام وضاحتیں ’’خیال‘‘ کو امیرخسرو کی اختراع ثابت کرتی ہیں۔ ’’خیال‘‘ کے بعد امیرخسرو کے ایجاد کردہ ساز ’’ستار‘‘ کا مطالعہ کرتے ہیں۔
رشید ملک ‘ اپنی تصنیف ’’موسیقی اور امیرخسرو‘‘ میں زمانہ قریب میں ہونے والی تحقیق کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
’’ستار کی ایجاد سے متعلق ہمیں دونوں قسم کے خیالات کے حامی ملتے ہیں مگر موجودہ تحقیق کے پیشِ نظر یہ معلوم ہوتاہے کہ حضرت امیرخسرو کو ستار کی ایجاد، اختراع یا ترمیم سے کوئی واسطہ نہ تھا۔‘‘(۷)
وحید مرزا ‘ امیرخسرو کی موسیقی کے فن سے واقفیت کا اعتراف کرنے کے باوجود لکھتے ہیں۔
’’بدقسمتی سے مجھے امیرخسرو کی نگارشات میں ستار کانام کہیں نہیں ملااگر چہ کئی صفحات سازوں کی تفصیل سے پُرہیں۔‘‘(۸)
رشید ملک، ماہر موسیقی ہیں اور ہندوستانی موسیقی کے مستند مورخ بھی ہیں جبکہ ڈاکٹر وحید مرزا نے امیر خسرو پر ڈاکٹریٹ کیا ہے اور مستند حیثیت کے مالک ہیں۔ ان ماہرین سے کچھ دیر کے لئے قطع نظر کرتے ہوئے، آئیے خود امیر خسرو کی تحریر میں سہ تار یا ستار کی تلاش کریں۔
امیر خسرو نے اپنی زندگی کی آخری مثنوی ’’نہہ سپہر‘‘ میں ہندوستانی موسیقی کے بے انتہا تعریف و توصیف کی ہے ایک جگہ لکھتے ہیں۔
’’اٹھویں دلیل ہمارا سرود ہے جس کی
پر سوز آواز سے ہمارے دل و جان پگھلتے ہیں
سبھی لوگ جانتے ہیں کہ ساری دنیا
اس قسم کا ساز کہیں نہیں (اور یہ بات پوشیدہ نہیں)
ہر طرف کے نغمہ سراؤں نے
اسی ساز سے مختلف روشیں نکالیں
اور ان سبھوں نے یہیں سے اس فن کو لیا
اور تیز دوڑ نے والوں کی طرح اس میں تیز تیز دوڑے
اوراسی ساز کو سامنے رکھ کر اپنے ہنر اور کا ریگری سے اس سے
اچھی شکلوں میں دوسری چیزوں کو ڈھالا
اور اس کو اس ملک میں زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا
یہ محض ۳۴ سال کی بات ہے
کسی میں یہ یارا (دم) نہیں کہ اس جیسی سبک آواز نکال سکے
تو پھر اپنی ٹھنڈی طبعیت سے اس کی آواز تیز کو کہاں پا سکتا ہے۔ ‘‘(۹)
ان اشعار میں امیر خسرو نے دوساز کاذکر کیاہے ابتداء میں جس ساز کی جانب اشارہ ملتاہے وہ ہندوستان کاقدیم ترین سازونیا ہوسکتاہے دوسرے جس ساز کاذکر ان اشعار میں ہوا ہے امیرخسرو اس ساز کی تعریف کرتے ہوئے تھکتے نظر نہیں آتے۔ کہیں یہ ساز ’’ستار‘‘ تو نہیں ؟ اس سلسلے میں ساز کی ’’سُبک آواز‘‘’’ ٹھنڈی طبعیت‘‘ اور’’ آوازِتیز‘‘ کے علاوہ ۳۴ برس کا عرصہ گزرنے والے الفاظ بڑے اہم ہیں۔
امیرخسرو نے ۷۱۸ ہجری میں اپنی مثنوی ’’نہہ سپہر‘‘ لکھی اس میں ہندوستانی موسیقی کی تعریف کرنے کے بعد ’’اچھی شکلوں میں دوسری چیزوں کو ڈھالنے‘‘ کا بیان کرتے ہوئے کسی ساز کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ ایسے اختراع کئے ۳۴ برس ہوئے یعنی۶۸۳ ہجری کے آس پاس ‘یہ وہ زمانہ ہے جب وہ شہزادہ قا آن کے ہمراہ ملتان میں تھے اور ان کی عمر ۳۲ برس تھی یعنی عالم شباب تھا فنی اعتبار سے یہ ان کے عروج کا زمانہ ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب انہوں نے متذکرہ بالاسازاختراع کیاہوگا یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئیے کہ ۶۹۳ ہجری میں جب غرۃ الکمال مکمل ہواتو اس کے دیباچے میں انہوں نے اپنی مہارتِ موسیقی کا بیان فخریہ انداز میں کیا ہے۔
امیرخسرو نے اپنی آخری مثنوی ’’نہہ سپہر‘‘ میں کسی ساز کی تعریف کی ہے جو ہماری نظر میں سہ تار یا ستار ہی ہو سکتا ہے۔ رشید ملک ، عرش ملیسانی اور وحیدرمرزا وغیرہ نے ستار کو امیرخسرو کی اختراع تسلیم نہیں کیا ہے کہ اس ساز کا کو ئی داخلی ثبوت ان کے کلام میں موجود نہیں ہے۔
