خامہ بگوش کی فکاہیہ کالم نگاری – – – – – ڈاکٹراسمٰعیل خاں

Share
khama-bagosh-%d8%ae%d8%a7%d9%85%db%81-%d8%a8%da%af%d9%88%d8%b4
مشفق خواجہ

خامہ بگوش کی فکاہیہ کالم نگاری

ڈاکٹراسمٰعیل خاں
لکچرر ‘ انورالعلوم ڈگری کالج، حیدرآباد

1982 ء میں ہفت روزہ ’’ جسارت‘‘ پاکستان کے فکاہیہ کالم ’’ سخن در سخن‘‘ اور 23مارچ 1984ء سے ہفت روزہ ’’ تکبیر‘‘ پاکستان کے فکاہیہ کالم ’’ سخن در سخن سے بیسویں صدی کے آخر ربع میں اردو کی فکاہیہ کالم نگاری میں ایک خوبصورت کالم نویس کا اضافہ ہوا۔ کالم ’’ سخن در سخن ‘‘ کے ساتھ کالم نگار کا نام خامہ بگوش شائع ہوتا تھا۔ خامہ بگوش کا کالم ’’ سخن در سخن ‘‘ اپنے موضوعات کے سلسلے میں جدت پسندی کا حامل تھا، خامہ بگوش نے پیشہ ور کالم نویسوں کی طرح کسی سماجی ، سیاسی مسائل کو اپنے کالموں کا موضوع نہیں بنایا بلکہ یہ کالم ادب ، ادب کے تقاضے، ادیب، ادبی سرگرمیاں ادبی کتابیں، شاعروں ، ادیبوں کے خیالات و نظریات اور ادبی دنیا کی تمام ناہمواریوں کا احاطہ کرتا تھا ۔

خالص ادبی سر گرمیوں اور ادبی دنیا کی ناہمواریوں کو خامہ بگوش سے پہلے کسی کالم نگار نے باقاعدہ موضوع نہیں بنایا تھا ۔ یہ کالم اُس دور کا مقبول کالم کہلاتا تھا ، کئی اخبارات میں اس کو نقل کیا جاتا تھا، قارئین کالم کو دیکھ کر ہی پرچہ خریدتے اور پڑھ کر داد دیئے بغیر نہیں رہتے تھے، خامہ بگوش کا مقصد ادب کے ایک عا م قاری کو ادبی دنیا کی سرگرمیوں سے واقف کرنا اور ادیب و ادب میں جو خامیاں در آئی ہیں اس کی اصلاح کرنا تھا، اس کام کے لئے خامہ بگوش نے خالص طنزیہ و مزاحیہ اسلوب کو اختیار کیا تھا ۔ جس میں سادگی معصومیت اور شائستگی شگفتگی اس قدر ہوتی تھی کہ قاری کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر جاتی تھی، اور خامہ بگوش کے قلم کی زد میں آنے والے ادیب اپنی غلطیوں پر نادم ہوجاتے تھے۔
خامہ بگوش کی یہ فکاہیہ کالم نگاری پوری ادبی دنیاکو متاثر کر گئی تھی، خامہ بگوش کے قلم کی زد میں آنے والا شخص ناراض ہونے کے بجائے خو.ش ہوتا اور یہ کہتے پھرتا کہ دیکھو آج خامہ بگوش نے مجھے اپنے کالم کو موضوع بنایا ہے۔ شہرت یافتہ مزاح نگار مجتبیٰ حسین نے خامہ بگوش کے کالموں کے موضوعات پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے:
’’ خامہ بگوش کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ صرف ادبی موضوعات پر ہی کالم لکھتے ہیں اور کالم لکھتے وقت کسی مصلحت کے شکار نہیں ہوتے ادب سماج کو سدھارنے کا ذریعہ ہوتا ہے لیکن جب تک خود ادب کا سدھارنا ہو تب تک وہ سماج کو کیسے سدھارسکتا ہے۔ اس لیے خامہ بگوش نے ساری توجہ ادب کو سدھارنے پر مرکوز کر رکھی ہے۔ یہی وجہہ ہے کہ ادیب اور شاعر حضرات پہلے تو ان سے خوف زدہ رہتے ہیں کہ کہیں یہ ان کے بارے میں کالم نہ لکھ دیں مگر جب یہ لکھ دیتے ہیں تو اس کالم لیے ہر جگہ جاتے ہیں کہ دیکھو خامہ بگوش نے ہمارے بارے میں کالم لکھا ہے‘‘۔ (ماہنامہ کتاب نما دہلی ، جولائی 1995ء ص: 77)
