افسانہ – برتن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سید عارف مصطفیٰ ۔ کراچی

Share

Syed Arif

میرا ایک افسانہ – برتن

سید عارف مصطفیٰ ۔ کراچی
فون : 8261098 -0313
ای میل :

بہت عرصے سے لکھ رہا ہوں میں ۔۔۔ لکھتا ہی جارہا ہوں ۔۔۔ شاید ہر شعبے کے بارے میں ،، اور شاید ہر طرح کے موضوعات پر ،،،
لیکن کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ،،
بہن بہو بیٹیوں اور ماؤں کیلیئے لکھنا کتنا آسان ہے اور کس قدر مشکل ،،،
لیکن ۔۔ لیکن ،،، اگر مقصد صرف انکے لیئے لکھنا ہو توموضوعات کی کوئی کمی نہیں ۔۔۔ بےتکان اور بے پناہ لکھا جاسکتا ہے ،،،
کیونکہ ایسا کوئی مضمون لکھنے کیلیئے مواد وافر طور پہ دستیاب ہے ،، تاریخ سے اور کئی علوم سے مثالیں بھی بیشمار مل جائینگی ،، تاہم اگر اس مد میں اپنے عمل سے کچھ مثبت حصہ ڈال کر کچھ لکھنا ہو تو پھر اس موضوع پہ قلم اٹھانا نہایت دشوار شکل اختیار کرلیتا ہے

میں اک لکھاری ہوں ،،، اک صحافی ہوں ،،، اپنے معاشرے کا ایک اہم فرد ۔۔۔ اہم یوں کہ میں اپنے تئیں یا کئی لوگون کے مطابق معاشرے کی ایک ایسی اہم ذمہ داری سے سرفراز ہوں کہ جو معاشرے کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے یا ادا کرسکتی ہے ۔۔ اور ۔۔۔ اور ،،،
میں بخوبی یہ سمجھتا ہوں کہ اگر میں اپنی اس ذمہ داری کو سنجیدہ طور پہ نہ لوں تو میرے الٹا سیدھا لکھنے سے معاشرے میں بہت بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے ایسا بگاڑ کے جسکی تلافی کرنا شاید پھر خود میرے لیئے بھی ممکن یا آسان نہ رہے ۔۔۔ اسی لیئے جب میں اس جانب کچھ سوچنا شروع کرتا ہوں تو اسی جذبے اور احساس کے زیر اثر تھوڑی ہی دیرمیں کپکپا سا جاتا ہوں ،،،ہاں شاید،،، بلکہ یقینناً اسی لیئے میری توجہ ایسے موضوعات کی جانب زیادہ رہتی ہے کہ جنکا تعلق معاشرے کی صورتگری والے کرداروں اور پہلوؤں سے ہو کہ جنکو متحرک رکھ کر اور جنکو تحفظ دیکر انہیں مزید سرگرم کیا جاسکے ۔۔۔ لا محالہ خواتین اس ذمرے کا سب سے اہم حصہ ہیں ،، لہٰذا میں خواتین کی آزادیء عمل اور انکے تحفظ و بقاء کے حوالے سے بہت کچھ پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور اب بھی جب کبھی موقع مل جائے تو اس مد میں بہت کچھ لکھنے کا عزم رکھتا ہوں
اور اسکے لیئے ایسے چھپے ہوئے گوشے تلاش کرتا رہتا ہوں کہ جنکی بےنقابی سے خواتین کے کچھ ان نے اور ان دیکھے مسائل بھی سامنے لاسکوں کہ جو کسی نہ کسی وجہ سے ابتک دبے دبائے رہ گئے ہیں ،،، لیکن سچ تو یہ ہے کہ خواتین ہی نہیں دکھی انسانیت کے کئی اور رستے زخموں پہ بھی کافی کچھ لکھنے کے باوجود مجھے یہ اطمینان ہرگز نہیں ہے کہ آیا میں اپنے قلم کے تقاضوں کو واقعی نباہ بھی سکا ہوں
اس بے اطمینانی اور بے کلی کو ختم کرنے کیلیئے میں رات گئے تک جاگ کر بہت سے سلگتے ہوئے موضوعات پہ ایک ایک کرکے قلم اٹھاتا رہتا ہوں اور اب تو سیاست پہ بھی اسی لیئے لکھنے لگا ہوں کہ یہ شعبہ عوام کی حالت اور اہم معاملات پہ بہت زیادہ اثرانداز ہوتا ہے۔۔۔ لیکن وہی اطمینان نہ ہونے کی بات اپنی جگہ کھڑی رہتی ہے

