شاہ عالم شغلیؔ : ایک صوفی شاعر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پروفیسرابوالفضل سید محمود قادری

Share

Urdu

شاہ عالم شغلیؔ
(گیارھویں صدی ہجری کا ایک اہم شاعر)

پروفیسرابوالفضل سید محمود قادری
سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی پی جی کالج
حیدرآباد

اُردو زبان کی ترویج اور اشاعت کے سلسلے میں صوفیائے کرام کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ اس زبان کے تشکیلی دور کے مرحلے سے ادبی دور تک ان بزرگوں نے اس نئی زبان کو جس کا خمیر خالصتاً ہندوستانی ہے، رابطہ کی زبان بنایا۔ اشاعتِ دین مبین کے لئے یہی زبان واسطہ بنی رہی۔
اِن بزرگانِ دین کے علاوہ بعد کے ادوار میں اس زبان کو سلاطین دکن کی فیاضانہ سرپرستی حاصل رہی اور یہہ کوچہ و بازار سے درباروں تک پہنچ گئی۔ سلاطین بہمنی ہوں کہ برید شاہی، عادل شاہی ہو کہ قطب شاہی، سبھی نے اس زبان کو چاہا اور اس کو پروان چڑھانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ۔

ابتدائی مراحل میں اس زبان پر مذہب اور تصوف کی گہری چھاپ ملتی ہے۔ بزرگانِ دین کے ملفوظات، پندنامے اور چھوٹی چھوٹی مثنویاں ہمارے قدیم ادب کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ اس زبان کے اصناف سخن اور موضوعات میں تنوع اور وسعت آتی گئی اور نتیجتاً جب ادبی دور میں داخل ہوئی تو اس کا اپنا ایک اونچا معیار بن گیا۔
صوفیائے کرام کا دور اپنی لسانی خصوصیات کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے قدیم عہد کے ان صوفی شعرأ پر تحقیقی کام کیا جائے، اس وجہ سے بھی کہ آج بھی ایسے بہت سارا صوفیائے کبار ہیں، جن کا کلام پردۂ خفا میں ہے۔ ان ہی گم گشتہ شعرأ میں آج ہم ایک ایسے صوفی شاعر کا جائزہ لیتے ہیں۔ جن کے بارے میں ادب کے تذکرے اور تاریخ بڑی حد تک جائے، اس وجہ سے بھی کہ آج بھی ایسے بہت سارا صوفیائے کبار ہیں، جن کا کلام پردۂ خفا میں ہے۔ ان ہی گم گشتہ شعرأ میں آج ہم ایک ایسے صوفی شاعر کا جائزہ لیتے ہیں۔ جن کے بارے میں ادب کے تذکرے اور تاریخ بڑی حد تک خاموش ہے۔ گویا ایک طرح سے ہم پہلی بار اس صوفی شاعر کے بارے میں بعد تحقیق و تدقیق ، ان کی زندگی کے جس حد تک حالات اور ان کا کلام دستیاب ہوسکا ہے۔ چند وضاحتیں پیش کرتے ہیں۔
گیارھویں صدی ہجری کے اس صوفی بزرگ کا نام شاہ عالم اور تخلص شغلیؔ ہے۔ عرف عام میں وہ شاہ عالم گیانی کے نام سے مقبول رہے ۔شغلیؔ ۱۰۳۰ہجری میں بیجاپور میں پیدا ہوئے۔ تعلیم و تربیت کی تکمیل بھی بیجاپور میں ہوئی۔ وہیں کے ایک برگزیدہ بزرگ حضرت سید شاہ نعمت اللہ قادری سے سلسلہ قادریہ میں بیعت ہوئے اور حضرت نے ان کو خرقۂ خلافت بھی عطا فرمایا۔ بیجاپور کی تباہی کے بعد شغلیؔ بیدر چلے آئے۔ کچھ دن قیام کیا اور وہاں سے مدراس چلے آئے اور پھر یہیں کے ہو رہے ۔ ان دنوں علاقہ مدراس کے وڈی گرام پونڈی میں حضرت شاہ سید سلطان ثانی ؒ کا بڑا شہرہ تھا۔ شغلیؔ ان کی خدمت میں پہنچے اور چشتیہ سلسلہ میں بیعت حاصل کی۔ حضرت شاہ سید سلطان ثانی ؒ نے بھی انہیں خرقۂ خلافت عطا کیا، اپنے مرشد کے حکم سے علاقہ مدراس کے تبئی پور تعلقہ والی کنڈہ پورم ضلع تریچی پہنچے اور مستقلاً قیام پذیر ہوگئے۔ ایک عرصہ تک شغلیؔ نے یہیں اپنے رشد و ہدایت کے فیضان کو جاری رکھا اور یہیں ۱۴؍ صفر ۱۱۱۴ ہجری میں (۸۳) سال کی عمر میں انتقال فرمایا۔
