قرآن اورنظریۂ ارتقاء – – – – – ڈاکٹرمحی الدین حبیبی

Share

mohiuddin habibi
قرآن اورنظریۂ ارتقاء

ڈاکٹرمحی الدین حبیبی
حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 08978155985

نظریۂ ارتقاء، دراصل ڈارون کا مشہور و معروف حیاتیاتی ارتقاء کا تصور ہے، جو یہ بتلاتا ہے کہ انسان اس حیاتیاتی ترقی کی آخری کڑی ہے جب کہ ۔۔۔ خلیہ دی حیات Amoeba یا جراثم جیسے Bacteria وغیرہ اس کی مثال ہیں۔ انیسویں صدی میں اس کا نظریہ اتنا مقبول ہوا کہ اس واہمہ کو صحیح سمجھ لیا گیا کہ ’’انسان‘‘ حیوانات کی ترقی کی آخری سیڑھی ہے، حالانکہ اسی وقت بہت سے چوٹی کے سائنسداں جیسے ہکسلے ، سی، ایم جوڈ وغیرہ نے اس کی تردید کی، کیوں کہ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ اگر انسان نے حیوانات سے ارتقا پایا ہے تو پھر ابتدائی شکل Amoeba کا وجود باقی ہے۔ اس طرح اگر ’’بندر‘‘ یا ’’چمنبری‘‘ انسان میں تبدیل ہوگیا ہو تو پھر ’’اب تک باقی کیوں ہیں؟ ان کی نسل معدوم ہوجانی چاہیے، جب کہ وہ پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ وہ آباد ہیں ۔

