اُلّو- OWL ۔ مذہبی‘ سماجی اورطبی نقطہ نظر سے

Share

اُلّو

اُلّو- OWL
مذہبی‘سماجی اورطبی نقطہ نظر سے

مرسلہ : دلجیت قاضی ۔ حیدرآباد

بوم ‘ اُلّو کو کہتے ہیں ۔ یہ ایک پرندہ ہے ‘ جس کا اطلاق نرو مادہ دونوں پر ہوتا ہے اور بعض عرب الو کو صدی اور فیاد کہتے ہیں ‘ لیکن یہ دونوں نام صرف نر کے لئے مخصوص ہیں ‘ اس کی کنیتیں ام الخراب ‘ ام الصبیان وغیرہ ہیں ۔ اسی طرح اس پرندے کو غراب اللیل ( رات کا کوا ) بھی کہتے ہیں ۔
ہندوستان میں الو کی کئی قسمیں ہیں ۔ایک جثہ میں سب سے بڑا ہوتا ہے اس کو الو کہتے ہیں ( فارسی میں بوق کہتے ہیں ) دوسری قسم جو اوسط بدن کا ہوتا ہے اور بالکل سیاہ رنگ کا ہوتا ہے اس کو چغد ( ہندی میں چیلہ ) کہتے ہیں اور سب سے چھوٹی قسم جو قمری پدندے کے بقدر ہوتا ہے اس کو پیچہ یا بیلاق کہتے ہیں ۔