برسوں تک ادب کے قارئین کو یہ تجسس رہا کہ آخر خامہ بگوش کے پردے میں کون شخص چھپا ہے جو ادب اور ادبی دنیا کو سدھارنے کا بیڑا اُٹھایا ہے۔ جس کا کالم جارحانہ ہونے کے ساتھ ساتھ عالمانہ اور عارفانہ ہوتا ہے، موضوع کے تعلق سے بحث محققانہ و ناقدانہ ہوتی ہے، مطالعہ نہایت وسیع نظر بہت عمیق اور مشاہدہ نہایت تیز ہوتا ہے ، جو کام ہمارے ادب کے نقادوں کو انجام دینا چاہئے وہ کام اب خامہ بگوش اپنے طنز کے ذریعہ انجام دے رہا ہے۔ بےء شک خامہ بگوش کے پردے میں کوئی معمولی آدمی نہیں تھا بلکہ بلند پایہ محقق ، نامور نقاد اور بے لاگ صحافی ’’مشفق خواجہ ‘‘ تھے ۔
مشفق خواجہ 19؍ دسمبر 1935ء کو محمد نگر لاہور کے ایک ذی علم گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ان کے دادا کریم بخش اردو اور فارسی ادب کے ماہر اور والد خوافہ عبد الوحید اسلامیات اور اقبالیات کے ماہر تھے۔ مشفق خواجہ کا خاندانی نام ’’ خواجہ عبد الحئی رکھا گیا ، ادبی دنیا میں وہ مشفق خواجہ کے نام سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں جب کہ انہوں نے اپنا قلمی نام ’’ خامہ بگوش‘‘ اور تخلص مشفقؔ استعمال کیا ہے۔ مشفق خواجہ کراچی یونیورسٹی سے بی ۔ اے اور ایم اے کیا، تکمیل تعلم سے قبل ہی 1957ء میں انجمن ترقی اردو پاکستان سے وابستگی اختیار کرلی تھی جہاں 1973 ء تک شعبۂ تحقیق کے نگراں رہے جس کے نتیجہ میں بہت سے مخطوطات اور تحقیقی مقالات نے کتابی صورت اختیار کی اور تشنگان علم و ادب کو سیراب کیا۔ مشفق خواجہ ابتداء میں کچھ سال مولوی عبد الحق صاحب کے سیکریٹری بھی رہے، مولوی عبدالحق کے انتقال کے بعد 1973ء تک انجمن کے ممتاز جریدے ’’ اردو‘‘ اور قومی زبان‘‘ کے ادارتی فرائض بھی انجام دیئے۔ مشفق خواجہ نے ادب کی دنیا میں بحیثیت محقق و مدون تو قدم رکھا تھا لیکن وہ ادبی دنیا میں بیک وقت محقق و مدون شاعر و نقاد ، مدیر و کالم نگار، اور مزاح نگار کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں، ان کی تحقیقی تصانیف میں، تذکرہ ’’ خوش معرکہ زیبا‘‘ پرانے شاعر نیا کلام، اقبال از احمد دین، جائز مخطوطات اردو‘‘ غالب اور صغیر بلگارمی ، کلیات یگانہ ، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ مشفق خواجہ اپنے ادبی کاموں میں اس قدر مگن رہتے تھے کہ اپنی صحت کی جانب کبھی خاص توجہ نہیں دیتے تھے ، دِل کے مریض تھے، جب جب صحت جزوی طور پر بحال ہوتی تووہ پھر سے علمی و ادبی سرگرمیوں میں مشغول ہوجاتے تھے، مشفق خواجہ کا انتقال شدید علالت کے بعد ۲۱؍ فروری ۲۰۰۵ ء کو کراچی میں ہوا۔
مشفق خواجہ کا سب سے محبوب مشغلہ کتابیں جمع کرنا اور ان کا مطالعہ کرنا تھا، لوگ انہیں کتابوں کا عاشق بھی کہتے تھے کہا جاتا ہے کہ ان کی ذاتی لائبریری میں ایک لاکھ سے زائد کتابیں موجود تھیں بقول خلیق انجم کے ’’ مشفق خواجہ کے گھر میں گیارہ کمرے ہیں، دس کمروں میں کتابیں رہتی ہیں اور ایک کمرے میں خواجہ صاحب اور ان کی بیوی ‘‘ ۔اسی مطالعہ کے شوق نے مشفق خواجہ کو سنجیدہ ناقد و محقق کے ساتھ ساتھ ایک مزاحیہ کالم نگار بننے پر مجبور کردیا۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے اپنی مزاحیہ کالم نگاری کی ابتداء پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
’’ کالم نگاری کا قصہ کچھ یوں ہے کہ میں بہت سی کتابیں پڑھتا تھا تو مجھ کو افسوس ہوتا تھا کہ ان میں فلاں بات نہیں ہے یا بہت سے علمی ، ادبی مسائل ہوتے تھے جن پر اظہار خیال کرنے کو جی چاہتا تھا ۔ اب بہرحال اس کے ذریعے دو تھے کہ یا میں سنجیدہ نوع کالم لکھنا شروع کردوں یا پھر یہ انداز (طنز و مزاح ) اختیار کروں ، مجھے یہ انداز زیادہ پسند آیا کیوں کہ اس میں بات بھی کہہ دی جاتی ہے اور سننے والے کو ناگوار بھی نہیں گزرتی ، میں نے بعض بہت ہی خراب کتابوں پر بھی کالم لکھے اور ان کے ان ہی پہلوؤں کو نمایا کیا تو میرے یہ کالم ایک طرح سے تنقیدی کالم بھی ثابت ہوئے ‘‘۔ (مشفق من خواجہ من ، ص:125)
