ابنِ بطوطہ دکن قاری محمد نصیر الدین منشاوی – – ڈاکٹر ضامن علی حسرت

Share

ابنِ بطوطہ دکن قاری محمد نصیر الدین منشاوی

ڈاکٹر ضامن علی حسرت
نظام آباد ۔ تلنگانہ

زندگی کا صحیح لطف تو سیاحت میں پوشیدہ ہے، غور کیاجائے تو انسان کی زندگی بھی ایک سفر ہی تو ہے، جو لوگ نئی زمینوں کے متلاشی ہوتے ہیں، جنہیں کائنات میں پھیلے ہوئے مختلف ممالک کی ہواؤں میں سانس لینے میں مزہ آتا ہے، جن کی خواہش ہوتی ہے کہ اجنبی بستیوں میں شب بسری کی جائے، جنہیں قدرت کی کاریگری کو دیکھنے کا شوق ہوتا ہے، جو نئے نئے تازہ و شاداب چہروں کی لکیروں کو پڑھنا چاہتے ہیں ، جو نئی زبانوں اور نئے مکانوں کے شائق ہوتے ہیں، جو مشکلات کٹھنائیوں، مصیبتوں، آفتوں سے آنکھ ملانے کا حوصلہ رکھتے ہیں، جن کے عزم جواں اور حوصلے بلند ہوتے ہیں، انہیں ہی دنیا سیاح کے نام سے جانتی ہے، یہ لوگ اپنی نئی کھوج اور اس کی تلاش سے دنیا کو متعارف کرواتے ہوئے تاریخ کے صفحات میں اپنا نام درج کروالیتے ہیں ۔

دنیا کے بہت سے گم نام جزائر، پہاڑ، دریا، گمنام سمندر، پوشیدہ بستیاں انہیں سیاحوں کی کھوج اور ان کی انتھک جدوجہد کا نتیجہ ہیں، ابن بطوطہ نے اپنی ساری زندگی سیاحت و سفر کے لئے وقف کررکھی تھی، بہت سارے سیاح ابن بطوطہ کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں، ابن بطوطہ نے اپنے سفر ناموں میں دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے لوگوں کے رہن سہن، ان کی بول چال، ان کے لباس، تہوار، کلچر ا ور وہاں کے حکمرانوں کے عدل و انصاف اور ظلم و زیادتی کی داستانوں کو نہایت ہی سلجھے ہوئے انداز سے تحریر کرتے ہوئے انہیں سفرناموں کی شکل دی ہے، اور یہ سفرنامے ہمارے ادب کا ایک قیمتی سرمایہ، سیاحت کوئی آسان کام نہیں ہے، اس کھیل میں انسان کی زندگی داؤ پر لگی ہوتی ہے، سیاح وہی لوگ کہلاتے ہیں جن پر قدرت مہربان ہوتی ہے، جن میں حادثوں اور مقامی حالات سے نمٹنے کی صلاحیت ہوتی ہے جو اپنے اندر ایک عجیب سا جنون رکھتے ہوں ۔
قاری نصیر الدین کو بھی سیاحت کا جنون ہے جو آج سر چڑھ کر بول رہا ہے، ان کے اس جنون کو پورا کرنے میں قدرت بھی ان کی مددگار ہے، ویسے تو قاری محمدنصیر الدین کا شمارملک کے صفِ اول کے قراء میں ہوتا ہے، جب یہ اپنی سحرانگیز ترنم آمیز آواز میں قرآن کریم کو سناتے ہیں تو سامعین پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، اور لوگ ارد گرد کے ماحول سے بے نیاز ہوجاتے ہیں، قران کریم سنانے کے اسی فن کے اسی پاک ہنر نے ، اسی جنون نے انہیں ملک و بیرون میں ایک پہچان عطا کی، ایک رتبہ دیا ایک مقام دیا، قرآن کی نسبت سے ہی انہیں ہندوستان کے مختلف شہروں بنگلور ، مدراس، ممبئی، میسور، اوٹی، بھوپال، دلی ، لکھنؤ، گونڈہ ، کانپور، اورنگ آباد اور نظام آباد کے علاوہ بیرونی ممالک تھائی لینڈ، سعودی عرب اور مصر و مالدیپ، کے سفر کے مواقع ملے اور ان سبھی مقامات پر انہوں نے قرآن کریم (قرأت) سنا کر سامعین کو روحانی سکون عطا کرنے کی بھر پور کوشش کی، اور یہ اپنے نیک مقصد میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے، اور ساتھ ہی ساتھ انہوں نے جی بھر کر ان ممالک کی سیاحت کرتے ہوئے تمام واقعات و حالات کو سفرناموں کی شکل میں دنیائے ادب میں پیش کیا ہے۔
قاری صاحب کو جہاں قدرتی مناظر سے بے پناہ محبت ہے وہیں انہیں سمندروں ، دریاؤں، آبشاروں، اور میٹھے پانی کے چشموں سے والہانہ دلچسپی ہے، ان کے دل میں ایک خواہش ایک تڑپ برسوں سے انگڑائیاں لے رہی تھی کہ کسی ایسے جزیرے کی سیاحت کریں جو سمندر کے سینے پر سانس لے رہا ہو، قدرات نے ان کی یہ مراد پوری کردی اور انہیں مالدیپ جیسے حسین وجمیل جزیرے کی سیاحت کا موقع مل گیا جو سمندر کے آغوش میں بساہوا ہے، مالدیپ جو سطح سمندر سے بمشکل تین یا چار فٹ کی بلدنی پر آباد ہے اور جسے دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے

