رپورتاژ: قومی سمینار-غیرافسانوی ادب اور خواتین – – – ڈاکٹرعزیزسہیل

Share


منارۂ نور۔۔۔۔
رپورتاژ:قومی سمینار’’غیر افسانوی ادب اور خواتین ‘‘
ین ٹی آر ڈگری وپی جی کالج محبوب نگر

ڈاکٹرعزیزسہیل
لیکچرارایم وی ایس گورنمنٹ ڈگری کالج
محبوب نگر۔ تلنگانہ

محبوب نگر علاقہ تلنگانہ کا ایک پسماندہ ضلع ہے لیکن اردو زبان و ادب کے فروغ اور تصوف کے اعتبار سے زرخیز علاقہ کہا جاسکتا ہے۔یہاں اردوذریعہ تعلیم کا آغاز 1925ء سے قبل ہوچکا تھا۔اردوذریعہ تعلیم کاآغاز خود ہی اردوزبان و ادب کا فروغ کا آغاز تھا چنانچہ ایک مختصرسے عرصہ میں یہاں ادبی ماحول تشکیل پایا۔ جس کیلئے حضرت ازلؔ اور حضرت حلمیؔ استاد شُعراء کا نمایاں کردار رہا۔یہاں جناب ہاشم علی اخترسابق وائس چانسلر جامعہ عثمانیہ و علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے تعلیم پائی اور میٹرک کی تکمیل کی۔ابتداء میں یہاں کے ادبی ماحول کے فروغ میں احمدعبد اللہ المسدوسی،سالم مسدوسی،سید حکیم امیر الدین قادری نے ‘انجمن اصلاح معاشرہ’ کے تحت ادبی سرگرمیاں انجام دی۔

یہاں ایک بہترین ادبی فضاء اور ماحول فروغ پایاجس کی آبیاری آگے چل کر حضرت ڈاکٹرعلی احمد جلیلی نے کی ۔ یہا ں پر کم و بیش 25سال تک استاد شاعر حضرت ڈاکٹر علی احمد جلیلی فرزند حضرت جلیل مانکپوری قیام پذیر رہے اور درس وتدریسی خدمات انجام دی ساتھ ہی یہا ں کے ادبی ماحول کو پروان چڑھانے اور ادبی ماحول بنائے رکھنے میں اپنا بیش قیمتی تعاون روا رکھا جس کے باعث آج بھی یہاں ادب کے متوالوں کا ذوق سفر جاری و ساری ہے۔
محبوب نگر کے اسی ادبی ماحول میں ڈاکٹر حمیرہ سعیدصدر شعبہ اردو، ین ٹی آر ڈگری وپی جی کالج محبوب نگرنے یونیورسٹی گرنٹس کمیشن دہلی کے اشتراک سے یک روزہ قومی سمیناربعنوان ’’غیر افسانوی ادب کے فروغ میں خواتین کا حصہ‘‘کا 5جنوری بروز جمعرات کامیاب انعقاد عمل میں لایا۔صبح 10:45منٹ پر پروفیسر بی راجا رتنم،وائس چانسلر،پالمور یونیورسٹی محبوب نگرنے دیپ جلا کر سمینار کا آغاز کیا۔نظامت کیلئے عبدالرشیداکیڈیمک کواڈنیٹرنے مائک سنبھالا اورڈاکٹر اپرنا کوقومی ترآنہ پڑھنے کی دعوت دی ۔ڈکٹر اپرنا نے اپنی سریلی آواز میں علامہ اقبال کا لکھا ترآنہ ہندی سنایا۔ڈاکٹر حمیرہ سعید نے خطبہ استقبالیہ میں معزز مہمانان ،محبان اردومحبوب نگراور طلبہ کا ستقبال کیا اور سمینار کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ردو ادب میں ابتداء سے ہی خواتین اور ان کے مسائل پرخصوصی توجہ دی گئی ، بدلتے تقاضوں کے ساتھ عصری رحجانات وقتاً فوقتاً ادب کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ خواتین نے بھی اپنی تخلیقات کے ذریعہ اپنے وجود کا احساس دلایا ہے۔سماجی تبدیلیو ں نے تخلیق کار اورقلم کار کی حیثیت سے خواتین کو زبان وادب کی خدمت کا موقع فراہم کیا۔ ایک ایسا بھی وقت آیا کہ خواتین کے حوالے سے ادب کے فروغ کا جائزہ لیاجانے لگا۔ بحیثیت شاعرات‘ ناول نگار‘ افسانہ نویس خواتین پر بہت کچھ لکھاجاچکا ہے۔ غیرافسانوی ادب کے حوالے سے خواتین کی تخلیقی خدمات کا جائزہ منتشر حالات میں ملتا ہے۔ غالباً پہلی بار ایک منظم انداز میں اس جانب اس سمینار کے توسط سے جائزہ لینے کی منصوبہ بندکوشش کی گئی ہے۔