مذکورہ اقتباس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے ادبی ناہموار یوں سے دل برداشتہ ہو کر ادب، ادیب اور ادبی دنیا کے مختلف مسائل کو مزاح کا نشانہ بنایا ہے۔ لیکن ان کے اس طنز و مزاح کے پیچھے اصلاح کا جذبہ کار فرما تھا، وہ ادب اور ادیب دونوں کی اصلاح کرنا چاہتے تھے اور یہی ان کے طنزیہ مزاحیہ کالموں کا اول و آخر مقصد رہا ہے۔مشفق خواجہ کے مزاحیہ کالموں کی ایک خوبی یہ بھی رہی کہ انہوں نے جن اخبارات و رسائل کے لئے کالم لکھے ہیں وہ تمام فرضی ناموں سے لکھے ہیں ایک جگہ انہوں نے اپنے فرضی ناموں سے لکھے گئے کالموں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے:
’’میں نے 15؍ نومبر 1970 ء سے کالم لکھنا شروع کیا تھا۔ الطاف حسین قریشی نے کراچی روزنامہ ’’جسارت ‘‘ جاری کیا تھا۔ 12؍ اپریل 1971ء تک میں اس میں روزانہ ایک کالم ’’ اندیشہ شہر‘‘ کے نام سے لکھتا رہا۔ پھر 1977ء اور 1978ء میں نو ماہ تک یہ کام کیا پھر 1981ء سے 1983ء کے شروع تک ’’ جسارت‘‘ میں لکھا پھر 23؍ مارچ 1984ء سے تکبیر میں لکھ رہا ہوں، 1971ء میں کچھ عرصہ ورق ناخواندہ اور خامہ بگوش کے نام سے ’’ زندگی ‘‘ میں کچھ کالم کھے۔ 1974ء میں روزنامہ صداقت کراچی میں سخن در سخن اور میر جملہ کے نام سے کالم نگاری کی ‘‘۔( سخن ہائے گسترانہ ، ص: 14-15)
غرض مشفق خواجہ نے مختلف اوقات میں مختلف اخبارات کے لئے کالم لکھے اور ہر اخبار میں مختلف عنوانات کے تحت مختلف فرضی ناموں سے یہ کالم شائع ہوتے رہے ۔ لیکن ان کا سب سے مشہور کالم ’’سخن در سخن‘‘ ہے جو فرضی نام خامہ بگوش کے نام سے شائع ہوتا تھا۔ ایک جگہ مشفق خوانہ نے خامہ بگوش فرضی نام کے استعمال کی وجہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ:
’’ قلمی نام اختیار کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ طنز و مزاح کے کالم میں بعض غلط چیزوں کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اصل نام سے لکھنے میں خرابی یہ ہے کہ لوگ اس پر غور نہیں کرتے کہ کیا لکھا گیا بلکہ اس پر توجہ دینے لگتے کہ کس نے کیا لکھا ہے چوں کہ میرے پیش نظر مقصد اہم تھا اس لیے میں نے فرضی نام اختیار کرلیا‘‘۔ ( سخن ہائے گسترانہ ، ص: 16)
خامہ بگوش (مشفق خواجہ ) کے کالم ’’ سخن در سخن ‘‘ کے اب تک پانچ انتخابات کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں، جو یہ ہیں ’’ خامہ بگوش کے قلم سے ، سخن ہائے گفتنی ، سخن در سخن، سخن ہائے گسترانہ، جوش اور خامہ بگوش۔
جیسا کہ ذکر آچکا ہے کہ خامہ بگوش نے اپنے فکاہیہ کالموں میں سیاسی یا سماجی حالات کو موضوع نہیں بنایا بلکہ ادب، ادیب، اور ادبی دنیا کے مختلف مسائل کے علاوہ ادبی سرگرمیوں کی ناہموار صورتِ حال کو نشانہ تمسخر بنایا ہے۔ خامہ بگوش کے ادبی موضوعات میں ،ادب ، اصناف ادب، شاعر، ادبی شخصیات ادیبوں کی تقریریں ، ادیبوں کے خطوط ، ادیبوں کے انٹرویوز، ادبی معرکے، ادیبوں کی سیر و سیاحت، ادبی انعامات، اردو کتابوں کی صرتِ حال، کتابوں کی قیمتیں ، ادبی کتابوں کی تقریب رونمائی، ادبی اجلاس ، ادبی رسائل ادب کے سرکاری ادارے، ادبی تحریکات، مشاعرے غرض ادبی دنیا کے بے شمار موضوعات ملتے ہیں اس مضمون میں تمام موضوعات پر روشنی ڈالنا ممکن نہیں ہے ، چنانچہ یہاں چند نمائندہ موضوعات کے ذریعہ خامہ بگوش کی ظرافت نگاری پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