لوگ آتے ہیں، قاری نصیر الدین صاحب کے ایک فرمانبردار شاگرد کی وجہ سے انہیں مالدیپ کے سفر کا موقع ملا، مالدیپ کی ایک فعال و کارگرد تنظیم فیوچر فاونڈیشن کے ڈائرکٹر جناب ممتاز نے انہیں مالدیپ بلوایا، تاکہ ماہِ رمضان المبارک میں قاری صاحب تراویح پڑھاتے ہوئے ، درس و تدریس اور تجوید قرأت سے مالدیپ کے لوگوں کو مستفید کرسکیں، قاری نصیری الدین کا قیام جزیرے مالدیپ میں صرف دس روز تک ہی رہا، اس مختصرسے ایام میں بھی انہوں نے اپنے دینی فرائض کو نہایت ہی خوش اُسلوبی کے ساتھ انجام دیتے ہوئے مالدیپ اور اس کے اہم جزائر کی جی بھر کے سیر کی اور تمام حالات و واقعات کو ضبطِ تحریر میں لایا اور اسے ایک سفر نامے کی شکل دی جس کا عنوان ’’ سمندر کی گود میں ‘‘ رکھا۔
قاری صاحب دس دنوں میں ہی مالدیپ کے لوگوں کے ساتھ ایسے گھل مل گئے گویا یہ حیدرآباد دکن کے نہیں بلکہ مالدیپ کے متوطن ہوں، یہ جہاں بھی جاتے ہیں اپنی سحر انگیز شخصیت سے لوگوں کواپناگرویدہ بنالیتے ہیں، ایک سیاح کے اندر یہ خوبی ہونی بھی چاہیے ، اپنے سفر نامے ’’ سمندر کی گود میں ‘‘ میں انہوں نے مالدیپ کے وجود کو بکھیر کر رکھ دیا اس کی ساری پرتوں کو کھول کر رکھ دیا، چھوٹی سے چھوٹی بات کا اور بڑے سے بڑے واقعہ کا ذکر انہوں نے نہایت ہی سلجھے ہوئے ڈھنگ سے کیا جس کی بدولت سارا مالدیپ ہماری نظروں کے سامنے آجاتا ہے، مثلاً وہاں کے مکانات ، مسجدیں وہاں کا رہن سہن، پکوان، بازاروں کی رونقیں ، تعلیمی ادارے، سمندر کی سرد ہواؤں کا تذکرہ وہاں کی مہمان نوازی، وہاں کا قدرتی حسن، دلکش من کو موہ لینے والے قدرتی مناظر، مرووں خواتین نوجوان لڑکے لڑکیوں کی مصروفیات ان کے مشاغل ان کا خلوص اس کے علاوہ مالدیپ کے سینے میں دفن وہ واقعات جو ہر قاری جاننا چاہتا ہے ، قصہ مختصر قاری صاحب نے اپنی تحریر سے ایسا جادو جگایا ہے کہ دوران مطالعہ قاری کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ بھی قاری صاحب کی پرچھائی بن کر مالدیپ کی سیر کا لطف اُٹھارہا ہے۔
قاری محمد نصیرالدین نے بعض اہم باتوں کا ذکر اپنے سفرنامے میں بڑی خوبی کے ساتھ نہایت ہی آسان لفظوں میں کیا ہے، مثلاً مالدیپ کی سرکاری زبان ’’ دی وے ہی‘‘ (Deevehi) ہے اور اس کا رسم الخط عربی زبان کے اعراب کے مشابہ ہوتا ہے، ہماری پیاری اردو زبان کے بہت سارے لفظ بھی’’ دی و ے ہی ‘‘ زبان میں موجود ہیں، مالدیپ کی مساجد انتہائی کشادہ کھلی اور ہوادار و خوبصورت ہوتی ہیں، یہاں کے لوگوں کا قد اوسط ہوتا ہے مالدیپ آج سے ڈھائی ہزار سال قبل وجود میں آیا تھا، یعنی اس کی عمر لگ بھگ ڈھائی ہزار سال ہے، مالدیپ میں لگ بھگ دو ہزار جزیرے ہیں، بعض جزیرے آباد ہیں، اور بعض جزیرے غیرآباد ہیں، غیر آباد جزیروں میں کاشت ہوتی ہے اور تعمیراتی کام بھی ہوتے ہیں، مالدیپ چونکہ سطح سمندر سے صرف چار یا پانچ فٹ کی اونچائی پر آباد ہے اسی لئے ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ سطح سمندر میں جو حالیہ اضافہ ہورہاہے، اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو آنے والے پچاس برسوں میں مالدیپ ڈوب جائے گا یعنی یہ سچ مچ سمندر کی آغوش میں سما جائے گا بس اس کا نام ہی تاریخ کے صفحات میں زندہ رہے گا، ہر انسان جانتا ہے کہ ایک دن زندگی بے وفائی کرے گی ، اور دبے پاؤں موت آکر دبوچ لے گی، پھر بھی انسان زندہ رہتا ہے ایک اُمید پر ایک آس پر اورآنے والے کل کی تیاری میں لگ جاتا ہے اسی طرح مالدیپ کے لوگ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آنے والے وقتوں میں اُن کا یہ پیارا جزیرہ صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا، پھر بھی لوگ مزے سے جی رہے ہیں،انھیں بھی ہماری طرح اپنے آنے والے کل کی فکر دامن گیر نہیں ہے، کسی نے سچ کہا ہے ’’ جب تک سانس ہے تب تک جینے کی آس ہے‘‘ مالدیپ کے تصور سے ہی طبیعت باغ باغ ہوجاتی ہے، سمندر کے بیچوں بیچ ایک چھوٹا سا خوبصورت جزیرہ ہے جس کے