یقیناًامیرخسرو کے کلام میں سہ تار یا ستار کا لفظ ہمیں نہیں ملتا لیکن ستارہ نام کے ساز کا تذکرہ انہوں نے اپنے کلام میں بالاالتزام کیاہے۔ ہاتھ کنگن کو ارسی کیا۔ آئیے حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ امیرخسرو کا شعر ہے۔
زہرہ چنداں بودستارہ نواز
کہ دفِ مہ بروں نیارد ساز ( دیباچہ غرۃ الکمال)
یعنی جب زہرہ ستارہ چھیڑتی ہے تو چاند اپنا دف لے کر سامنے آنے کی جرات نہیں کرتا۔ اس شعر میں زہرہ کو زخمہ کے ساتھ بیان کیا ہے یہاں زہرہ کو بہ حیثیت ستارہ نواز یعنی ایک ساز بجانے والے کے طور پر پیش کیا ہے۔
پروفیسر ممتازحسین ستارہ بمعنی ساز کے سلسلے میں امیرخسرو کی تصنیف ’’اعجاز خسروی‘‘ سے صنائع بدائع کے ضمن میں صنعتِ ایہام کے تحت صنعتِ تجنیس تام کی مثال پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’در صنعت تجنیس(تام) نسبت تنجیم در دیباچہ بیں چوں ازد و پیکر ایہام و فر قدانِ خیال فرد تر آہندرقم مجانس است چناں کہ ’’جوزا و جوزا و مہرومہروستارہ و ستارہ۔جوزا نام زنے گو سفندے، مہر آفتاب و محبت،ستارہ نجم باشدو ستارہ نام ساز۔‘‘(۱۰)
اس اقتباس کو درج کرنے کے بعد پرفیسر ممتاز حسین لکھتے ہیں کہ ’’ستاربمعنی ساز، پراکرتی لہجہ ہے جبکہ ستارا یا ستارہ فارسی لغت میں ساز اورنجم دونوں ہی کے لئے لکھا گیا ہے‘‘۔
امیرخسرو کے کلام سے سنددستیاب ہونے کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ ہم ستارہ ۔ستار کو امیر خسرو کی اختراع تسلیم نہ کریں۔ستار کو امیر خسرو کی اختراع مان لینے کے باوجود یہہ کہنا مناسب نہیں کہ حضرت امیر خسرونے جو ساز اختراع کیا وہ اپنی قسم کا پہلا ساز تھا اس لئے کہ موسیقی پر لکھی گئی مختلف کتابوں میں ایک تارا، دو تارا کا ذکر ملتا ہے۔ سنیل کے۔ بوس (Sunil K. Bose)اطلاع دیتے ہیں کہ تہران کے Ethnological Museam میں ایک چھوٹا سا سہ تار محفوظ ہے جس میں تین تار ہیں لیکن ان میں پردے نہیں ہیں۔ ستار نواز عبدالحلیم جعفر خاں، ستار کی اصلیت اور ساخت کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’یہ شکل میں عربی ساز ’’عود‘‘ کے ہم شکل اور ہندوستانی ساز’’بین‘‘ کے اصول پر مبنی ہے۔(۱۱)
ستار نواز عبدالحلیم جعفر خاں ستار کے بڑے اور اہم فن کار ہیں لیکن انہوں نے ستار کی اصلیت اور ساخت کے سلسلے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ حقیقت سے بعید ہے۔ امیر خسرو نے عربی موسیقی سے نہیں بلکہ ایرانی موسیقی سے اپنی واقفیت اور دسترس کا بیان اپنے کلام میں کیا ہے اور ’’عود‘‘ عربی موسیقی سے تعلق رکھنے والا ساز ہے۔ علاوہ ازین ستار، عربی ساز ’’عود‘‘ کا ہم شکل نہیں ہے۔ میرا مطالعہ اور ناخذ معلومات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ امیر خسرو نے ستار، افغانستان و ایران سے تعلق رکھنے والے ساز ’’رباب‘‘ سے اخذ کیا ہے البتہ سرزمین ہندوستان پر پہلی مرتبہ انہوں نے ستار (ستارہ)نام کے ساز کو متعارف کروایا اور اس ساز کے باج کو ہندوستانی موسیقی کے راگوں کی ادائیگی کے قابل بنایا۔ انہوں نے وینا/ رُدروینا/ بین کے باج سے ساز کے پردے اخذ کئے۔ ذیل میں قدیم رباب جس پر تین تار ہوتے ہیں کی تصویر کے علاوہ وینا/ ردروینا، عود، رباب اور سارنگی کی تصاویر ملاحظہ کیجئے۔