خامہ بگوش کے نزدیک ادب ادیب کی ذات کا عکس ہوتا ہے، اور ادب کو ادیب کی ذات سے علاحدہ نہیں کیا جاسکتا ، اس بات سمجھانے کے لئے وہ الفاظ کے الٹ پھیر کے ذریعہ بڑی عمدگی سے مزاح پیدا کرتے ہوئے، ادب اور ادیب کے تعلق سے لکھتے ہیں:
’’ ادب کو ہم ادیب کی ذات سے الگ نہیں کر سکتے، ادیب جو کچھ لکھتا ہے ، وہ اس کی شخصیت یعنی ذات کا عکس ہوتا ہے ادب اور ذات کو ایک دوسرے سے جدا کردیا جائے تو ادب بے ذاتی اور ذات بے ادب ہوتی ہے‘‘۔ ( سخن ہائے گسترانہ ، ص: 253)
خامہ بگوش کے مطابق موجودہ دور میں ادب کے معیار کو جانچنے کا طریقہ بدل گیا ہے۔ پہلے ادب کا معیار اس کے موضوعات سے دیکھا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ پہلے ادب کے معیار کو ادبی کتابوں اور ادبی رسالوں سے بھی جانچا جاتا تھا لیکن موجودہ دور میں ادب کے معیار کو دیکھنے کا طریقہ اس کے برعکس ہے، یعنی اب ادب کا معیار اخبار میں چھپنے والی ادبی خبریں اور ادبی تقریبوں سے معلوم کیا جارہا ہے، اسی صورتِ حال پر طنز کرتے ہوئے خامہ بگوش کہتے ہیں:
’’آج کل ہمارا سب سے بڑا ادبی معیار بھی لٹریچر کی روح سے ناآشنائی ہے۔ادب کتابوں اور رسالوں سے نکل کر اخباروں اور رونمائی کی تقریبوں میں آگیا ہے‘‘۔ ( سخن ہائے گسترانہ ، ص: 121)
خامہ بگوش کا خیال کہ ہر شاعر اپنی شاعری کی ابتداء عموماً غزل سے کرتا ہے اور ہر نقاد غزل پر کچھ نہ کچھ لکھ کر اپنی تنقید نگاری کا ثبوت دیتا ہے۔ چنانچہ ایسے شاعروں اور نقادوں پر طنز کرتے ہوئے غزل کی خصوصیت پر اس طرح روشنی ڈالی ہے کہتے ہیں:
’’ صنف غزل کے ساتھ شاعروں اور نقادوں نے یکساں سلوک کیا ہے، شاعر زندگی بھر غزلیں کہتے رہتے ہیں اور نقاد صنف غزل کی خوبیاں بیان کرنے میں عمریں صرف دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ موٹی موٹی کتابیں لکھ کر یہ ثابت کردکھایا ہے کہ صنفِ غزل بڑی سخت جان ہے اور بڑے سے بڑے صدمہ کو بآسانی جھیل سکتی ہے‘‘۔( سخن ہائے گسترانہ ، ص: 47)
خامہ بگوش نے ادب کی دیگر اصناف کی بہ نسبت نثری نظم کو بہت زیادہ اپنے طنز و مزاح کا نشانہ بنایا ہے ، چونکہ نثری نظم فن عروض سے عاری ہوتی ہے جب کہ خامہ بگوش عروض کو شاعری کے لئے ضروری سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ نثری نظم سے اعتراض کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ:
’’ ایک میٹر شاعری کا بھی ہوتا ہے ، جسے عروض کہتے ہیں۔ نثری نظم والوں کے پاس سرے سے ہی یہ میٹر نہیں ہے‘‘۔ ( سخن ہائے گسترانہ ، ص: 192)
خامہ بگوش کا خیال ہے کہ علامتی افسانہ نگاروں نے افسانہ جیسی سیدھی سادی اور آسان صنف کو بھی مشکل صنف بنادیا ہے چنانچہ وہ علامتی افسانہ لکھنے والوں کو اپنے طنز کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ ہم علامتی افسانہ لکھنے والوں کا سامنہ کرتے ہوئے گھبراتے ہیں کہیں انہوں نے گفتگو میں علامتوں سے کام لیا تو ہمارا حشر بھی وہی ہوگا جو افسانے کی صنف کا ہوا‘‘۔(خامہ بگوش کے قلم سے ، ص: 282)