چاروں طرف پانی کا پہرہ، ذرا سی چوک بھی موت کو دستک دے سکتی ہے، ہم مالدیپ کے لوگوں کے حوصلہ کو ان کی ہمت کو سلام کرتے ہیں، جو لگ پانی سے گھبراتے ہیں، جنہیں سمندر کے خیال سے خوف ہونے لگتاہے وہ بھلا جزیروں کی دنیا کی کیا سیر کرسکیں گے، بقول علامہ اقبال ؂
گرتے ہیں شہ سوار میدانِ جنگ میں
وہ طِفل کیا گریں جو گھٹنوں کے بل چلیں
سمندر کی سرد ہوائیں کھلا آسمان مالدیپ کے لوگوں کے وجود کا حصہ بن چکا ہے قاری صاحب اپنے سفرنامے میں رقم طراز ہیں کہ مالدیپ کے لوگ بڑے خاموش طبع اور نرم دل ہوتے ہیں، انہیں ایک جوں کومارنے میں بھی بڑی الجھن ہوتی ہے، انہیں خون خرابہ بالکل پسند نہیں ہے، قاری نصیر الدین کے سفر کا آغاز بنگلور سے ہوا، ان کا جہاز بنگلور سے مالے ( مالدیپ کا صدر مقام ) انٹرنیشنل ایرپورٹ پر اُتر ایک دن انہوں نے مالے میں گزارا پھر ان کے میزبانوں نے انہیں پانی کے جہاز (Sea Plain) سے ایک اور جزیرے ماڈوواری (Maduvvaree) پہنچا دیا، یہاں پر ان کا قیام تقریباً ایک ہفتے تک رہا، انہوں نے ماہِ رمضان میں اپنے دینی فرائض بخوبی انجام دیئے اور ساتھ ہی جزیرے ’’ماڈوواری‘‘ کی خوب سیر بھی کی، ان کا قیام ایک چھوٹے سے گھر میں تھا جو ساحل سمندر سے کچھ ہی قدم کے فاصلے پر تھا، سرد ہواؤں اور سمندرمیں اُٹھتی ہوئی سرکش موجوں کے شور کے درمیان انہوں نے بڑے آرام سے ایک ہفتہ گزارا، اور جزیرے کے لوگوں سے خوب گھل مل گئے، وہاں کے لوگوں نے بھی ان کی خوب خاطر تواضع کی ، اپنے سفرنامے میں قاری صاحب لکھتے ہیں کہ مالدیپ کے اکثرلوگوں کا پیشہ مچھلی پکڑنا ہے، اس کے علاوہ یہ لوگ بڑھائی کا کام بھی کرتے ہیں، کشتی بناتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں، سارے جزیرے میں نوے فیصد موٹر بائیک دوڑتی ہیں ، کاریں بہت کم ہیں، بہت سے جزیرے آباد ہیں ، اور بہت زیادہ جزیرے غیر آباد ہیں، مالدیپ میں عید رمضان کو تین دن، عید قربان کو پانچ دن، محرم کی پہلی تاریخ کو ایک دن اور یوم آزادی کو ایک دن کی چھٹی ہوتی ہے، مالدیپ میں ضروریات زندگی کا سارا سامان دیگر ممالک سے آتا ہے، جن میں انڈیا بھی شامل ہے، مالدیپ کے لوگ مچھلیوں کا تیل یا مچھلیوں کے سوکھے ٹکڑے بند ڈپوں میں پیک کرکے بازروں میں فروخت کرتے ہیں جو اصل میں یہاں کی پیداوار ہے، سیاحوں کی سہولت کے لئے ایک جزیرے سے دوسرے جزیرے کے لئے سمندری جہاز (Sea plain) چلائے جاتے ہیں، جس میں آٹھ لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے، پانچ مسافر ایک پائیلٹ اور ایک میزبان جسے ہم (Air Host) بھی کہہ سکتے ہیں، مالدیپ میں دوہزار سے زائد جزائر ہیں جس میں 90فیصد غیرآباد ہیں، تمام جزائر سطح سمندرسے تین یا چار فٹ کی اونچائی پر آباد ہیں، مالدیپ، ہندوستان اور سری لنکا کا پڑوسی ملک ہے، مالدیپ کے جزائر میں بسنے والے انسانوں کی تعداد تین لاکھ اٹھائیس ہزار نو سو ترسٹھ (3,28963) ہے۔ اس ملک کا رقبہ آبادی کے لحاظ سے برآعظم ایشیا کا سب سے چھوٹا رقبہ ہے ، مالدیپ کی کرنسی کو اگر ہندوستانی کرنسی میں تبدیل کیا جائے تو ساڑھے تین یا چار روپیوں کا فرق ہوتا ہے، یعنی مالدیپ کا ایک روفیہ ہندوستان کے تین یا چار روپیوں کے برابر ہوتا ہے، مالدیپ کی سب سے بڑی آمدنی کا ذریعہ سیاح ہیں، دنیا بھر سے سیاح مالدیپ کا رُخ کرتے ہیں، جن میں زیادہ تر نوجوان شادی شدہ جوڑے ہوتے ہیں ، جو ہنی مون کی غرض سے یہاں آتے ہیں، اور اس دلکش سحر انگیز جزیرے کی رعنائیوں میں پوری طرح ڈوب جاتے ہیں۔
قاری نصری الدین نے مالدیپ جیسے چھوٹے جزیرے کے بارے میں بھی بڑی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، ان کا یہ سفرنامہ اُن لوگوں کے