ameer1

ameer2

ameer3

ameer4

یہاس اس امر کو واضح کردینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ساز پر پردوں کا استعمال صرف قدیم ہندوستانی موسیقی کے سازوں میں مستعمل نظر آتا ہے جبکہ عربی وایرانی (ترکی) موسیقی کے سازوں (مسلمانوں کی موسیقی کے سازوں) پر پردوں کا رواج نہیں ملتا ہے۔ عود، رباب اور سارنگی پر کوئی راگ بجانا مشکل ہوتا ہے کہ اس پر سروں کی ادائیگی کے لئے پردے نہیں ہوتے ہیں۔ اس لئے ساز پر سروں کی ادائیگی اٹکل یا اندازے سے نکالی جاتی ہے جو انتہائی ریاض کے بعد نصیب ہوتی ہے۔ امیر خسرونے ستار کے ڈانڈ کو رباب سے بڑا کردیا اور اس پر پردے شامل کئے جس سے سروں کی ادائیگی آسان ہوگئی اور سروں کی آواز بھی خوش امیز ہوگئی۔ تصویر ستار۔

ameer5

ہندوستانی موسیقی کے صنف سخن خیال اور ہندوستانی موسیقی کے ساز ستار کے ماخذ اور اس کی اختراع ومخترع کی حقیقت جان لینے کے بعد اس امر کوبھی دیکھتے چلیں کہ آیا خیال اور ستار میں کوئی ربطِ باہمی ہے یا ان میں بُعد مشرقین ہے۔
ستار ‘پر گائیکی انگ بجایا جاتا ہے جو کہ خیال سے ماخوذ ہوتا ہے ان معنی میں خیال اور ستار ایک ہی گائیکی کو پیش کرتے ہیں یا یوں کہا جائے کہ ایک ہی ’’نقش‘‘ کے دو رُخ ہیں۔ امیر خسرو کے ایجاد کردہ راگوں میں ایک راگ ساز گری کا ذکر ملتاہے۔ رشید ملک نے لکھا ہے کہ اس ساز کو آج کوئی نہیں جانتا۔ ہندوستان کے پہلے پدمابھوشن ستار نواز استاد ولایت حسین خاں نے سازگری کو ستار پر بجایا ہے جو ریکارڈ کی شکل میں انٹرنٹ/ youtube پرسناجاسکتا ہے۔
خیال اور ستار کے مزاج کے بارے میں خیال گائیکی کے استاد عظمت حسین خاں میکش اور ستار کے استاد عبدالحلیم جعفر خاں فرماتے ہیں۔
خیال:۔ ’’اس صنفِ موسیقی میں نزاکت ،ہلاوٹ، باریکی اور وقار کے ساتھ چن چلتاکا ایک عجیب و غریب امتزاج ہے‘‘ (۱۲)
ستار:۔ ’’ستار جو ہندوستان کا نہایت پسندیدہ ساز ہے برتاؤ میں رومانٹک‘‘، نزاکت سے پُر اور مہین ساز ہے۔ اس کا باج فوراًدل میں گھر کرلیتاہے‘‘۔ (۱۳)
خیال اور ستار، نرم مزاج کے حامل ہیں یہی وجہہ ہے کہ ان کی سنگت کے لئے مردنگ مناسب نہیں، ایسے میں طبلہ کی ضرورت ہوگی چنانچہ کہنا ہوگا کہ اگر قدیم کتب میں خیال، ستار اور طبلہ کو امیر خسرو کی اختراعات قرار دیا گیاہے تو کچھ مبالغہ نہیں کیا ہے حقیقت بیان کی ہے۔
طبلہ اور ستار کے باج میں اسلامی نقطہ نظر کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ طبلہ سیکھاتے ہوئے جو ابتدائی بول سیکھائے جاتے ہیں وہ یوں ہیں۔
نادِھن دھن نا۔ نادِھن دِھن نا۔
ناتِن تِن نا۔ نا دِھن دِھن نا۔