اسی طرح ڈارون نے Struggle For Existene (کشمکش حیات) اور Survival For The Fihest (بقائے اصلح) کے نظریات بڑے ثبوت کے ساتھ پیش کیے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہر نوع میں ایک کشمکش و کشاکش جاری و ساری رہتی ہے، تاکہ وہ زندہ رہے باقی رہے ، جیسے اس نے ’’کش مکش حیات‘‘ کا نام دیا، جب کہ نتیجتاً صرف اسی کو بقا حاصل ہوتی ہے جو ان تمام میں سب سے زیادہ موزوں و متناسب یا ’’قابل‘‘ ہوتا ہے، یعنی اہلیت و صلاحیتکی بنیاد پر ہی بقاء حاصل ہوتی ہے، ورنہ وہ ’’نوع‘‘ یا (Species) فنا ہوجاتی ہے، پھر ڈارون کا یہ بھی کہنا ہے کہ نوع در نوع ارتقا ہوتا ہے۔ (۳) یعنی ایک نوع ترقی کرتے ہوئے دوسری نوع کا روپ اختیار کرتی ہے مثلاً امیبا (Amoeba) ترقی کرتے ہوئے مینڈک (Frog) یا پھر مچھلی (Fish) یا شارک بن سکتا ہے، اسی طرح مختلف انواع میں نوع در نوع ارتقائی عمل کے تحت نئی نئی نسلیں پیدا ہوتی ہیں اور اسی کا یہ ’’وہم‘‘ بھی ہے کہ بندر، چمیزی اور گوریلا سے ہوتے ہوئے الآخر ’’انسان‘‘ پر ارتقائی عمل اپنے عروج کو پہنچ گیا ڈارون نے تو انسانی عظمت اور اشرافیت کی دھجیاں اڑادیں اور انسان کو بندر کی اولاد قرار دیا اور انسان کو حیوانات کے ارتقا کی سیڑھی کا آخری سرا بتلایا، حالانکہ اس وقت کے بڑے بڑے ہم عصر حیاتیات دانوں جیسے سی۔ ایم ۔ جوڈ اور ہکسے نے جو اپنے دل کے گوشوں کی آواز کو بھی سننے کی صلاحیت رکھتے تھے بارہا یہ اعلان کردیا۔ خود بیسویں صدی کے تمام عظیم سائنسدانوں نے جن میں برئندرسل اور آئین سٹائین شامل ہیں، اعتراف کیا کہ ’’انسان‘‘ قدرت کا عظیم شاہکار ہے اور انسانی ’’ذہن‘‘ کی کرشمہ سازیاں کسی اور ’’نوع‘‘ میں نہیں پائی جاتیں اور یہی ایک ایسا وصف ہے جو ڈارون کے نظریہ کی تردید کے لیے کافی ہے۔ ڈارون نے مختلف کھوپڑیوں کا مطالعہ کرکے علم الانسان (Anthropology) اور قدیم انسانی حیات (Palenotology) کو دیکھ کر کہہ دیا کہ ’’انسان‘‘ بندر کی ترقی یافتہ شکل ہے، حالانکہ دماغ کا چھوٹا یا بڑا ہونا یا کھوپڑی کا بڑا یا چھوٹا ہونا انسانی ذہانت کا آئینہ دار نہیں ہوتا، بلکہ ماہرین اعصابیات کا خیال ہے کہ انسانی ذہانت کا دارومدار انسانی دماغ کے استعمال پر ہوتا ہے، گویا ذہانت اور دماغ کے استعمال کی شرح استعمال میں ایک رابطہ ہوتا ہے، وہی I.Q. کہلاتا ہے۔
ڈارون نے نظریۂ ارتقاء پیش کرکے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ اس سے کوئی پانچ چھ سو سال پہلے ابن مسکویہ نے حیاتیاتی نظریۂ ارتقاء پیش کردیا تھا اور بہت صحیح پیش کیا تھا۔ ان کا نظریہ تھا کہ نباتی زندگی اپنے ارتقا کی اعلیٰ سطح تک بڑھنے کے لیے عمدہ زرخیز زمین اور مناسب موسم کا تقاضہ کرتی ہے، جو تنے، پتے اور پھل کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے، پھر بیچ کی شکل میں دوبارہ یہی ترقیاں دور چلتا رہتا ہے۔ حواس کی آفرینش سے حیوان حرکت کی آزادی حاصل کرتا ہے، جب کہ کیڑوں ، رینگنے والی جانوروں، چیونٹیوں اور مکھیوں میں حیوانی زندگی کی تکمیل چوپائیوں میں گھوڑے اور پرندوں میں عقاب کی صورت میں ہوتی اور آخر میں حیوانی زندگی کا ارتقاء بوزنوں اور بن مانسوں کی صورت میں ہوتا ہے، جو انسان کے درجہ سے نیچے ہوتے ہیں۔ ارتقاء کی عضویاتی سطح پر تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، انسان کی قوتِ تمیز اور روحانی قوتیں ترقی کرتی ہیں۔ (خطباتِ اقبال)
پہلے تو ڈارون کی جدت طرازی نہ رہی نظریہ ارتقاء پیش کرنے میں، دوسرے اُس نے اس طرح پیش کیا کہ اس سے عظمتِ انسانی کا دامن فاخرہ تارتار ہوگیا کہ انسان، استغفر اللہ بندر کی ترقی یافتہ شکل ہے یا اولاد ہے۔