خامہ بگوش صنفِ انشائیہ کے بھی معترض نظرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ جب سے انشائیہ کی تخلیق ہوئی ہے تب سے اسی سوال پر بحث چلی آرہی ہے کہ انشائیہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے اس لئے ایک جگہ انہوں نے انشائیہ کو ادبی فساد کی جڑ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:
’’ بے شمار اصناف ادب ہیں ناول ، افسانہ مسدس ، مخمس ، مثنوی ، مرثیہ ان سب اصناف کو ہر دور میں برتا گیا چھپاتے رہے۔ لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی صنف ادب بنائے فساد بن جائے، یہ اعزاز انشائیے اور صرف انشائیے کو ہی حاصل ہوا۔ انشائیہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے جیسے سوالوں کے جواب فراہم کرنے میں عمریں صرف کی جارہی ہیں‘‘۔ (سخن ہائے گسترانہ ، ص: 250)
خامہ بگوش دور حاضر کے سفر ناموں سے بھی مطمئن نظر نہیں آتے انہیں موجودہ دور کے سفر ناموں کے لکھنے کے طریقہ کار سے سخت اعتراض ہے سفر ناموں کی اس خامی پر طنز کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ اب سفر نامہ یوں لکھا جاتا ہے کہ گھرسے ایرپورٹ پہنچنے کے واقعات 30, 40صفحات میں بیان کئے جائیں اس کے بعد 50, 40 صفحات میں ہوائی جہاز میں موجودہ ایر پورٹ ایر ہوسٹسوں کا ذکر ہوا اور پھر منزل مقصود پر پہنچ کر ان لاتعداد خواتین کا تذکرہ ہوا جو مسافر کے لئے عرصہ دراز سے چشم براہ تھیں‘‘۔( سخن ہائے گسترانہ ، ص: 34)
خامہ بگوش نے موجودہ دور کی دیباچہ نگاری کو بھی خوب طنز کا نشانہ بنایا ہے ان کا خال ہے کہ دیباچہ نگاری کی اتنی خراب حالت ہے دیباچہ لکھنے والے اشخاص کتاب پڑھے بغیر ہی کتاب پررائے دیتے ہیں، فرماتے ہیں کہ:
’’ بعض دیباچہ نگار اپنے ممدوح کی تعریف کرتے ہوئے کتاب پڑھنے کے زحمت نہیں کرتے حوالے کے طور پر دیئے جانے والے اقتباسات بھی خود ہی تصنیف کر ڈالتے ہیں‘‘۔(خامہ بگوش کے قلم سے ، ص: 307)
اسی طرح ایک دوسری جگہ دیباچہ نگاروں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
’’ بعض دیباچہ نگار تو اتنے کاہل ہیں کہ وہ خود دیباچہ لکھتے ہی نہیں، صاحب کتاب سے کہہ دیتے ہیں وہ لکھ کر لے آؤ اور دسخط کرالو۔ نتیجہ یہ کہ دیباچہ بقلم غیر ہوتا ہے اور دستخط بقلم خود اس قسم کے دیباچے ان کتابوں سے بھی زیادہ بے مزہ ہوتے ہیں جن کے ساتھ یہ چھپتے ہیں‘‘۔( سخن در سخن ، ص: 155 )
خامہ بگوش کو موجودہ دور کی شاری اور شاعر دونوں سے شکایت ہے ان کا کہنا ہے کہ شعراء کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے لیکن معیاری شاعری کہیں نظر نہیں آرہی ہے، اور ادب کا سنجیدہ قاری عصر حاضر کی شاعری کے معیار سے پریشان ہے۔ شاعری کی اس صورت حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے خامہ بگوش فرماتے ہیں:
’’ شاعری کے اعتبار سے اردو زبان آج کل قحط سالی کا شکار ہے، مشاعرے پہلے سے زیادہ ہورہے ہیں مجموعہ ہائے کلام بھی کثرت سے چھپ رہے ہیں کسی قسم کی منصوبہ بندی کے پروگرام پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے شاعروں کی تعداد میں بھی خوفناک حد تک اضافہ ہورہا ہے ۔ مگر شاعری کہیں نظر نہیں آتی۔ اس مایوس کن صورت حال سے ادب کے سنجیدہ قاری پریشان ہیں۔ لیکن خود شاعروں کا یہ حال ہے کہ وہ اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ آج کے دور میں سب سے بڑا شاعر کون ہے۔ ایک ایسے زمانے میں جب شاعری روبہ زوال ہو، اگر کوئی اپنے آپ کو سب سے بڑا شاعر منوانے کی فکر میں ہو تو اس شاعرانہ نازک خیالی بلکہ بے خیالی کی داد دینی چاہئے‘‘۔ ( سخن در سخن ، ص: 216)