لئے کسی نعمت سے کم نہیں ، جو مالدیپ کی سیر کے خواہشمند ہیں، یہ دنیا ایک بھول بھلیاں ہیں، اس دنیا میں ایسے بہت سے ممالک ہیں ، مقامات ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن اس مختصر زندگی میں انسان کی ساری خواہش کہاں پوری ہو پاتی ہیں ، بقول غالب ؂
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے
قاری نصیر الدین خوش نصیب ہیں ، انہیں سیاحت کے حسین مواقع مل رہے ہیں ، اور انشاء اللہ آگے بھی ملتے رہیں گے، انہوں نے مالدیپ کے سفرنامے کو بڑی محنت اور دلچسپی کے ساتھ لکھتے ہوئے، اس بات کو ثابت کردیا کہ یہ دکن کے ابن بطوطہ ہیں، انہیں سفرکرنے کاسلیقہ بھی آتا ہے، اور سفر ناموں کو تحریر کرنے کا ہنر بھی وہ خوب جانتے ہیں ، ہماری دعائیں اور نیک خواہشات قاری محمد نصیر الدین کے ساتھ ہیں، ہمیں امید ہے کہ ان کے اندر سیاحت کا جذبہ یونہی جاری رہے گا اور یہ مستقبل میں اور بھی ممالک کی سیاحت پر نکلیں گے، اور ان کے سفرنامے یونہی ہماری نگاہوں کے آگے آگے رہیں گے، اس شعر پر میں اپنی اس تحریر کو اختتام کا جامہ پناتا ہوں ۔
میں اپنے فن کی بلندی سے کام لے لوں گا
مجھے مقام نہ دو میں مقام لے لوں گا
——-

Dr.Zamin Ali Hasrat
Share
Share
Share