جامعہ کرناٹک دھارواڑمیں جوش ملیح آبادی پرسمینار ۔ ۔ ۔ ۔ مہرافروز

Share

جوش سمینار

جامعہ کرناٹک دھارواڑمیں جوش ملیح آبادی پرسمینار

رپورٹ: مہرافروزکا ٹھیواڑی
صدر شعبہء انگریزی ضلع تربیتی و تعلیمی ادارہ ڈایٹ دھارواڑ.کرناٹک

جوش ملیح آبادی…. ایک نام جس کے ساتھ کئی داستانیں جڑی ہیں. جوش ملیح آبادی کو پڑھنا اور جاننا گویا ایک عہد اور زمانے کو جاننا اور بحث کرنا ہے
یوں تو جامعہ کرناٹک مختلیف النوع علوم کی دنیا بھر میں مشہورایک قدم ترین درس گاہ ہے جس کا اپنا ایک وقاراورتاریخ ہے… یہاں کے شعبہ اردو اور فارسی نے کئی سمینارس کا اہتمام کیا ہے مگر جوش پر کبھی کوئی سمینار سرزمین دھارواڑ پر نہیں ہوا تھا ۔

محترمہ شکیلہ غوری خان نے جناب سید اشرف حسین صاحب کے وظیفہ یاب ہوتے ہی چیر پرسن کی کرسی سنبھالی اور اپنا پہلا سمینار منعقد کرنے کے لیےجوش کو چنا…
اس سمینار کا جامعہ کرناٹک دھارواڑ کے مانس الاّس آڈیٹوریم میں بروز سنیچر تیس جنوری دوہزار سولہ کے ٹھیک دس بجے جناب پروفیسر پرمود بی گائی وایس چانسلر جامعہ کرناٹک دھارواڑ نے شمع جلا کر افتتاح کیا…. جلسے کی ابتداءمحمد غوث طالب علم یم اے سال دوم کی قرآن کریم کی قرات اور جناب ابراہیم کھوجے کی نعت خوانی سے ہوئی پھر ریاستی ترانہ جامعہ کے موسیقی کی شاخ کے طلباء نے پیش کیا… نعت خواں جناب ابراہیم کھوجے نے جناب عثمان شاہد مرحوم کا لکھا ترانہ اردو گاکر سامعین کو محظوظ کیا
جناب پروفیسر پرمود بی گایء صاحب نے اپنے افتتاحیہ خطاب میں شعبہ اردو کی کارکردگیوں کو سراہتے ہوےء اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا اور کہاکہ جوش پر سمینار کا انعقاد اپنے آپ میں ایک جراءت مندانہ اقدام ہے جوش کی کچھ غزلوں کا حوالہ دیتے ہوےء انہوں نے اپنی پسندیدہ غزل کے کچھ اشعار گنگائے…..
اس کا رونا نہیں تم نے کیا دل برباد
اس کا ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا.
ٹھیک گیارہ بجے یوم شہیداں کے طور پردو منٹ کا سکوت اختیار کر باپوےء قوم مہاتما گاندھی کو شردھانجلی پیش کی گئی…… جلسہ کے مہمان خصوصی جناب شاہد لطیف مدیر انقلاب نے سامعین کو مخاطب کرتے ہوے جوش کے حوالے سے ان کی اردو کی خدمات کا احاطہ کرتے ہوے ‘ہندوستان میں اردو کی حالت زار پر روشنی ڈالی اور اردو کے پروفیسر حضرات کی خدمات کا ذکر کیا اور کہا کہ "ہمیں اردو کی بقا کے لیے دلی جانے کی ضرورت نہیں اس کی بنیادوں کی مضبوطی اپنی دہلیز سے شروع کریں اپنے گھر میں پیدا شدہ ہر بچے کو اردو کی تعلیم دیں اردو پڑھنا لکھنا سکھایئں اور اردوادب اورزبان کے مطالعہ کا چسکہ پیدا کروایئں اردو کواس کے صحیح تلفظ کے ساتھ زندہ رکھیں کیونکہ اردو کو مارنے والے کوئی اورنہیں ہم خود ہیں ”