جہاں تک قرآن حکیم کا تعلق ہے وہ ’’نفس ارتقاء‘‘ سے انکار نہیں کرتا، لیکن ’’سببِ ارتقا‘‘ کی ڈارونی توجیہ کا استرداد کرتا ہے۔ نفس ارتقاء سے مراد یہ ہے کہ ہر شئے میں ہر نوع میں ارتقاء ہوتا ہے، جیسا کہ ابن مسکویہ نے بھی کہا کہ نباتیاتی ارتقاء الگ ہوتا ہے، حیاتیاتی نباتاتی ارتقاء الگ ہے، اسی طرح ہر جنس میں ، ہر نوع میں ارتقاء ضرور ہوتا ہے، ارتقائی مراحل ہوتے ہیں، لیکن ایک نوع (Species) ترقی کرکے دوسری (Speeies) میں داخل نہیں ہوتی۔ ایک ہی نوع میں تجربات کے ذریعہ اس کی ترقی یافتہ شکل حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن دو انواع کے اجتماع کے ذریعہ کسی ایک نوع کو ترقی نہیں دی جاسکتی، چنانچہ قرآن حکیم اس ’’نفس ارتقاء‘‘ یعنی ارتقائی عمل کی وضاحت کرتا ہے کہ ’’دانہ‘‘ ترقی پاکر ’’درخت‘‘ بنتا ہے اور یہ بھی بتلاتا ہے کہ اس درخت بننے کے لیے مناسب ماحول یعنی زرخیز زمین اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ کئی جگہ زمین کے بنجر کردیئے جانے، چٹانوں میں تبدیلکردیئے جانے اور زمین سے پانی کو غائب کردینے کی ’’تنبیہ‘‘ (Wasning) دی گئی ہے۔ اسی طرح انسانوں کی پیدائش کے مرحلے بھی بیان کیے ہیں، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے:
’’وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ o ثُمَّ جَعَلْنٰہٗ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ o ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ثُمَّ اَنْشَاْنٰہٗ خَلْقًا اٰخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ o (المومنون)
’’اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے بنایا۔ پھر ہم نے اس کو نطفہ سے بنایا ، جو کہ (ایک مدتِ معینہ تک) ایک محفوظ مقام (رحم) میں رہا ، پھر ہم نے اس نطفہ کو خون کا لوتھڑا بنا دیا، پھر ہم نے اس خون کے لوٹھڑے کو گوشت کی بوٹی بنا دیا، پھر ہم نے اس بوٹی کے بعض اجزاء کو ہڈیاں بنادیں، پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا، پھر ہم نے اس میں (روح ڈال کر) اس کو ایک (دوسری ہی طرح) مخلوق بنا دیا ۔ سو کیا بابرکت ہے اللہ جو تمام پیدا کرنے والوں سے احسن ترین ہے۔‘‘
مندرجہ بالا آیتوں سے انسان کے مرحلہ وار پیدا ہونے کا پورا نقشہ سامنے آجاتا ہے کہ پہلا نطفہ قرار پایا، پھر علقہ بنایا گیا، علقہ سے مغضہ، مغضہ سے عظمہ ، پھر عظمہ پر لحما ، لحما کے بعد پورے گوشت پوست کا انسان جس میں ’’نفخنا فیہ‘‘ کا عمل بھی ہوا، جس کے بعد ’’اشرف المخلوقات کے اعزاز‘‘ سے نوازا جاتا ہے، پھر خود خالق ربّ السموت و الارض اپنی عظمت و شان بیان کرتا ہے کہ وہ کیسا سب سے احسن ترین خالق ہے کہ انسان لقد خلنا الانسان فی احسن تقویم (ہم نے انسان کو تخلیق کے بہترین سانچہ میں ڈھالا ہے) کے سانچہ میں ڈھالا ہے۔ کہاں یہ بہترین و احسن ترین سانچہ اور کہاں ڈارون کا وہ بندرزاد ہونے کا ’’واہمہ‘‘ استغفر اللہ!
گویا قرآن ’’نفس ارتقا‘‘ کا حامی ہے کہ ایک نوع میں ارتقاء ہوتا ہے اور تخلیق مرحلہ وار ہوتی ہے، لیکن قرآن کو ’’سببِ ارتقاء‘‘ کی ڈارونی توجیہ سے مکمل اختلاف ہے، کیوں کہ ڈارون ’’نوع در نوع‘‘ ارتقاء کا نظریہ پیش کرتا ہے۔ اس کا یہ ماننا تھا کہ ایک خلیہ جاندار ترقی کرتے ہوئے ’’ثنویتی خلیہ‘‘ ہوا ، پھر اسی طرح ہمہ خلیت پر مشتمل بڑا جاندار بن گیا۔ یہی نہیں ’’کشمکش حیات کا عمل‘‘ بھی جاری رہتا ہے اور وہی باقی رہتا ہے جو اس جدوجہد میں کامیاب رہتا ہے۔ بادی النظر میں تو یہ سچ لگتا ہے کہ ’’لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اَلَّا مَا سَعٰی‘‘ (نہیں ہے انسان کے لیے سوائے اس کی جدوجہد کے) بایں ہمہ یہ سب کچھ مشیتِ الٰہی کے تابع ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ایک ’’ازلی تخلیقی منصوبہ‘‘ ہے ، جو ابد تک جاری رہے گا اور اسی کے مطابق ہی ہر تولیدی اور تخلیقی منصوبہ بندی عمل میں آتی ہے۔ انسان تمام علمی استعداد کے باوجود ’’الوہی تخلیقی منصوبہ سے ہم کماحقہ واقف نہیں ہوسکتے، اسی لیے شاعر نے خوب کہا کہ :
انکشافِ رازِ ہستی عقل کی حد میں نہیں
فلسفی یاں کیا کرے اور سارا عالم کیا کرے

Share
Share
Share