پروفیسرملک زادہ منظوراحمد کا انتقال پُرملال ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرسید وصی اللہ بختیاری عمری

Share

Prof. Malikzada

پروفیسرملک زادہ منظور احمد کا انتقال پُر ملال

ڈاکٹرسید وصی اللہ بختیاری عمری
صدر شعبہ اردو ‘ گورنمنٹ کالج راے چوٹی
ای میل :

آج بروز جمعہ بتاریخ 22اپریل 2016ء کی دوپہر دوسوا دو بجے اردودنیا کی ایک معروف شخصیت ، پروفیسر ملک زادہ منظور احمد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ پچھلے کئی دنوں سے آپ کی صحت ناساز تھی اور گذشتہ دنوں لکھنؤ کے جگرانی اسپتال میں زیرِ علاج تھے۔ آپ چند سالوں سے عارضۂ قلب کا شکار تھے۔
پروفیسر ملک زادہ منظور احمدکی ولادت 17اکتوبر 1929کو ہوئی۔ آپ نے اردو اور انگریزی میں ایم اے کیا۔ مولانا آزاد کی ادبی خدمات کے موضوع پر تحقیقی مقالہ تحریر کیا جس پر آپ کو ڈاکٹر یٹ کی ڈگری تفویض کی گئی۔

پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کے والد بھی ایک اسکول میں مدرس تھے۔ آپ نے بھی تدریس کواختیار کیا۔ ابتداء میں چند دن مہراج گنج کے کالج میں تاریخ کے لیکچرار رہے۔ پھر آپ نے اپنی باضابطہ تدریس کا آغاز انگریزی لیکچرار کی حیثیت سے شبلی نیشنل کالج،اعظم گڑھ میں کیا۔ اسی دوران مشاعروں کی نظامت کے سلسلہ کا آغاز ہوا۔ آپ اردو دنیا میں ایک مشہور و معروف اور اعلیٰ پایہ کے ناظمِ مشاعرہ کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ آپ نے مشاعروں کی نظامت میں ایک نیا موڑ پیدا کیا۔ ساری دنیا میں مختلف ممالک کے مشاعروں میں اپنی کامیاب نظامت کے جوہر دکھائے۔ نظامت کو ایک مستقل فن بنانے میں پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔
گورکھپور یونیورسٹی اور لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں تدریسی فرائض انجام دیئے۔ لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے بحیثیت پروفیسور سبکدوش ہوئے۔ اترپردیش میں اردو زبان کے تحفظ کے لیے ’’آل انڈیا اردورابطہ کمیٹی ‘‘ بنائی۔ اس کے آپ صدر رہے اور اردو زبان کے لیے عملی جدو جہد میں بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔
آپ کی زندگی کے تفصیلی حالات ‘ آپ کی آپ بیتی ’’رقصِ شرر‘‘ میں بیان کئے گئے ہیں۔ آپ نے اس خود نوشت میں مشاعروں کے احوال ، شعراء کی حرکتیں، متشاعروں کا ہجوم ، بین الاقوامی مشاعرے، اردو زبان کا موقف، اردو کے لیے عملی جد وجہد اور تحریک کی تفصیلات بیان کی ہیں۔خاص طور پر اردو رابطہ کمیٹی کے اقدامات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔
یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے اردو اور اردو کے پروفیسروں کی تفصیلات اور یونیورسٹیوں کے تقررات میں ہونے والی دھاندلیوں کو بیان کیا۔ اردو پروفیسرز کے ’عجیب و غریب‘ واقعات بیان کئے ہیں۔ آپ کی آپ بیتی بلاشبہ دلچسپ اور عبرتناک واقعات سے بھری ہوئی ہے۔
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کل ہند اردو رابطہ کمیٹی کے صدر رہے۔ آپ کو حکومت کی جانب سے اتر پردیش اردو اکیڈمی کاچیئرمین بھی بنایا گیا ۔پھر آپ سابق صدر جمہوریہ سے موسوم فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی کے صدر بھی مقرر کئے گئے تھے۔
آپ کی چند تصانیف مندرجۂ ذیل ہیں:
شہر سخن(شاعری) شہرِ ستم (شعری مجموعہ)،کالج گرل (ناول)،اردو کا مسئلہ(تحقیق اور صورتحال) ،
ابوالکلام آزاد : فکر وفن (تحقیقی مقالہ)، ابوالکلام آزاد : الہلال کے آئینہ میں (تحقیق و تنقید)،
غبارِ خاطر کا تنقیدی مطالعہ (تنقید)، رقصِ شرر (خودنوشت)، انتخابِ غزلیاتِ نظیر اکبرآبادی (انتخاب)
آپ کی خدمات کے اعتراف میں لاتعداد و بیشمار ایوارڈ پیش کئے گئے۔ جن میں خاص طور پر اترپردیش اردو اکیڈمی ایوارڈ، امتیازِ میر، ہرونش رائے بچن ایوارڈ، میکش اکبرآبادی ایوارڈ، فراق سمان، فخر اردو ایورڈ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
آپ کی حرکیاتی شخصیت ہمیشہ متحرک ، فعال اور سرگرمِ عمل رہی۔ اردو رابطہ کمیٹی کے ذریعہ اور کل ہند رابطۂ مدارس وغیرہ کے ذریعہ جو آپ نے عملی اقدامات کئے اور حکومتوں سے مطالبات منظور کروائے، ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
آپ نے اپنی عمرِ عزیز کے آخری ایام میں بھی ادبی سرگرمیوں کو ہمیشہ جاری رکھا۔ عارضۂ قلب میں مبتلا ء ہونے کے باوجود کرسی( وہیئل چیئر ) پر بیٹھ کر بھی ادبی رسالہ ماہنامہ ’امکان ‘کی ادارت میں منہمک رہا کرتے تھے۔ دہلی اور لکھنؤ کے معالجین سے علاج جاری تھا۔ صحت کی ناسازی کی وجہ سے سفراسفارسے پوری طرح کنارہ کش ہو چکے تھے لیکن خط وکتابت اور ادبی مشاغل آخری ایام تک جاری رہے۔ آپ کی خودنوشت سوانح عمری ’’ رقصِ شرر‘‘ کا دوسرا حصہ مکمل ہو چکا تھا۔ شاید اب آپ کے فرزندِ ارجمند ڈاکٹر پرویز ملک زادہ ( صدرِ شعبۂ تاریخ ، امیر الدولہ اسلامیہ کالج، لکھنؤ) شائع کریں گے۔
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ آپ کے شاعرانہ کمالات پر ناظمِ مشاعرہ کی حیثیت غالب رہی۔ مشاعروں میں کلام سنانے کے علاوہ آپ کے دو مجموعۂ کلام موجود ہیں۔آپ کے چند منتخب اور مشہور شعر درجِ ذیل ہیں:

ہر قدم مرحلۂ مرگِ تمنا ہے مگر
زندگی پھر بھی ترا ساتھ نہ چھوڑا جائے

آوارگی کا حق ہے ہواؤں کو شہر میں
گھر سے چراغ لے کے نکلنا محال ہے

تشنہ لبی نے جب بھی ذوقِ عمل دیا ہے
رندوں نے میکدے کا ساقی بدل دیا ہے

سب نے سنی ہے جس میں ’عصرِ رواں ‘ کی دھڑکن
منظورؔ ! ہم نے ایسا سازِ غزل دیا ہے

وہی قاتل ، وہی منصف، عدالت اس کی ، وہ شاہد
بہت سے فیصلوں میں اب طرفداری بھی ہوتی ہے

رسمِ تعظیم نہ رسوا ہو جائے
اتنا مت جھکئے کہ سجدہ ہوجائے

زندگی میں پہلے تو اتنی پریشانی نہ تھی
تنگ دامانی تھی لیکن چاک دامانی نہ تھی

دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا

دل کا ہر قطرۂ خوں رنگِ حنا سے مانگو
خوں بہا دوستو ! قاتل کی ادا سے مانگو

خواب کا رشتہ حقیقت سے نہ جوڑا جائے
آئینہ ہے اسے پتھر سے نہ توڑا جائے

پڑھ چکا اپنی غزل منظور ؔ تو ایسا لگا
مرثیہ تھا دورِ حاضر کا غزل خوانی نہ تھی

Share

One thought on “پروفیسرملک زادہ منظوراحمد کا انتقال پُرملال ۔ ۔ ۔ ڈاکٹرسید وصی اللہ بختیاری عمری”

Comments are closed.

Share
Share