جناب سید سجاد حسین صدر شعبہء اردو فارسی اور عربی جامعہ مدراس چینئی نے جوش کی کل ادبی خدمات کا احاطہ کیا اور ان کی تمام تر تخلیقات کا اجمالی جائزہ لیا اور کہا کہ اردو کو الفاظ کا خزانہ جوش نے دیا ہے ۔
ایک اور مہمان خصوصی جناب آئی. جی سندی صاحب سابقہ یم پی اور سابقہ صدر شعبہء ہندی نے دونوں زبانوں کا موازنہ کرتے ہوےء کہا کہ جوش نے اردو زبان کو اظہار کے جو پیمانے دیے وہ انہی کا خاصہ تھے اس کے بعد پروفیسر شانتا امرا پور ڈین شعبہ فنون و زبان جس کے ماتحت شعبہ ء اردو کام کرتا ہے ‘کہا کہ جوش کی خدمات اردو کے لیے بے پناہ اور مایہء ناز ہیں. انہوں نے شکیلہ غوری خان کو مبارکباد دی کہ انہوں بہت یادگار سمینار کا انعقاد کروایا ہے ۔
صدر جلسہ جناب پروفیسرانورالدین نے جوش کی حیات اور خدمات پر روشنی ڈالی اور تمام منتظمین کو مبارکباد دی کہ اتنا شاندار سمینار منعقد ہوا. شہہ نشین پر جناب صدر انجمن اسلام جناب محمد اسماعیل تامٹگار بھی جلوہ افروز تھے.
اس درمیان تین اصحابان و خادمین اردو کی خدمتوں کا اعتراف کرتے ہوےء جامعہ کرناٹک نے تہنیت پیش کی… جناب انل ٹھکر فکشن رایٹر و ناول نگار و ڈرامہ نگار, رکن اردو اکیڈمی ریاست کرناٹک ‘ مہرافروز کاٹھیواڑی افسانہ نگار‘ شاعرہ ‘مدیراور استاد ‘ اور سید اشرف حسین سابق صدر شعبہء اردو تہنیت پیش کی گئی۔ ۔ ۔ محترمہ نسیم بانو ہبلی نے شکریہ ادا کیا. جلسہ کے اس حصے کی کامیاب نظامت کے فرایض بہترین انداز میں جناب رشید شاد اور نسیم بانو نے ادا کیے۔
افتتاح کے بعد ٹھیک ساڑھے بارہ بجے سمینار کا پہلا اجلاس منعقد ہوا جسکے مقالہ نگار تھے پروفیسر.کے. وی نکولن جو جامعہ کیرلا سے تشریف فرما تھے…. "جوش کی قوم پرستی اوران کی رومانوی شاعری ” مقالہ پڑھا اور ان کا موازنہ ملیالی زبان کے ایک عظیم شاعر سے کیا دوسرے مقالہ نگار تھے سید تاج الدین ھدی,ٰ بلگام نے اپنا مقالہ بہ عنوان "جوش بہ حیثیت شاعرِ فطرت ” پیش کیا……پروفیسرحمید اکبر جامعہ گلبرگہ نے” جوش کے سوانحی حالات اور شخصیت” کے عنوان سے جوش کی زندگی اور شخصیت کا جامعہ احاطہ کیا اور مختلیف حوالوں سے ان کی تاریخ پیدائش اور سوانحی حالات پر بحوالہ یادوں کی بارات بات کی… اس کے بعد پروفیسرعبدالستارساحرجوجامعہ تروپتی کی نمایئندگی کررہے تھے انہوں نے اپنا مقالہ بعنوان "جوش ملیح ابادی کے سیاسی افکار "پڑھا