رات دیر تک لکھتے رہنے کےباعث صبح میری آنکھ دیر سے کھلتی ہے لیکن کل صبحدم میری نیند ٹوٹ گئی ۔۔۔ واش روم جانے کی ضرورت شدید ہو تو نیند کے سبھی جال یک لخت ٹوٹ جاتے ہیں ،،، فراغت کے بعد ہاتھ دھوئے اور پھر باقی ماندہ نیند پوری کرنے چلا تو رستے میں یونہی بے ارادہ کچن پہ نظر پڑگئی ،،، سنک میں اور اسکے آس پاس دھلنے کیلیئے برتنوں کا ایک بڑا سا ڈھیر رکھا ہوا تھا ،،،
"ارے یہ کیا۔۔! رات کے کھانے کے بعد بیٹی نے برتن دھوکر نہیں رکھے،،،” میں دل ہی دل میں بڑبڑایا،،، "لیکن وہ تو کبھی ایسا نہیں کرتی ،، پھر کیا ہوا،،، بیمار ہے شاید ” میں اسکے جواب بھی خود دے رہا تھا
لیکن پھر مجھے دفعتاً یاد آیا کہ رات سونے کیلیئے اپنے کمرے میں جانے سے پہلے تو وہ مجھ سے اپنے کالج کی ایک بات مجھ سے شیئر کررہی تھی اور بالکل ٹھیک ٹھاک تھی ،،،، !!
” یقینناً یا تو زیادہ تھک گئی ہوگی یا پھر بھول گئی ہوگی کالج بھی جاتی ہے پھر واپس آکرکھانا وانا کھاکر کے ذرا سا آرام کرکے پھر سے پڑھائی میں لگ جاتی ہے ۔۔۔اور پھر آج کے تیزرفتار سائنسی دور کی مشکل پڑھائی ۔۔۔!! ” میں نے پھر خود کو اسکی صفائی پیش کی
لیکن اسے آج بھی تو کالج جانا ہے صرف ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد،،، پھر ناشتے کیلیئے برتن درکار ہونگے تو صبح برتن دھونے سے تو وہ لیٹ ہوجائے گی ،،، کیونکہ اسکی ماں کو تو صبح اٹھتے کئی اور اہم کام جکڑ لیتے ہیں ۔۔۔ !