جاحظ کہتے ہیں کہ اُلّو چند قسم کا ہوتا ہے ’ چنانچہ ہامتہ ’ صدی ’ ضوع ’ اخفاش ’ غراب اللیل ’ بومتہ وغیرہ اسی پرندے کی قسموں کے نام ہیں ’ بلکہ یہ سارے نام ان پرندوں کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں جو رات کو اپنے گھونسلوں سے نکلتے ہیں اور رات میں نکلنے والے یہ پرندے چوہوں ’ چھپکلی ’گوریا ’ چڑا ’ عصفور اور چھوٹے چھوٹے جانوروں کا شکار کرتے ہیں ۔ اور بعض پرندے مچھر کھاتے ہیں ۔
اُلّو کی خصوصیت :
اُلّو کی عادت یہ ہے کہ یہ ہر پرندے کے گھونسلے میں گھس کر اس کو نکال کر اس کے بچوں کو یا انڈوں کو کھاتا ہے ۔اُلّورات میں بھرپور حملہ کرتا ہے ۔ چنانچہ کوئی پرندہ اس کے حملے کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔ یہ رات بھر نہیں سوتا ۔ الو کو جب دوسرے پرندے دن میں دیکھ لیتے ہیں تو اس کو مار ڈالتے ہیں ۔ دشمنی کی وجہ سے اس کے پروں کو نوچ ڈالتے ہیں ۔غالباً شکاری حضرات اسی لئے اُلّوکو اپنے جالوں میں رکھتے ہیں تا کہ پرندے الو کو دیکھ کر جمع ہو جائیں اور جال میں پھنس جائیں ۔
مسعودی ’امام جاحظ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ دن میں الو اس لئے نہیں نکلتا کہ اس کی آنکھیں خوبصورت معلوم ہوتی ہیں’ کہیں لوگوں کی نظر نہ لگ جائے۔ اسی لئے الو اپنے آپ کو تمام پرندوں میں خوبصورت سمجھتا ہے ۔ اسی وجہ سے یہ رات میں ہی نکلتا ہے۔ بعض حکماء کا کہنا ہے کہ الو دن میں بینائی کی کمزوری کی وجہ سے نہیں نکلتا ۔ ’ کیونکہ سورج کی روشنی کی وجہ سے اس کی بینائی کم ہو جاتی ہے ’ یا بالکل ختم ہوجاتی ہے’یا سورج کی روشنی کی وجہ سے اس کو نظر نہیں آتا ۔ البتہ جب سورج ڈوب جاتا ہے اور رات کی سیاہی پھیل جاتی ہے تب اس کو نظر آنے لگتا ہے اور وہ اپنی جگہ سے نکل کر اپنی خوراک کی تلاش میں سرگرداں ہو جاتا ہے ۔
اہلِ عرب کا یہ باطل عقیدہ تھا کہ جب انسان مر جاتا ہے یا قتل کر دیا جاتا ہے تو مرنے والے کی روح ایک پرندے کی شکل میں اس کی قبر پر اپنے جسم سے وحشت محسوس کرتے ہوئے چیختی رہتی ہے اور جس پرندے کا اہلِ عرب کے عقیدے میں ذکر ہوا ہے وہ بوم ( الو ) ہے ’ جسے صدی کہتے ہیں ۔
اُلّوکئی قسم کا ہوتا ہے۔ہر الو تنہائی پسند ہوتا ہے۔یہ فطرتاً کوؤں کا دشمن ہوتا ہے۔
بعض مورخین لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ شاہ کسریٰ نے اپنے کسی عامل کو یہ حکم دیا کہ تم مجھے سب سے بدصورت اور برا پرندہ شکار کرکے دو ۔پھر اسے سب سے خراب ایندھن میں بھونو ۔اس کے بعد اسے سب سے زیادہ شریر آدمی کو کھلا دو ۔چنانچہ اس نے الو کا شکار کرکے دفلی کی لکڑی میں بھونا ‘ اس کے بعد ٹیکس و صدقات وصول کرنے والے کو کھلا دیا( تاریخ ابنِ نجار )
ابوبکرطرطوشی کہتے ہیں کہ ایک رات عبدالملک بن مروان کو نیند نہیں آرہی تھی ‘چنانچہ عبدالملک نے ایک قصہ گو کو بلایا‘ اس کے بیان کردہ قصوں میں ایک قصہ یہ تھا عالی جناب امیرالمومنین !مقامِ موصل کا ایک الو تھا اور دوسرا الو بصرہ میں رہتا تھا۔موصل کے الو نے اپنے لڑکے کی شادی کا پیغام بصرہ کے الو کی لڑکی کے لئے بھیجا ۔بصرہ کے الو نے کہا : میں ایک شرط کے ساتھ اپنی لڑکی کی شادی کر سکتا ہوں ‘ وہ یہ کہ تم میری لڑکی کے کے مہر میں مجھے سو بیگھ ویران جگہ دو ۔موصل کے الو نے کہا کہ فی الحال تو میں اس پر قادر نہیں ہوں ‘ لیکن اگر موجودہ امیر اپنی تباہ کاریوں کے ساتھ ایک سال مزید امیر رہے تو یہ شرط پوری کی جاسکے گی ۔ بس یہ واقعہ سنتے ہی عبدالملک کی آنکھیں کھل گئیں اور چوکنا ہو گیا‘ پھر اس کے بعد ( یعنی اس قصے کو سننے کے بعد ) روزانہ دیوان میں بیٹھ کر لوگوں کی زیادتیوں پر غور کرتا اور ان کو دور کرنے کی کوشش کرتا اور گورنروں پر نظر رکھتا( سراج الملوک )ِ