جنا ب نشاط احمد اسسٹنٹ پروفیسر نے اپنا جامع مقالہ "جوش کی نثر نگاری اشارات کی روشنی میں "کے عنوان سے پیش کیا ….اس نشست کی صدارت جناب پروفیسرانورالدین سابقہ صدر شعبہء اردو سینٹرل یونیورسٹی حیدرآباد کر رہے تھے انہوں نے ان تمام مقالات پر صدارتی تاثرات پیش کیےء… اس کے ساتھ ہی پہلی نشست کا اختتام ہوا اور ظہرانے کا وقفہ دیا گیا….
ٹھیک تین بجے دوسری نشست کا آغاز ہوا جس کی صدارت جناب پروفیسر مسعود سراج صدر شعبہء اردو جامعہ میسور نے کی…. اس اجلاس کے ماہرین ادب جناب نسیم الدین فریس پروفیسر شعبہ اردو جامعہ مولانا آزاد حیدرآباد اور پروفیسر جناب عبدالرب استاد صدر شعبہء اردو جامعہ گلبرگہ تھے ۔پہلا مقالہ ڈاکٹر نصر اللہ خان جامعہ کویمپو شیموگہ نے پڑھا ۔جناب پروفیسر داؤد محسن داونگیرے نے اپنا مقالہ بعنوان "جوش کی شاعری میں لفظ و معنی کا توازن "پیش کیا جو ایک اچھی خاصی ادبی بحث کو جِلا دے گیا….
اس کے بعد جناب عنایت اللہ اور محترمہ ریشما حسینی نے اپنے مقالے پڑھے….
پہلے ماہر ادب جناب عبدالرب استاد نے ہر مقالہ پر جامع بحث کی اور جوش کی شخصیت کا ادبی محاسبہ کرتے ہوے اپنے وقت اور زمانے کے تقاضوں کے پس منظر میں جوش کی اہمیت اور ادبی خدمات کو پیش کیا اور ان کی شخصیت پر نئے زاویوں سے روشنی ڈالی….. دوسرے ماہر ادب جناب نسیم الدین فریس نے جوش کی حیدرآباد کے نو سال سات مہینے اور دس دن کے قیام اور ان کی ادبی نشونما پر تفصیلی روشنی ڈالی اور حضورنظام پر لکھی گئی ان کی نظم کا احاطہ کرتے ہوے ان کی جلاوطنی پر مشتمل چند اہم دستاویزات کا ذکرکیا جو کہ جامعہ عثمانیہ میں موجود ہیں…. آپ کی پیش کش بڑی جاندار پرمغزاور معلوماتی تھی, جو ان کے محقق ہونے پر دال تھی…. انہوں جوش کو برگد کے پیڑ سے تشبیہ دی, اور جوش کی نثر اور نظم پر مہارت زبان پر قدرت ,گرفت اور ان کی کچھ کمزوریوں کی طرف اشارہ کیا جس کا ذکریادوں کی بارات میں نہیں ہے ….
صدر نشست جناب مسعود سراج صدر شعبہ اردو جامعہ میسور نے صدارتی خطاب میں سب مقالوں پر علمی روشنی ڈالی اورجوش کی شخصیت کے مزید پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوے کہا کہ کسی کی شخصیت کی قدر پیمائی کے وقت, دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے ایک ہے توارث اور دوسرے وہ زمانہ جس میں ادیب یا شاعرجیتا ہے ان دونوں کے پس منظر میں جب شخصیت پرکھی تنقید کی جاتی ہے تب کہیں ہم اس شخصیت کے ساتھ انصاف کر سکتے ہیں…..
سمینار کی آخری نشست کے صدر جناب سجاد حسین تھے ,جنہوں نے محترمہ شکیلہ غوری خان صدر شعبہ اردوجامعہ کرناٹک دھارواڑ کا مقالہ بہ عنوان” جوش یادوں کی بارات کی روشنی میں” محترمہ نسیم بانو ہبلی نہرو کالج ہبلی ” اور محترمہ شبانہ بلاری مہمان لکچرارجامعہ کرناٹک کے مقالے سنے اور محترمہ شکیلہ غوری خان کی اس کامیاب سمینار کے انعقاد پرجم کر تعریف اور ہمت افزائی کی اور سب ماتحتوں کو ان کا ساتھ دینے پر مبارکباد پیش کی.