ستار، مضراب کی مدد سے بجایا جاتا ہے۔ پہلا سبق جو سکھا یا جاتا ہے اس کے بول ہیں۔
داَ رَادَا رَا ۔ داَ رَادَا رَا
داَ رَادَا رَا ۔ داَ رَادَا رَا
دَا، اس طرح بجایا جاتا ہے کہ مضراب کی مدد سے تار کے نیچے سے ضرب لگائی جاتی ہے اور رَا اوپر سے نیچے کی جانب مضراب سے ضرب لگا کر بجایا جاتا ہے۔ وینا کا باج، ستار کے باج سے یکسر مختلف ہے یہاں ابتدائی مشق میں ضربوں کو ایک سے سات تک شمار کرنے کا سبق دیا جاتا ہے اور ایک کی ضرب اوپر سے نیچے کی جانب لگا ئی جاتی ہے۔
پہلے سبق سے متعلق یہ تفصیلات بظاہر معمولی حیثیت کی اور موضوع سے غیر متعلق معلوم ہوتی ہیں لیکن طبلہ ہوکہ ستار، دونوں کے پہلے سبق منفی بول سے شروع ہوتے ہیں اور اس نکتہ کا لحاظ رکھنا کسی درباری باعام استاد سے ممکن نہیں کوئی یا صفا، اللہ والے، صوفی، ہی سے ممکن ہوسکتاہے۔
حضرت امیرخسرو کی ہندوستانی موسیقی میں استادانہ مہارت کااعتراف ان کے ہم عصر مورخین ضیاالدین برنی‘ منہاج سراج اور میرخورد نے اپنی تصانیف میں کیاہے۔ ان شواہد اور غرۃ الکمال کے اشعار کی سند کے باوجود اگر کوئی امیر خسرو کی اختراعات سے انکار کرتاہے تو سمجھ لیجئے کہ روشنی کے معنی بدل گئے ہیں۔
ختم شد
ماخذو حوالے۔
۱۔ علاّمہ شبلی نعمانی ’’بیان خسرو‘‘ ۱۹۰۹ء
۲۔ ابوالکلام آزاد ’’غبارخاطر‘‘ مرتبہ مالک رام ص ۷۸۔
۳۔ رشید ملک ’’موسیقی اور امیر خسرو‘‘ ص ۱۲۹ مضمون مشمولہ ’’موسیقی اور امیر خسرو اور دوسرے مضامین‘‘
۴۔ ڈاکٹر ابن فرید ’’بہاالدین باجن اور آن کا گجری کلام‘‘
۵۔ شہاب سرمدی ’’غزل سراخسرو‘‘ ص ۲۹۵ مضمون مشمولہ خسرو شناسی مرتبہ ظ انصاری وابوالفیض سحر ۱۹۷۵ء
۶۔ ایضاً ص ۲۸۹۔
۷۔ رشید ملک ’’موسیقی اور امیر خسرو‘‘ ص ۱۴۲۔
۸۔ ڈاکٹر وحید مرزا ’’امیرخسرو‘‘ ص ۲۳۹۔ ۱۹۸۶ء
۹۔ امیر خسرو ’’نہہ سپہر‘‘مترجم محمد رفیق عابد ص ۱۸۸ پہلی بار جنوری ۱۹۷۹ء
۱۰۔ پروفیسر ممتاز حسین ’’نقدِحرف‘‘
۱۱۔ عبدالحلیم جعفر خاں ستار نواز ’’امیر خسرو اور ہندوستانی موسیقی‘‘ ص ۳۱۷
مضمون مشمولہ ’’خسروشناسی‘‘ ۔
۱۲۔ عظمت حسین خاں میکش دل رنگ ’’ہندوستانی گائیکی میں خیال کا چلن‘‘
مضمون مشمولہ ’’خسرو شناسی‘‘۔ ص ۳۲۵۔
۱۳۔ عبدالحلیم جعفر خاں ستار نواز ’’امیر خسرو اور ہندوستانی موسیقی‘‘ مضمون
مشمولہ ’’خسرو شناسی‘‘ ص ۳۱۵۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حضرت امیر خسرو کی ایجاد کردہ راگ سازگری

Dr. Habeeb Nisar
Dept of Urdu , Hyderabad Central University
Gachi Bowli , Hyderabad- Telengana

Share

۴ thoughts on “ہندوستانی موسیقی کے فروغ میں امیرخسروکا حصہ ۔ ۔ ڈاکٹرحبیب نثار”

Comments are closed.

Share
Share