غالب کی ظرافت کے چند واقعات ۔ از۔ ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان

Share

ataulla

ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان
موظف پرنسپل‘اورینٹل اردو پی جی کالج۔حیدرآباد
حال مقیم شکاگو ۔امریکہ  – فون ۔  5046-240-773

غالب کی ظرافت کے چند واقعات

مزاح humour ہیومر لاطینی لفظ ہے اردو میں مزاح کے معنی ہنسی کے ہیں۔مزاح انسان کی جبلی خاصیت ہے جو کم و بیش تمام افراد میں پائ جاتی ہے ۔مزاح کی تعریف کرتے ہو ے الطاف حسین حالی نے کہا ’’مزاح فلسفی ‘حکما‘ بادشاہ‘اولیا‘ انبیا ء اکرام نے بھی کیا ہے۔اس سے مرے ہوےَ دل زندہ ہو جاتے ہیں اور تھوڑی دیر کے لئ پژمردہ کرنے والا غم غلط ہو جاتا ہے ۔ہنسنا انسان کی زندگی کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی جاندار کے لأ ہوا کا ہونا ضروری ہے۔انیسویں صدی عیسوی میں غالب واحد شاعر تھے جن کی شاعری میں ظرافت کا عنصر ملتا ہے۔مزاح کا عنصر ان کی فطرت میں تھا ۔وہ نامور شاعر ہی نہیں تھے بلکہ محاضرات کے بہت بڑے اسکالرتھے ۔ غالب کی حکیمانہ ظرافت ہر عہد میں زندہ رہ کر مردہ دلوں کو شگفتہ رکھتی ہے ۔اردو تذکروں میں غالب کی ظرافت کا ذکر بہت کم ملتا ہے ۔ غالب کے خطوط ظرافت کی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔غالب کی ایک سو چھیالیسویں برسی کے موقع پر ان سے منسوب لطائف پیشِ خدمت ہیں۔جہانِ اردو کے قارئین اور طلبا کے لئے ۔

۱۔ غالب کی زندگی میں دہلی کے شاعراء میں لفظ رتھ پر بہت سے چرچے اور مباحث ہوتے رہے ۔کچھ شعرا رتھ کو مذکر کہتے تھے تو کچھ مؤنث کہتے تھے۔جب یہ مسئلہ غالب کی جناب میں پیش ہوا تو انھوں نے کہا اگررتھ میں خواتین بیٹھیں تو اُس کو مؤنث کہو اور مرد بیٹھیں تو مذکر سمجھو۔
۲۔غالب کے گھر میں جو ا کھیلا جا رہا تھا۔پولیس آئی غالب کو پکڑ کر لے گئی ۔غالب کے مداح ایک دوست میاں کالے تھے۔انھوں نے غالب کو قید سے آزاد کروایا اور اپنے گھر لے گئے۔وہاں ایک اور مداحِ غالب آئے اور قید سے آزاد ہونے پر مبارک باد دی۔غالب نے فوراًکہا ’’ کون بھڑوا قید سے چھوٹا ہے پہلے گورے کی قید میں تھا اب کالے کی قید میں ہوں۔
۳۔اہلِ دہلی اور اہلِ لکھنؤکی زبان دانی کے اختلافات مشہور ہیں۔غالب کے زمانے کا ایک واقعہ ملاحظہ کیجیے۔اہلِ دہلی جس موقع پر ’’اپنے تیءں ‘‘ کا استعمال کرتے ہیں اُس موقع پر اہلِ لکھنؤ ’’آپ کو ‘‘ استعمال کرتے ہیں۔دونوں اسکول کی رقابت اور اختلافاتِ بیان مشہور ہیں ۔غالب ایک مرتبہ لکھنؤ تشریف لے گئ تو کسی صاحب نے ان دونوں لفظوں کو غالب کی جناب میں پیش کیا۔ان کی رائے دریافت کی۔غالب نے کہا اپنے تیءں کے مقابلے میں آپ کو ضرور فصیح ہے مگر اس میں دِقت یہ ہے کہ مثلاًآپ میری نسبت یہ فرمائیں کہ میں آپ کو فرشتہ صفت جانتا ہوں اور میں اس کے جواب میں اپنی نسبت یہ عرض کروں کہ ’’میں تو آپ کو کُتے سے برتر سمجھتا ہوں تو سخت مشکل واقع ہوگی۔میں تو اپنی نسبت کہوں گا اور آپ ممکن ہے کہ اپنی نسبت سمجھ جائیں گے ‘‘۔
۴۔نواب یوسف علی خان والئ رام پور کا انتقال ہو جانے پر غالب تعزیت کے لئے رام پور تشریف لے گئے تھے۔جب نواب کلب علی خان فرزند یوسف علی خان مرحوم لیفٹننٹ گورنر سے ملنے بریلی آئے ان کے ہمراہ غالب بھی تھے جو تعزیت کے بعد دہلی جا رہے تھے۔نواب صاحب نے چلتے چلتے کہا’’خدا کے سپرد‘‘غالب نے کہا ’’ حضور! خدا نے مجھے آپ کے سپرد کیا ہے اور آپ پھر الٹا مجھکو خدا کے سپرد کرتے ہیں‘‘۔