مہمان اعزازی ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم چیرمین بورڈ آف اسٹیڈیس اورینٹل اردو ‘ جامعہ عثمانیہ حیدرآبادنے اپنے خطاب میں کہاکہ ادب کو عموماََ تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے تخلیق،تحقیق،تنقید۔افسانوی ادب ہو کہ غیر افسانوی ین نیم افسانوی سب کچھ تخلیق کے زمرے میں آتا ہے۔غیر افسانوی ادب میں خواتین کی خدمات اہمیت کی حامل رہی ہیں ضروری ہے کہ مزید اس میں وسعت پید کی جائے۔ خواتین قلمکاروں کو تلاش کرنا اور ان کی صلاحیتوں کو نکھارنا بہت ضروری ہے۔خواتین عموماً چھپنے سے زیادہ چُھپنے میں دلچسپی رکھتی ہیں اس لیے اس سمینار کے حوالے سے ان خواتین کی تلاش کی جاے اور ان کی خدمات کو سراہا جاے۔مہمان اعزازی پر وفیسر حمید اکبرشعبۂ ار دو وفارسی گلبرگہ یونیورسٹی،گلبرگہ نے کہا کہ خواتین کی تحریریں کافی اہمیت کی حامل رہی ہیں دراصل خواتین ہی گھر کے اندر محاورے بناتی ہیں جو بعد میں باہر کے ماحول کا حصہ بن جاتے ہیں خواتین لکھتی بہت ہے لیکن اس کو ظاہر نہیں کرتی ضرورت ہے کہ جو لکھا جائے وہ شائع ہو اوروہ اردو ادب کا حصہ بنیں۔ مہمان اعزازی ڈاکٹرمعید جاوید صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد نے خواتین کے موضوع پرسمینار کے انعقادکو خوش آئند اقدام قرار دیا، انہوں نے کہا کہ اس سمینار کے ذریعے خواتین کے اندر ادبی شعور کو اجاگر کیا جائے۔اور اس سمینار کے ذریعے غیر افسانوی ادب کے فروغ میں خواتین قلمکاروں کی کارکردگی کے تجزیہ کے ساتھ ساتھ نئے گوشوں کو اجاگرکیا جائیگا۔ مہمان اعزازی پروفیسر نسیم الدین فریس ،ڈین اسکول برائے السنہ’لسانیات وہندوستانیات ،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآبادنے کہا کہ اردو زبان کو نئی نسلوں تک پہنچانے میں مردوں سے زیادہ خواتین نے حصہ ادا کیا ہے۔عصر حاضر میں خواتین اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کے اظہار کی کوشش کریں۔طالبات اردو ادب کے ممتاز خواتین قلمکاروں کو اپنا رول ماڈل بنائیں۔ مہمان خصوصی پروفیسر ستار ساحررجسٹرر ڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی کرنول اے پی نے کہا کہ شہر محبوب نگر شعر و ادب کی وجہ کافی اہمیت کا حامل ہے ‘یہاں سے نامور شعراء اور ادیب حضرات نے ملک گیر شہرت حاصل کی ہے انہوں نے کہا کہ غیر افسانوی ادب کا میدان کافی وسیع ہے اس میدان میں 10سے زائد اصناف میں خواتین نے نمایاں خدما ت انجام دی ہیں۔خواتین کیلئے تصنیف و تالیف کے میدان میں کافی مواقع موجود ہے ضرورت ہے کہ اپنے فن کو پیش کیا جائے۔افتتاحی اجلاس کو جناب عبدالہادی ایڈوکیٹ صدر مجلس ضلع محبوب نگر،جناب امتیاز اسحاق قائد ٹی آر ایس نے بھی مخاطب کیااوراپنا پیغام دیا، اس سمینار کاکلیدی خطابپروفیسر مظفر علی شہ میریصدر شعبۂ اردو،یونیورسٹی آف حیدرآباد نے دیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ خواتین جدید سماج کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں ،صحت مند ادب کی تخلیق میں خواتین پیش پیش رہیں خواتین ادب کے میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اپنی صلاحیتوں کو فروغ دیں تاکہ بہتر سماج کی تعمیر ہو، انہوں اپنے خطبہ میں غیر افسانوی ادب کی اصناف پر مدلل بحث کی اور کہا کہ اردو تحقیق اور تنقید کو غیر افسانوی ادب میں شامل نہیں کیا جانا چاہئے کیونکہ غیر افسانوی ادب جذبات اور احساسات کو پیش کرتا ہے جبکہ اردو تحقیق و تنقید ایک ہئیت کے تحت مشاہدات اور حوالے کے ذریعے کسی نتیجہ کو بیان کرتی ہیں اور تحقیق کی بنیاد مفروضہ پر ہوتی ہے،انہوں نے کہا کہ غیرافسانوی ادب کی اصناف پر گفتگو ہونی چاہئے۔ڈاکٹر بی بی ز ینب پرنسپل ین ٹی آر گورنمنٹ ڈگری وپی جی کالج(اُناث)محبوب نگر اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ اردو زبان عالمی سطح پرمقبول عام ہے ادب کے میدان میں خواتین کی خدمات بھی کافی اہمیت کی حامل ہیں اس شعبہ میں مزید ترقی کی ضرورت ہے انہوں طالبات کو مشورہ دیا کہ وہ اچھے ادب کی تخلیق کیلئے کوشش کریں اور ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کریں اور اپنے فن کی بدولت ترقی کریں،مہمان خصوصی پروفیسر بی راجا رتنم،وائس چانسلر،پالمور یونیورسٹی محبوب نگرنے اپنے خطاب میں کہاکہعلم وادب کے میدان میں خواتین ترقی کررہی ہیں اور اپنی صلاحیتوں سے ترقی کے زینہ طئے کررہی ہیں ۔ ادب کے میدان میں انہیں تصنیف و تالیف کی جانب توجہ دلانا وقت کا اہم تقاضہ ہے ،انہوں نے مزیدکہا کہ اردو زبان نے آزادی ہند کی جدوجہد میں اہم رول ادا کیا ہے ،اردو دراصل ایک تہذیب و تمدن کا نام ہے اور قومی یکجہتی کے فروغ میں اردوکا نمایا ں رول رہا ہے انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ پالموروو یونیورسٹی میں جلد از جلد اردو کے شعبہ کے قیام کیلئے کوشش کی جائیگی ۔