اختتامی اجلاس کے مہمان خصوصی جناب امتیاز قاضی ڈایئریکٹر پلاننگ مانیٹرنگ اینڈ ایویا لویشن بورڈ پروفیسرآرگینک کیمیسٹری جامعہ کرناٹک. جناب پروفیسر عبدالحمید اکبر جامعہ گلبرگہ محترمہ مہر افروز کاٹھیواڑی رابطہ کار برٹش قونصل ٹریننگز حکومت کرناٹک ڈایٹ دھارواڑ اور فکشن رایئٹر جناب انل ٹھکر رکن اردو اکیڈمی کرناٹک کی صدارت میں شروع ہوا..
جناب امتیاز قاضی پروفیسر شعبہ کیمیا نے, شعبہء اردو کے قیام اور ان پر گزرنے والی تکالیف کا احاطہ کیا صدر شعبہ کی کاوشوں کو سراہا اور اس شعبہ کو مستحکم بنانے کی سمت میں کارگزاریوں پر روشنی ڈالتے ہوےء اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا….جناب پروفیسرحمید اکبر نے صبح سے پیش ہوئی تمام کاروایوں کا ناقدانہ اظہار اختصارسے کیا…
محترمہ مہر افروز کا ٹھیواڑی نے اپنے اختتامیہ خطبہ میں جوش کی شخصیت متنازعہ کیوں پر بات کی اور صبح سے کیے گئے تمام تنقید و تنقیص پر جرح کرتے ہوے کہا کہ جوش کو ایک کل انسان کے طور پر دیکھنے اور پڑھنے کی ضرورت ہے جو اپنی بہت ساری خوبیوں خامیوں کے ساتھ محسن اردو ہے کیونکہ الفاظ کا جو خزانہ جوش نے دیا وہ کسی اور نے نہیں دیا. جوش کو انہوں نے بحیثیت مترجم اور لغت بنانے والی شخصیت کے طور پر پیش کیا جنہوں نے اردو کے دامنِ الفاظ ،استعارات اور حسن استعمال کو وسعت دی اورزبان کو زرخیزی عطا کی پھر انہوں نے جوش کا رنگ تصوف ،انکی مرثیہ نگاری اور انشایئہ نگاری پر روشنی ڈالتے ہوےان کو انسان کے طور پر سمجھنے کی اہمیت پر زور دیا اور انکو محسن اردو کے طور پرخراج عقیدت پیش کی …..
اظہار خیالات کے لیےسامعین کو جب آواز دی گئی تو محترمہ شکیلہ غوری خان کی کاوشوں کو سراہتے ہوے عبدالرشید شاد نے کانفرنس کی کامیابی پر مبارکباد دی… اور وکیل صاحب نے جوش کو کسی انگریزی شاعر سے موازنہ کرنے پر زور دیا……
اختتامی صدارتی خطاب میں جناب انل ٹھکر نے سب کو فرداً فرداً مبارکباد دی اور ان تمام صدور شعبہ جات اردو جو مختلیف مقامات سے اس سمینار کو کامیاب بنانے کے لیےء پہنچے تھے، کا ذاتی طور پر شکریہ ادا کیا….. اور سب کو دعا دی کہ اردو کی بقا کے لیے کام کریں اور ایسے جلسے منعقد ہوتے رہیں….
محترمہ شکیلہ غوری خان ڈایریکٹر سمینار نے فرداً فرداً سب کا شکریہ ادا کیا اور سمینار کی برخاستگی کا اعلان کیا….
مانس الاس مین منعقد اس سمینار کی شام پر لطف عشایئہ پراختتام کو پہنچی..
مہرافروز سمینار

Share
Share
Share