امام دمیری کہتے ہیں کہ میں نے بعض اکابرکے مجموعوں میں دیکھا ہے کہ ایک مرتبہ مامون الرشید نے اپنے محل سے جھانکا‘ کیا دیکھتا ہے کہ ایک آدمی کھڑا ہوا ہے ‘ اس کے ہاتھ میں کوئلہ ہے اور وہ محل کی دیوار پر لکھ رہا ہے ‘ یہ دیکھ کر مامون الرشید نے اپنے نوکر سے کہا دیکھو ا سآدمی کے پاس جاؤ وہ کیا لکھ رہا ہے اور اسے پکڑ کر لے آؤ ۔یہ سنتے ہی نوکر اس آدمی کے پاس گیا اور جو اس نے لکھا تھا غور سے اسے پڑھا اور پھر اس کو پکڑ لیا ۔وہ شعر یہ تھا :
ترجمہ : اے محل جب الو اس کے گوشوں میں گھونسلہ بنانے لگے تو اس میں ہر طرح کی قبیح و قابلِ ملامت اشیاء جمع ہو گئیں ‘ جب الو تمہارے اندر خوشی خوشی اپنا گھونسلہ بنائیں گے تو میں سب سے پہلا وہ شخص ہوں گا جو ناپسندیدگی کے ساتھ تمہارے اوپر ماتم کرے گا‘‘۔
نوکر نے اس کے پاس جاتے ہی یہ کہا کہ چلئے جناب آپ کو امیرالمومنین یاد فرما رہے ہیں ۔اس آدمی نے کہا میں تمہیں خدا کا واسطہ دیتا ہوں ‘ مجھے ان کے پاس نہ لے چلو ۔نوکر نے کہا تمہیں تو ضرور چلنا پڑے گا ۔چنانچہ جب وہ امیرالمومنین کے دربار میں حاضر کیا گیا اور خادم نے جو پڑھا تھا اس سے امیرالمومنین کو آگاہ کیا ‘ یہ سن کر مامون الرشید نے فرمایا : تمہارا برا ہو ‘ تم یہ کیوں لکھ رہے تھے ؟‘‘ اس نے جواب دیا کہ امیرالمومنین جو آپ نے محل میں مال و دولت ‘ قیمتی جوڑے ‘ کھانے پینے کا سامان ‘ فرنیچر ‘ برتن ‘ ساز و سامان ‘ باندیاں اور نوکر وغیرہ جمع کئے ہیں وہ سب آپ کو معلوم ہے جن کی میں تعریف نہیں کر سکتا ‘ وہ میری حیثیت سے بالا تر ہیں ‘ آج میں محل کے قریب سے گزر رہا تھا ‘ مجھے شدید قسم کی بھوک لگی ہوئی تھی ‘ بس میں کھڑے ہو کر سوچنے لگا ‘ میرے دل نے یہ کہا کہ میرے سامنے اتنا بلند و بالا محل ہے اورآباد ہے اور مجھے اس محل سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے اس کے بجائے اگر یہ جگہ ویران ہوتی اور میں یہاں سے گزر رتا تو یہاں لکڑیاں وغیرہ ضرور ہوتیں جن کو میں فروخت کرکے کچھ کھا بھی سکتا تھا۔پھر اس نے کہا : امیرالمومنین ! کیا آپ نے یہ چند اشعار نہیں سنے : ترجمہ : جب کسی شخص کے لئے کسی ملک میں کوئی حصہ نہ ہو اور نہ کچھ دولت کہ جس کے ختم ہونے کی تمناکی جائے ‘ اور جب کہ وہ یہ تمنا اس کے ساتھ بغض رکھنے کی وجہ سے نہیں بلکہ مزید کی توقع رکھنے کی وجہ سے کرتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اسے منتقل کردے ‘‘۔ یہ سن کر مامون الرشید نے نے نوکر سے کہا : تم انہیں ایک ہزار اشرفیاں دے دو ۔اس کے بعد امیرالمومنین نے کہا کہ سنو ! اتنی رقم ہر سال ملا کرے گی ‘ بشرط یہ کہ ہمارا محل اسی طرح آباد رہے ۔
اُلّوکا شرعی حکم:
اُلّواور اس کی تمام قسموں کا گوشت حرام ہے ۔امام رافعی کہتے ہیں کہ ابوالعاصم عبادی لکھتے ہیں کہ الو گدھ کی طرح حرام ہے اور ضوع ( نر الو یا رات میں اڑنے والا پرندہ ) کا بھی یہی حکم ہے ۔
امام شافعیؒ کے نزدیک ایک قول کے مطابق اُلّوکا گوشت جائز ہے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ضوع نامی پرندہ الو کے علاوہ کوئی پرندہ ہے۔ لیکن صحاح وغیرہ میں موجود ہے کہ ضوع رات میں اڑنے والا پرندہ ہام کے قبیل سے ہے ( اور ہام چھوٹے قسم کا الو ہوتا ہے )