۵۔غالب کے جہاں سینکڑوں مداح تھے وہیں چند مخالفین بھی تھے۔ایک مولوی امین الدین ان میں سے تھے۔غالب کی کتاب ’’قاطع برہاں‘‘ کے جواب میں ایک رسالہ’’قاطع قاطع‘‘ کے نام سے جاری کیاجو فحش الفاظ سے لبریز تھا۔کسی نے کہا حضور غالب آپ نے اس کا کچھ جواب نہیں دیا ۔غالب نے کہا ’’اگر کوئی گدھا تمھیں لات مارے تو تم بھی اُس گدھے کو لات مارو گے‘‘۔
۶۔ہندوستان بھر سے مرزا غالب کے سینکڑوں شاگردوں کے اصلاحِ کلام کے خطوط آتے رہتے تھے۔آخری عمر میں اشعار کی اصلاح دینے سے غالب گھبراتے تھے لیکن پھر بھی کسی کا قصیدہ یا غزل بغیر اصلاح کئے واپس نہ کرتے تھے۔ایک صاحب کو لکھا کہ شاہ بو علی قلندر کو بہ سبب کبر سنی خدا نے فرض نماز اور پیغمبر نے سنت معاف کر دی تھی ۔میں متوقع ہوں کہ میرے دوست بھی خدمتِ اصلاحِ اشعار سے مجھے معاف کریں‘‘۔
۷۔ماہِ رمضان ختم ہونے کے بعد عید ملنے مرزا غالب بہادر شاہ ظفر کے دربار میں حاضر ہوئے ۔بادشاہ نے پوچھا ’’غالب ! تم نے کتنے روزے رکھے‘‘؟ غالب نے نہایت سادگی سے کہا ’’پیرومرشد! ایک نہیں رکھا‘‘۔
۸۔ایک دفعہ غالب مکان بدلنا چاہتے تھے ۔ایک مکان آپ خود دیکھ کر آئے ۔اس کا دیوان خانہ پسند آگیا مگر محل سرا نہ دیکھ سکے۔گھر پر آکر اس کو دیکھنے کے لئے بیوی کو بھیجا ۔وہ دیکھ کر آئیں تو غالب نے بیوی سے پوچھا ’’ مکان پسند آیا یا نہیں ‘‘؟ انھوں نے کہا کہ اس میں بلئیات ہیں مرزا غالب نے کہا ’’ کیا دنیا میں آپ سے بڑھ کر بھی کوئی بلا ہے‘‘۔

Share

۲ thoughts on “غالب کی ظرافت کے چند واقعات ۔ از۔ ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان”

Comments are closed.

Share
Share