آج بھی ہر سال ان کا عرس شایان شان طریقہ پر منایا جاتا ہے۔
شاہ عالم شغلیؔ کے اولیائے معاصرین میں علاقۂ مدراس کی بعض مشہور اور بزرگ شخصیتیں حسب ذیل ہیں:
ظ حضرت مرتضیٰ گیانی ؒ خلیفہ ثانی سید سلطان حسینی گیانی ؒ ان بزرگ کا مزار علاقۂ مدراس کے پیرائی پور، تعلقہ والی کنڈہ پورم سے ۸؍میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ ان کا سنہ وفات ۱۱۲۱ہجری ہے۔
ظ حضرت جمال علی شاہؒ خلیفۂ ثانی سید سلطان حسینی گیانی ؒ ان بزرگ کا مزار علاقۂ یم پیٹ، ضلع تنجاور میں واقع ہے اور سنہ وفات ۱۱۲۷ ہجری ہے۔
ظ حضرت سید علی محمد ابنِ سید عبدالرحمن ؒ ان کا مزار راجپورا، ارکاٹ میں واقع ہے اور سنہ وفات ۱۱۳۸ ہجری ہے۔
ظ حضرت سیدعبدالقادر میراں شاہ ولی اللہؒ منزوی الجبلین ، آلدوری ، صلع چکمگلور حضرت کا مزار آدم کی پہاڑی ارکاٹ میں واقع ہے اور ۱۱۴۶ ہجری سنہ وفات ہوئی۔
ظ حضرت شاہ صادق ارکاٹی ان کا سنہ وفات ۱۱۲۸ ہجری ہے۔
ظ حضرت ٹیپو قلندرؒ خلیفہ حضرت سید امین الدین علی اعلیٰ ؒ جن کا مزار ارکاٹ میں ہے۔ ان کا سنہ وفات ۱۷؍ذیقعدہ ۱۱۳۱ہجری ہے۔
ان بزرگانِ دین میں حضرت شاہ مرتضیٰ گیانی ؒ اور شاہ صادق ؒ ارکاٹی شاعر گذرے ہیں۔ شاہ عالم شغلیؔ کے معاصر شعرأ میں یک رنگ حسینی ، سید محمد حسینی معظمؔ اور اسمعیلؔ قابل ذکر ہیں۔ شاہ صادقؔ ارکاٹی نے شاہ عالم گیانی شغلیؔ کی رحلت پر جو قطعہ تاریخ لکھا، اس سے بھی اس بات کی توثیق ہوتی ہے کہ شغلیؔ نے ۱۱۱۴ ہجری میں انتقال فرمایا ۔ قطعہ تاریخ یہہ ہے۔
شاہ عالم ، آں ولی ماورائے عقل و نقل
ازفنا گم گشتہ ، از باقی ندارد ہیچ فصل
گفت صادق شاہ ازروئے عقیدت مصرعے
تاکہ جوئی اندیرں ، ’’۱۱۱۴‘‘ تاریخ وصل
ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی تصنیف تاریخ ادب اُردو جلد اوّل میں شغلیؔ کے بارے میں صرف اس حد تک وضاحت کی ہے کہ اُن کا ایک پند نامہ دستیاب ہوسکا ہے ، جو (۱۹۰) ابیات پر مشتمل ہے، اس کے علاوہ مخطوطات کی مختلف وضاحتی فہرستوں میں شغلیؔ کی چند چیدہ، چیدہ غزلیں بھی مل سکی ہیں۔ ہمیں شغلیؔ کے دیوان کا ایک مخطوطہ جناب احمد خان درویش صاحب کی وساطت سے ملا ہے ، جس میں دیڑھ سو سے زائد غزلیں ہیں۔ یہہ دیوان ردیف وار ہے۔
اس دیوان کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ شغلیؔ ایک پایہ کے شاعر تھے۔ اس دیوان کا موضوع تصوف اور اس کے مسائل ہیں اور جس سے شغلیؔ کے علمی تبحر کا صاف پتہ چلتا ہے۔ زبان پر بیجاپور کی دکنی کا گہرا اثر ہے۔ یہہ دیوان زیر ترتیب ہے اور عنقریب بعد تدوین متن شائع کردیا جائے گا۔ دکنی زبان و ادب پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لئے لسانی اعتبار سے اس دیوان کی بڑی اہمیت ہے۔

Share
Share
Share