مفضل کہتے ہیں کہ ضوع نر الو کو کہتے ہیں ’چنانچہ جو حکم ضوع کا ہوگا وہی بوم کا بھی ہوگا ۔اس لئے نراورمادہ کا حکم الگ نہیں ہوتا ۔ اور روضہ میں مذکور ہے کہ ضوع پرندہ بام کے قبیل سے ہے ’ چنانچہ اسے حرام قرار دیا جائے گا ۔
حضرت حسنؓ بن علیؓ بن ابی طالب کہتے ہیں : ‘‘ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر کسی کے یہاں کوئی بچہ پیدا ہوا ۔اس کے بعد اس نے بچے کے دائیں کان میں اذان کہی اور بائیں کان میں تکبیر اقامت پڑھی تو اس بچے کو ام الصبیان ( الو ) نقصان نہیں دے سکتا ( رواہ ابن سنی )
اس حدیث پر سیدنا عمر بن بعد العزیزؓ پابندی سے عمل کرتے تھے ۔امالصبیان کسے کہتے ہیں اس میں اختلاف ہے ۔بعض لوگ الو کو کہتے ہیں اور بعض اس مرض کو جن کے اثرات کہتے ہیں ۔
اُلّوکے طبی فوائد :
اُلّوکواگر ذبح کر دیا جائے تو اس کی ایک آنکھ کھلی رہتی ہے اور ایک آنکھ بند ہو جاتی ہے ۔ کھلی ہوئی آنکھ کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر اسے انگوٹھی کے نگ کے نیچے رکھ دیا جائے تو اس کا پہننے والا جب تک انگوٹھی نہ اتار دے برابر جاگتا رہے گا ’ اور دوسری آنکھ کی خصوصیت اس کے بر عکس ہے ۔
طبری کہتے ہیں کہ اگر دونوں آنکھیں مل جائیں اور دونوں مٹیں یہ معلوم کرنا ہو کہ کھلی آنکھ کونسی تھی اور بند کونسی تھی تو ان دونوں آنکھوں کو پانی میں ڈال دو جو آنکھ پانی کے اوپر آجائے تو وہ کھلی ہوگی اور جو نیچے ڈوب جائے وہ بند آنکھ ہوگی ۔
ہرمس کہتے ہیں کہ اگر کسی اُلّوکا دل سونے کی حالت میں کسی عورت کے بائیں ہاتھ پر رکھ دیا جائے تو اس عورت نے دن میں جو کام کئے ہوں وہ بتا دے گی ۔
اُلّو کے پت کو بطورِ سرمہ استعمال کرنا آنکھ کی بینائی کے لئے مفید ہے ۔ کسی بڑے قسم کے الو کے دل کو بھڑئیے کی کھال میں لپیٹ کر کلائی میں باندھ لیا جائے تو باندھنے والا کیڑوں مکوڑوں سے محفوظ رہے گا اور کسی آدمی سے بھی اس کو خوف محسوس نہیں ہوگا ۔ اسی طرح اگر الو کی چربی پگھلا کر بطورِ سرمہ آنکھ میں لگایا جائے تو رات میں جہاں کہیں بھی وہ جائے گا تمام چیزیں روشن نظر آئیں گی ۔
اُلّو کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دو انڈے دیتا ہے ۔ایک انڈے سے تولید ہوتی ہے اور دوسرے سے نہیں ہوتی’ اگر دونوں میں یہ معلوم کرنا ہوکہ تولید کس انڈے سے ہوگی تو کسی انڈے میں تنکا ڈال کر آزمائیے جس انڈے سے تولید ہوگی اس میں پر نظرآنے لگیں گے۔
اُلّوکے گوشت کو کھانے سے آدمی بیوقوف اور احمق ہو جاتا ہے ۔اگر کسی کو سلسل البول ( گھڑی گھڑی پیشاب آنا ) کی بیماری ہو تو وہ اُلّوکے پتّے کوجھاؤ کی لکڑی کی راکھ اور شہد کے ساتھ ملاکر پئے ’ انشاءاللہ فائدہ ہوگا ۔ اسی طرح اگر کوئی بچہ رات میں بستر پر پیشاب کرے تو اس کو بھی یہ دوا کھلائیں ’ اس کے لئے بھی نافع ہوگا ۔ اگر کسی کو لقوہ ہو گیا ہو تو الو کو ذبح کرکے فوراً اس کا دل لقوہ شدہ جگہ پر لگانا بےحد فائدہ مند ہے اوراُلّو کے خون کو کسی تیل میں ملا کر اگر سر میں لگائیں تو تمام جوئیں مر جائیں گی ۔
تعبیر : خواب میں الو فریب کار ڈاکو کی شکل میں آتا ہے ۔ بعض نے لکھا ہے کہ الو خواب میں ایک ایسے بارعب بادشاہ کی شکل میں آتا ہے جو اپنے رعب اور ہیئبت سے رعایا کے نرخرے کو شق کر دےگا ۔ نیز کبھی کبھی اُلّو خواب میں بہادر اور نڈر ہونے کی اطلاع دیتا ہے ۔ اس لئے کہ اُلّو رات میں اڑنے والے پرندوں میں سے ہے ۔ (ماخوذ روزنامہ منصف)

Share
Share
Share