پروفیسر بی راجا رتنم،وائس چانسلر،پالمور یونیورسٹی محبوب نگرکے ہاتھوں سمینار کے خوب صورت سوونیئرکا رسم اجراء انجام پایا۔اس جلسہ میں معزز مہمانوں کو تہنیت پیش کی گئی ساتھ ہی عبدالرحیم بانی نواب میر محبوب علی خاں بہادر فاونڈیشن محبوب نگر کی خدمات پر ان کی تہنیت کی گئی،افتتاحی جلسہ کا اختتام محترمہ ملکہ اسسٹنٹ پروفیسرکے شکریہ پر ہوا۔ اجلاس اول کی صدارت پروفیسرستارساحر،ڈاکٹرمعید جاوید ،نے انجام دی ،اجلاس اول میں ڈاکٹرمحمدناظم علی،،ریٹائرڈپرنسپل،موڑ تاڑ ڈگری کالج،نظام آباد نے’ پروفیسر سیدہ جعفر کی شخصیت اور ادبی خدمات ‘ڈاکٹر مسرور سلطانہ ،صدر شعبہ ارد ویس ۔آر۔ آرڈگری کالج کریم نگرنے’ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کے تحقیقی و تنقیدی کارنامے‘، ڈاکٹر بی بی رضا خاتون ،اسسٹنٹ پروفیسر،مانوحیدرآبادنے’’اُردو سفر ناموں کی روایت میں خواتین کا حصّہ ‘،ڈاکٹر فہیم الدین احمد،اسسٹنٹ پروفیسر مانوحیدرآبانے’ ترجمہ نگاری میں خواتین قلمکاروں کی خدمات ‘پر مقالے پڑھے۔نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل نے حسن خوبی سے انجام دئے۔
اجلاس دوم کی صدات پر وفیسر نسیم الدین فریس اورڈاکٹرسیدفضل اللہ مکرم نے انجام دی ،اس اجلاس میں ڈاکٹرحمیرہ سعید،صدر شعبۂ اردو ،این ٹی آر ڈگری و پی جی کالج،محبوب نگرنے’ اردو مکتو ب نگاری میں صفیہ اختر کے خطوط کی انفرادیت‘،ڈاکٹررفعیہ سلیم ،اسسٹنٹ پروفیسریونیورسٹی آف حیدرآبادنے’لالی چودھری کے سفرنامے‘ ،ڈاکٹر گل رعنا،اسسٹنٹ،پروفیسر،تلنگانہ یونیورسٹی،نظام آبادنے’ حبیب ضیاء کی مزاح نگاری‘،ڈاکٹر اسرار الحق اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ ڈگری کالج سدی پیٹ نے ’بچوں کے غیر افسانوی ادب میں خواتین کا حصہ، ‘،ڈاکٹرعطیہ مجیب عارفی،حیدرآبادنے’ ڈاکٹرحمیرہ جلیلی بحیثیت محقق،ڈاکٹر محمد جہانگیر، اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ ڈگری کالج نلگنڈہ نے ’صالح عابد حسین اور غیر افسانوی ادب‘، فریدہ بیگم،ریسرچ اسکالر مانو حیدرآباد ’نے’طنز و مزاح کے فروغ میں خواتین کا حصہ (شگوفہ کے حوالے سے) ‘ ،رُشدا شاہین،ریسرچ اسکالر،مانو،حیدرآباد نے’ خواتین کی خودنوشت سوانح عمریاں،کے عنوان سے مقالے پیش کئے ۔ڈاکٹر مسرت جہاں اسسٹنٹ پروفیسر مانو حیدرآباد کا مقالہ’عصمت چغتائی کا دوزخی: خاکہ نگاری کا سنگ میل‘‘بھی پڑھ کر سنایا گیا۔ اس اجلاس کی نظامت زرین کہکشاں نے انجام دی۔صدور اجلاس نے دلچسپ انداز میں ان مقالوں کا کا تجزیہ کیا۔