اسی لمحےمیرے دل نے بغاوت کی اور سرگوشیاں شروع کردیں ،،، ” اے حقوق نسواں کے پرچارک ۔۔ اگر تمہاری بیٹی کسی وجہ سے رات کو برتن نہیں دھوسکی تو کیا انہیں تم ابھی نہیں دھو سکتے ،،، کیا اس سے تمہاری مردانہ شان وشوکت فنا ہوجائے گی ،،، خواتین کے درد پپ ٹسوے بہانے سے کیا یہ بہتر نہیں کہ بس چند لمحے کیلیئے انکے کام میں ذرا سا ہاتھ ہی بٹا دو ،،، وہ بھی اپنی بیٹی کا ۔۔۔
پھر میں ہار گیا اور میں نے چپ چاپ برتن دھونے شروع کردیئے ،،، گو مجھے ویسے یہ کوئی بہت مشکل کام نظر نہیں آتا تھا ،، لیکن چند ہی منٹ میں میرے چھکے چھوٹ گئے ،،،
پتیلیوں میں لگی کھرچن نے نام پوچھ لیا،،، انہیں کیسے چھڑاؤں ،،،؟
ایک لمحے کو ایسی سخت الجھن ہوئی کہ ناحق یہ کیا بلا مول لے لی ،،، کیا ضرورت تھی یوں جذباتی ہونے کی ،،، اور پھر مجھے کہا بھی کس نے تھا۔۔۔ اور کوئی مجھے ایسے کام کا کہنے کی جسارت بھی بھلا کیسے کرسکتا ہے،،، پھر ابھی کسی نے دیکھا بھی تو نہیں ہے سبھی نیند میں مدہوش ہیں ،،، بہتر ہے سب یونہی چھوڑ کر سرد موسم میں کمبل کی گرم دنیا میں پھر سے غافل ہوکر پڑ رہوں ۔۔۔ اچھی بھلی نیند کا خود ہی بیڑا غرق کیوں کروں ،،،
کچن سے پاؤں باہر نکالنےہی لگا تھا کہ دل نے ملامت شروع کردی
یہ کیا بات ہوئی ۔۔۔ تم تو ایک دم جعلی بندے نکلے ،،، اسکا مطلب یہ ہوا کہ خواتین کے لیئے تمہاری فکرمندی قطعی مصنوعی ہے ،،، یہ سارے مضامین جو تم انکی ہمدردی میں لکھتے رہے ہو تو یہ سب دانشورانہ دو نمبری ہے،،،
زمین نے جیسے میرے قدموں کو وہیں جکڑ لیا اور میں پہلے سے زیادہ نادم ہو کر برتنوں پہ ٹوٹ پڑا
سخت جونا جو اسٹیل کے الجھے باریک تاروں سے بنا ہوتا ہے اس پہ صابن لگا کر جو رگڑنا شروع کیا تو انگلیوں نے توبہ بولدی ،، چکنائی سے لتھڑی ڈشوں نے تو بازوؤں کے بھی کان پکڑوا دیئے ،،،
لیکن عزم پکا ہو اور اسکی پشت پہ کسی قدر ندامت کا بوجھ بھی ہو تو کونسا کام نہیں ہوجاتا
پہلے سے اس کام کا کوئی تجربہ نہ ہونے کے سبب برتنوں کی دھلائی نے ایک گھنٹہ سے کچھ زائد ہی لے لیا اور برتن تو صاف ہوگئے لیکن میرے اپنے کپڑے چیکٹ ہوگئے ،،، بھیگنے سے شرابور الگ ہوگئے ،،، سردی
بھی جیسے یکلخت بڑھ سی گئی تھی ۔۔۔ جیسے تیسے کرکے غسلخانے میں جاکر کر کل کے اترے ہوئے کپڑے جو وہیں کھونٹی پہ لٹک رہے تھے پہنے اور بستر میں گھس گیا ،،،
لیکن ،،، یہ کیا نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہوچکی تھی ،،، شاید اسلیئے کہ میں تھوڑی دیر بعد رونما ہونے والے اس منظر کو دیکھنے کیلیئے بیتاب تھا کہ جب میری بیٹی اور بیوی بیدار ہوکر ان دھلے دھلائے برتنوں کے ڈھیر کو دیکھیں گے تو انکا کیسا ردعمل ہوگا،،، کس قدر حیران ہونگے وہ لوگ ،،،!!
اس دن یہ بھی پتا چلا کہ انتظار کا ایک لمحہ شاید عام سو لمحات کے مساوی ہوتا ہے ،،،
پھر سورج نکل آیا روشنی بھی تیز ہوگئی اور کچھ کھڑبڑاہٹ سی ہوئی پھر آن کی آن گھر میں بیداری کی لہر دوڑتی محسوس ہوئی ،، میری بیوی چونکہ بیدار ہوتے ہی دونوں لڑکیوں کو بھی جگا دیتی ہے لہٰذا عموماً تینوں آگے پیچھےہی کمرے سے برآمد ہوتے ہیں ۔۔۔ میں لپکتے ہوئے اٹھا اور کچن سے ذرا پہلے ہی رک گیا،،،
بیوی اور بچیوں کی نظر دھلے ہوئے برتنوں کے ڈھیر پہ پڑی تو انکے منہ حیرت سے کھل گئے۔۔۔
اووووو ،،، یہ کیا،،، یہ برتن کس نے دھوئے،،، میں تو کل دھونہیں سکی تھی اور امی آپ اور گڑیا تو پہلے ہی سو گئے تھے ۔۔۔ بڑی بیٹی پرجوش لہجے میں کہے جارہی تھی ۔۔۔ تینوں کےچہرے پہ شدید استعجاب تھا ۔۔۔
اتنے میں میری بیٹی کی نگاہ مجھ پہ پڑگئی کہ جو پیچھے کھڑا اس منظر نامے سے لطف اندوز ہورہا تھا۔۔
” اچھا ۔۔ اب سمجھی۔۔۔ یہ برتن ابو نے دھوئے ہیں۔۔۔ !! ”
بیٹی اس سے بھی زیادہ پرجوش انداز میں چلائی ،،،
"آپنے دھوئے ہیں یہ برتن ،،، مجھے یقین نہیں آرہا ،،، شادی کے تئیس برسوں میں میرے لیئے تو کبھی یہ حادثہ رونما نہ ہوا،،،شاید کبھی اپنے لیئے بھی ایک پلیٹ یا گلاس بھی جو دھویا ہو۔۔۔ اور اب جبکہ آپ بہت زیادہ مصروف رہتے ہیں تو بیٹی کی محبت میں چپ چاپ اتنے ڈھیر سارے برتن دھو ڈالے ہیں ۔۔۔ ”
بیوی نے ایک ہی سانس میں طنز اور تعریف کا آمیزہ سا پیش کرڈالا
یہاں پھر ضروری ہوگیا تھا کہ میں ساری بات کھول کر بیان کروں تو خواتین سے متعلق اپنے خیالات کا خلاصہ پیش کردیا اور آخر میں یہ کہنا ضروری سمجھا کہ
” اگر میں نے اپنی بیٹی کی جگہ برتن دھودیئے تو کوئی کمال نہیں کردیا ،،، اور گھر کے کاموں میں خواتین کا ہاتھ بٹا دینے سے کسی مرد کی کوئی توہین تو نہیں ہوجاتی۔۔۔ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے۔۔”
اگلے دن جب میں صبح سو کر اٹھا تو بیٹی کالج جاچکی تھی ،،، رات کے سارے برتن یونہی گندے اور سنے رکھے ہوئے تھے اور اس ڈھیر کے آگے کھڑی میری بیوی کی نگاہوں میں ہزار شکوے بھرے ہوئے تھے – میں نے پلٹ کر واپس بستر میں گھس جانے ہی میں عافیت جانی ،،،،
گفتگو کا اختتام ہوا

Share

One thought on “افسانہ – برتن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سید عارف مصطفیٰ ۔ کراچی”

Comments are closed.

Share
Share