اسی طرح ایک دوسری جگہ ادیبوں کے ادبی معیار پر اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’پچھلے دنوں کرکٹ کے نام ور کھلاڑی جاوید میاں داد نے غصے میں آکر کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو اس پر ایک ادب دوست نے ہم سے پوچھا، اس قسم کا غصہ ہمارے ادیبوں اور شاعروں کو کیوں نہیں آتا۔ ہم نے عرض کیا، ہمارے ادیب اور شاعر اپنا سارا غصہ ادب پر ہی نکال لیتے ہیں اور خود اس سے محفوظ رہتے ہیں‘‘۔( سخن در سخن ، ص: 98)
شعراء کی تعلق سے ایک قول مشہور ہے کہ شاعر اپنے خون جگر سے شعرلکھتا ہے ۔ اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے خامہ بگوش کہتے ہیں:
’’ شاعرا پنے خونِ جگر سے شعر لکھتا ہے۔ اعلیٰ شاعری پسینے سے بھی لکھی جاسکتی ہے ، بشرطیکہ شاعر میں لکھنے کی اور خون کی جگہ پسینہ بہانے کی صلاحیت ہو ، شاید یہی وہ پسینہ ہے جسے علامہ اقبال ’’ عرقِ انفعال ‘‘ کہا کرتے تھے ‘‘ ۔(خامہ بگوش کے قلم سے ، ص:60)
خامہ بگوش نے کثیر التصانیف ادیبوں پر بھی دیکھے تیر چلائے ہیں ان کے مطابق ہمارے کچھ ادیب ایسے ہوتے ہیں کہ ہمیشہ اپنی تصانیف کی تعداد بڑھانے کی فکر میں رہتے ہیں، خواہ وہ کتابیں کار آمد ہوں یا نہ ہوں ادیبوں کے اس فعل پر طنز کرتے ہوئے خامہ بگوش لکھتے ہیں:
’’ کثیر التصانیف مصنفین کا حال بھی کثیراولاد ہوتا ہے کہ وہ تعداد میں اضافے ہی سے خوش ہوتے رہتے ہیں، کسی دوسری چیز سے مطلب نہیں رکھتے‘‘۔(سخن ہائے گسترانہ، ص: 176 )
خامہ بگوش نے اپنے کالموں میں ادیبوں شاعروں کے انٹرویو کے بیانات کو بھی اپنے طنز و مزاح کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے مطابق ایک مرتبہ زاہد حنا نے اپنے ایک انٹرویو میں شعراء کی شکایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ ہمارے شعراء حضرات غلطی سے شادیء کرلیتے ہیں کیونکہ ان کو اس رشتہ کو نبھانے کا سلیقہ نہیں آتا‘‘۔ زاہد حنا کے اس بیان پر خامہ بگوش یوں تبصرہ کرتے ہیں کہتے ہیں کہ:
’’ محترمہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ شعراء حضرات اگر غلطی سے شادی کرلیں تو انہیں اس رشتہ کو نبھانے کا سلیقہ عوام سیکھنا چاہئے۔ محترمہ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ شادی کوئی شاعری نہیں ہے جو کسی غطلی کے نتیجے میں وجود میں آئے آدمی خوب سوچ اور خاصی رقم صرف کر کے شادی کرتا ہے اور پھر شادی مزاحمتی ادب جیسی کوئی چیز بھی نہیں ہے جو عوام کے مشورے سے کی جائے۔ شعراء تو ہر معاملے میں عوام کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ شادی کے مسئلہ میں وہ عوام کی رہنمائی کیوں کر قبول کر سکتے ہیں محترمہ سے گذارش ہے کہ وہ اپنی افسانہ نگاری اور کالم نویسی کی حدود میں رہیں اور شاعروں کے ازدواجی معاملات کو انہیں پر چھوڑدیں‘‘۔ (سخن ہائے گسترانہ، 116 )
خامہ بگوش نے ادب کے قارئین کی کمی کو بھی طنز کا ہدف بنایا ہے، ایک جگہ لکھا ہے کہ:
’’ جس رفتار سے شعرائے کرام پیدا ہورہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں قارئین کی شرح پیدائش بہت کم ہے اور اس کا امکان ہے کہ آگے چل کر یہ جنس معدوم ہوجائے گی‘‘۔ (خامہ بگوش کے قلم سے ، ص: 101 )
ادبی کتابوں کی رسم اجراء رونمائی تقریبیں، ہمارے ادبی کلچر کا ایک اہم جز ہیں خامہ بگوش کا خیال ہے کہ موجودہ دور میں اس قسم کی تقریب میں تقریریں موضوع سے ہٹ کر ہوتی ہیں، بعض تقریریں مبالغہ آرائی کا اعلیٰ نمونہ ہوتی ہیں اور بعض تو رسمی و فرمائشی ہوتی ہیں۔ اس امر پر طنز کرتے ہوئے نہایت سخت لہجے میں خامہ بگوش کہتے ہیں:
’’ رومائی کی تقریبوں میں بیشتر تقریریں اس حد تک رسمی و فرمائشہ ہوتی ہیں کہ لٹریچر کی روح سے آشنائی کے خواہاں لٹریچر کی روح قبض ہونے کا منظر دیکھ لیتے ہیں‘‘۔ (سخن ہائے ناگفتنی ، ص: 165)
خامہ بگوش موجودہ دور کے مشاعروں کی ناگفتہ صورتِ حال پر بھی اپنے گم و غصہ کا اظہار کیا ہے ایک جگہ موجودہ دور کے مشاعروں کے تعلق سے فرماتے ہیں کہ:
’’ ایک زمانہ تھا مشاعروں میں ایسے شعراء پڑھے جاتے تھے جنہیں سن کر چھتیں اڑ جاتی تھیں مگر اب یہ حال ہے کہ مشاعرہ سنتے ہوئے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں زمین شق نہ ہوجائے۔ وجہ یہ کہ اگلے زمانے کے مشاعروں میں صرف کلام سناتے تھے اور رہر مشاعرے کا حاصل دوچار شعر ضرور ہوتے تھے جو سننے والوں کو یاد رہ جاتے تھے ۔ مگر اب یہ حال ہے کہ مشاعروں میں اور سب کچھ مل جاتا ہے ، اچھے شعر ہی دستیاب نہیں ہوتے ایسے شعر پڑھے جاتے ہیں جنہیں یاد رکھنا تو کیا سننا بھی شائستگی کے منافی ہوتاہے‘‘۔ ( سخن در سخن، ص: 145 )
ادب اور ادبی دنیا کے ایسے کئی موضوعات کو خامہ بگوش نے اپنی طنز و مزاح کا موضوع بنایا ہے خامہ بگوش نے ادبی معاشرے کی منفی روایات اور سطحی اقدار کو جس قدر طنز و مزاح کا نشانہ بنایا ہے اس کو دیکھ کر معلو م ہوتا ہے کہ وہ ایک صحت مند ادبی معاشرے کی تشکیل کئے آرزو مند ہیں جس کی بنیادیں شائستگی اور آگہی سے مضبوط ہوتی ہیں خامہ بگوش کے کالموں سے ہمارے ادبی معاشرے کے مزاج کی عکاسی ہوتی ہے اور انہوں نے اپنے کالموں میں جس طرح سے ادبی سرگرمیوں کی ناہموار صورتِ حال کو طرح دار جملوں اور طنز کی گہری کاٹ کے ذریعہ بیان کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کالم ادبی کوتاہیوں کے خلاف ایک صدائے احتجاج ہیں۔
خامہ بگوش کے طنز و مزاح کی ایک خوبی ان کا منفرد اسلوب بھی ہے ان کے اسلوب میں ادبی چاشنی ملتی ہے، وہ تشبہات ، محاوروں اور مختلف صنعتوں کے عمدہ استعمال سے ادب کو ایک ایسا انوکھا اسلوب دیا ہے جس کے وہ خود بانی بھی تھے اور خاتم بھی ہیں۔ زبان و بیان پر انہیں بھر پور قدرت و مہارت حاصل ہے۔ ان کے جملے کا ہر لفظ ایک مخصوس پس منظر میں استعمال ہوتا ہے اور وہ مزاحیہ جملہ کو اس فنکاری سے تراشتے ہیں کہ قاری محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ذیل میں خامہ بگوش کے چند چٹکارے دار طنزیہ و مزاحیہ جملے ملاحظہ کیجئے:
* حال ہی میں ایک اخبار میں پروین شاکر کا ایک دلچسپ انٹرویو چھپا ہے اتنا دلچسپ کہ اس کے سامنے شاعرہ کا تازہ مجموعہ ’’ خود کلامی ‘‘ اچھی خاصی ’’ تلخ کلامی‘‘ نظر آتا ہے۔