اجلاس سوم کی صدارت پروفیسرحمید اکبر،پروفیسرستارساحر نے کی۔اس اجلا س میں ڈاکٹرمنظور احمد دکنی،لیکچرار ، گلبرگہ یونیورسٹی ،کرناٹک،’کرناٹک کی خواتین قلمکار ‘،ڈاکٹرنکہت آرا شاہین،پرنسپل اورینٹل کالج،حمایت نگر ،حیدرآبادنے ’اردو تحقیق کے فروغ میں پروفیسر اشرف رفیع کا حصہ‘،ڈاکٹرمحمدعبدالعزیز سہیل،لیکچرار ۔ایم وی ایس ڈگری کالج،محبوب نگرنے ’رپورتاژ نگاری میں خواتین قلمکاروں کی خدمات’’قرۃ العین حیدر کے خصوصی حوالے سے‘‘،ڈاکٹر نظام الدین،اسسٹنٹ پروفیسرایم وی ایس ڈگری کالج محبوب نگرنے ’شہر کرنول کی نقاد خواتین‘،محمدخوشتر،ریسرچ اسکالر،حیدرآباد نے ’آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد کی اردو نشریات میں خواتین کی خدمات‘،محسن خان،ریسرچ اسکالرمانو حیدر آباد نے’ عصرحاضرکے حیدرآباد ی خواتین مضمون نگار‘،محمداشتیاق احمدریسرچ مانو،حیدرآبادنے’سیر کر دنیا کی غافل کا تنقیدی مطالعہ‘،نیاز الدین صابری ،شیخ فریدریسرچ اسکالرعثمانیہ یونیورسٹی نے بھی مقالے پیش کئے،ڈاکٹرآمنہ تحسین ڈائرکٹر ویمن اسٹیڈیز،مانو،حیدرآبادکا مقالہ’’بکھری یادیں‘‘ ایک تجزیاتی مطالعہ ‘ معراج النساء بیگم نے پڑھا،ڈاکٹرمحمداسلم فاروقی،اسسٹنٹ پروفیسر گری راج ڈگری کالج،نظام آبادنے صالحہ عابد حسین کی انشاء پردازی ۔’’ آپ بیتی سلسلہ روز و شب ‘‘ کی روشنی میںآن لائین مقالہ پیش کیا۔سمیہ ثناء نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔

اختتامی اجلاس کی صدارت :ڈاکٹرجی یادگیری ،پرنسپال ،ایم وی ایس گورنمنٹ ڈگری و پی جی کالج(خودمختار)، محبوب نگرنے کی انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ محبوب نگر میں علم وادب کا بہترین ماحول پایا جاتا ہے جس کی مثال کے اردو میڈیم ڈگری کالجس پر 1000طلبہ اپنا ذریعے تعلیم اردو سے اختیار کئے ہوئے ہیں خاص کر اردو میڈیم کی طالبات یونیورسٹی کی سطح پر امتیازی کامیابیاں حاصل کرتی ہیں ۔حکومت تلنگانہ بھی تعلیمی میعار میں اضافہ کیلئے کوشاں ہیں اس سال گورنمنٹ ڈگری کالج کے طلبہ جنہوں نے سنٹرل یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کیا ہے ان طلبہ کو سالانہ پچاس ہزار روپئے اسکالرشپ کے طور پر دئے جارہے ہیں یہ سمینار خواتین کیلئے اہمیت کا حامل رہے گا۔مہمان خصوصی پروفیسر مظفر علی شہ میری نے اپنے خطاب میں کہا کہ دراصل نثری ادب کی تقسیم نصاب کی آسانی کیلئے کی گئی ہے اس موضوع پرنظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ ہیئتوں کے اعتبار سے نثر کی تقسیم ہو۔انہوں نے ڈاکٹر حمیرہ سعید کو کامیاب سمینار کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی۔ ڈاکٹر شیخ سیادت علی،انسپیکٹنگ اتھاریٹی ،مولانا آزاد ایجوکیشن، فاؤنڈیشن،دہلی نے اپنے خطاب میں کہا کہ غیر افسانوی ادب میں طنز و مزاح کو شامل نہیں کیا جانا چاہیئے۔غیر افسانوی ادب کا دائرہ کافی وسعت رکھتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اردو ذریعے تعلیم کے میعار میں اضافہ کیلئے کوشش ہونی چاہیئے اس سلسلہ میں مرکزی اور ریاستی سطح پر امدا د دی جارہی ہے اردو کے تعلیمی ادارے اس سے استفادہ کریں ۔ڈاکٹر عسکر صفدری پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج آرمور نے بھی خطاب کہاکہ عصر حاضر میں خواتین کو اردو ادب کی طرف راغب کرنا وقت کا اولین تقاضہ ہے نوجوان نسل اپنے ادبی سرمایہ سے دور ہوتی جارہی ہے ضرورت ہے کہ اردو ادب کے عظیم سرمایہ کو نسل نو میں منتقل کیا جائے تاکہ اردو ادب کو فروغ حاصل ہو سکے۔ڈاکٹر حمیرہ سعید ناظم سمینارنے شکریہ کی رسم انجام دی ۔مقالہ نگاروں میں معزز مہمانوں کے ہاتھوں اسناد کی تقسیم عمل میں آئی۔ اس موقع پر کثیر تعداد میں محبان اردو اور طلبہ کی کثیر تعداد شریک تھی۔یہ ایک منظم اور بہت ہی کامیاب سمینار تھا جس میں زیادہ تر نئی نسل کو موقع فراہم کیا گیا ساتھ ہی خواتین کی بھی اچھی نمائندگی رہی۔

Share
Share
Share