* شعبدہ باز ٹوپی سے کبوتر کو نکال سکتے ہیں تو نقادوں کے لیے ہاتھ کی صفائی دیکھانا کون سا مشکل کام ہے، وہ بھی ایک کی ٹوپی دوسرے کے سر پر رکھ سکتے ہیں۔
*ایک زمانہ تھا کہ نقاروں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا تھا لیکن جب سے ہمارے ادیبوں نے سر اور آنکھوں سے کام لینا چھوڑ دیا ہے تب سے نقادوں کی اہمیت کم ہوگئی‘‘۔
*جب ایک بڑا محقق ایک بڑے شاعر سے دست و گریباں ہوتا ہے تو قاری کبھی دست بہ دل ہوتا ہے اور کبھی دست بہ سر۔
* عتیق احمد سے ہمیں ذاتی نیاز مندی کا شرف حاصل اور ان کے صاحب مطالعہ ہونے کے ہم چشم دید بلکہ بچشم گریباں گواہ ہیں۔
* سید ضمیر جعفری صاحب عمر کی اس منزل میں ہیں جو کام سے زیادہ آرام کی عمر ہے لیکن کام ہی ان کا آرام ہے، اس لیے اگر انہیں اردو کا پیر جواں سال کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
* وہ زمانہ گیا جب کوزے میں دریا سمیٹ لیے جاتے تھے اب کوزے سے دریا بہائے جاتے ہیں۔
* آج کل بعض محقق نقادوں کے بارے میں بھی چھان بین کر رہے ہیں کہ انہوں نے کس کس چراغ سے اپنا چراغ جلایا ہے۔ حالاں کہ ذہن نقاد، چراغ سے چراغ نہیں جلاتے، دوسروں کا چراغ ہی اٹھالاتے ہیں۔
غرض خامہ بگوش کے چٹکارے دار طنزیہ جملوں کی مقبولیت کو سراہتے ہوئے خلیق انجم نے ایک جگہ لکھا ہے:
’’ ہمارے زمانے کے تین مزاح نگار اور کالم نویس ایسے ہیں جن کے چٹکارے دار طنز یہ فقرے لوگ اس طرح پڑھتے ہیں جیسے موقع بے موقع اچھے اور برے شعر پڑھے جاتے ہیں۔ یہ تین حضرات ہیں، ہندوستان کے مجتبٰی حسین اور پاکستان کے خامہ بگوش ، مشتاق احمد یوسفی ۔ (ماہنامہ کتاب نما دہلی، جولائی 1995ء ، ص: 53 )
خامہ بگوش کے طنز و ظرافت میں برجستگی کا عنصر بہت نمایاں ہے وہ کسی بھی موضوع پر بے تامل و بے ساختگی سے عمدہ مزاح لکھنے میں قدرت رکھتے ہیں اور جب وہ کسی موضوع کے مضحکہ پہلو کو نمایاں کرنے یا ہجو کرنے کے لئے کو خاکہ تیار کرتے ہیں اس میں دلچسپی کا عنصر بہت زیادہ ہوتا ہے چاہے وہ خاکہ کتنا ہی ناقابل قبول ہی کیوں نہ ہو، کیوں کہ وہ تفکر اور بصیرت کے عناصر سے مالا مال ہوتا ہے۔ خامہ بگوش کے ظریفانہ اسلوب اور زبان و بیان کی خوبی پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک جگہ شمیم حنفی نے لکھا ہے کہ:
’’ خامہ بگوش کےء فقروں میں ہمیشہ ارتکاز، بلاغت ، اور اعجاز پایا جاتا ہے، جس کا تصور زبان و بیان کے اسالیب پر گرفت کے بغیر نہیں کیا جاسکتا ‘‘۔ (ماہنامہ کتاب نما دہلی، جولائی 1995ء ، ص: 59)
خامہ بگوش زبان و بیان کو اس سلیقے سے برتتے ہیں کہ ان کی تحریر ظریفانہ ہونے باوجود بھی سنجیدہ دکھائی دیتی ہیں انہوں نے خود ایک جگہ اپنے اس مخصوص طریفانہ اسلوب میں موجود سنجیدگی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے:
’’ اس وقت جو کتاب آپ کے ہاتھ میں ہے یہ ایک سنجیدہ کتاب ہے جو
بعض سنجیدہ مقاصد کے حصول کے لیے نہایت سنجیدگی سے لکھی گئی ہے‘‘۔ (خامہ بگوش کے قلم سے ، ص:5)
الغرض خامہ بگوش کی تحریروں میں ظرافت گہری سنجیدگی کے بطن سے پھوٹتی ہے۔ وہ ظرافت برائے ظرافت کے قائل نہیں ہیں وہ مزاح کو لطف کلام کے لیے ضرور بروئے کار لاتے ہیں لیکن ان کا کلام سنجیدہ معنویت اور مقصدیت کا حامل ہوتا ہے۔
مضمون نگار:
ڈاکٹر اسمٰعیل خان شعبہ اردو انوار العلوم ، ڈگری کالج ،ملے پلی ، حیدرآباد۔
***
Dr. Ismail Khan
ismail khan

Share
Share
Share