کتاب : رنگ و آہنگ : – مصنف: محمددانش غنی / مبصر:ڈاکٹرعزیز سہیل

Share

کتاب : رنگ و آہنگ
تنقیدی‘ تحقیقی اورتاثراتی مضامین

مصنف: محمددانش غنی
09343260652

مبصر:ڈاکٹرعزیز سہیل
09299655396

گلوبل ولیج اور مادیت کے اس دور میں اردو کا قاری اردو سے آہستہ آہستہ دور ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں اردو کے اساتذہ اور محبان اردو کی ذمہ داری ہے کہ نئی نسل کو اردو کے عظیم سرمایہ سے واقف کروایا جائے اور اردو زبان کے تحفظ کے لئے عملی اقدامات کئے جانے چاہئے۔ نئی نسل میں اردو لکھنے اورپڑھنے کے شوق کو بیدار کرنا وقت کا اولین تقاضہ ہے۔ بہت کم اساتذہ ایسے ہیں جو اردو زبان و ادب پرعبور رکھتے ہیں اور ساتھ ہی وہ ایک اچھے قلمکار کی حیثیت سے سماج میں اپنی پہچان رکھتے ہیں ۔

نئی نسل کے اردو قلمکاروں میں مہاراشٹرا کی سرزمین سے ایک منفرد نام محمددانش غنی کابھی ہے جو پیشہ درس وتدریس سے وابستہ ہیں ۔ساتھ ہی ایک اچھے قلمکار کی حیثیت سے انہوں نے اپنی پہچان بنائی ہے۔ محمددانش غنی نئی نسل کے نمائندہ قلمکار ہیں جن کی تحریروں میں جوش ‘جذبہ اور شعور بھی خوب نظرآتا ہے۔ وہ ایک اچھے مقرر بھی ہیں ‘زبان وبیان پرعبور بھی رکھتے ہیں۔ محمددانش غنی کی تصنیف ’’رنگ وآہنگ‘‘ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے مالی تعاون سے منظرعام پرآئی ہے۔ اس کتاب کا انتساب انہوں نے والدین کے نام معنون کیا ہے۔
اس کتاب میں دانش غنی کے قلم سے 25تخلیقی پارے مضمون کی شکل میں شامل ہیں۔ ان مضامین میں قابل ذکر’’ آزاد ہند میں اردو صحافت کا کردار‘‘ ،’’کتب خانہ اور ان کے فرائض‘‘،’’ ہندوستان میں کتب خانوں کی تحریک‘ ‘،’’ایم نسیم اعظمی کا شعری مزاج‘‘،’’ شاہد کبیر وردبھاایک جدید آواز‘‘ ’’ڈاکٹرشفیق اعظمی اوربچوں کی شاعری‘ ،’’کوکن میں اردو غزل‘‘،عبدالرحیم نشتر ایک باز یافت‘‘،’’ ادب اطفال کا ایک اہم نام عبدالرحیم نشتر‘‘،’’افسوس ہم کومیر سے صحبت نہیں رہی‘‘ ،’’سرسید احمدکا اتحاد پسندانہ رویہ‘‘،’’ مستند لب ولہجہ کے شاعر مجروح سلطان پوری‘‘ قابل ذکر ہیں۔
کتاب کا پیش لفظ ’’رنگ وآہنگ کی قوس وقزاح‘‘ کے عنوان سے شیریں دلوی نے لکھا ہے جس میں شیریں دلوی ‘محمددانش غنی کی شخصیت سے متعلق لکھتی ہیں’’ محمد دانش غنی کی شخصیت اردو شعروادب میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ ہندوستان کے نمائندہ رسائل وجرائد میں علم وادب کی مختلف شخصیات پردانش کے مختلف النوع مضامین گزشتہ کئی برسوں سے اشاعت پذیر ہیں۔ اس خود نمائی اور خود پرستی کے دورمیں اردوادب کی بے لوث خدمت انجام دینے والے نایاب نہ سہی کمیاب ضرور ہیں ۔محمددانش غنی اردو شعروادب کے ایسے خدمت گزاروں میں سے ایک ہیں ۔‘‘
رنگ وآہنگ محمددانش غنی کے تنقیدی‘تحقیقی‘ تاثراتی مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان مضامین پر شیریں دلوی نے گہری نظر ڈالی ہے اور ان کے نثری کارناموں اور سخن فہمی کو اجاگرکیا ہے۔ اس کتاب میں بابرشریف کی تقریظ ’’ریوڑ سے الگ‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ بابر شریف نے محمددانش غنی سے پہلی ملاقات کا تذکرہ کیا ہے اور دانش غنی کے ساتھ گزرے ہوئے پلوں کی تفصیل کو بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’ادھر وقفہ وقفہ سے دانش غنی کے مضامین میری نظر سے گذرنے لگے تھے ’’اردو دنیا ‘نئی دہلی‘ کبھی انقلاب ممبئی‘ کبھی اردوٹائمس ممبئی اور اردوصحافت ممبئی میں ان مضامین میں کچھ ان کہی باتیں بھی تھیں جوشائد میں سمجھ سکا ہوں‘ پتہ نہیں کیوں ان کے مضامین پڑھنے کے بعدمجھے ایسا محسوس ہواکہ گویا زندگی نے دانش کے پاؤں میں چکے باندھ دئیے ہیں۔دانش بڑی سلیس اور رواں دواں نثر لکھتے ہیں۔میں ان کی نثر کا قتیل ہوں حالانکہ وقتاً فوقتاً اس نے شاعری بھی کی مگر وہ اس نوعیت کی نہیں رہی جسے شاعر کی سند دی جاتی اور کہیں نہ کہیں اسے اس بات کاقلق بھی ضرور رہا (اللہ کا شکر ہیوہ اس مصیبت سے بچ گیا) بہرحال وہ ایک بہترین نثر نگار ہے۔‘‘
محمد دانش غنی نے کتاب کے ابتداء میں اپنی بات کے عنوان سے کتاب کے اشاعت کے مقصد کوبیان کیا ہے۔اور لکھا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے میں نے وقتاً فوقتاً مختلف موضوعات پر مضامین لکھے ہیں جو میرے ادبی شوق وذوق کی تسکین بھی ہے۔ اس لئے میں پڑھتا ہوں‘ لکھتا ہوں ‘ لکھتا ہوں ‘پڑھتاہوں۔ مجھے اپنے نقاد ہونے کا کوئی زعم نہیں ‘میں توصرف اردو شعر وادب کا ایک ادنیٰ سے طالب ہوں اور ہمیشہ رہوں گا‘‘۔
رنگ وآہنگ میں شامل مضامین میں سب سے پہلا مضمون کا عنوان ’’آزادی ہند میں اردوصحافت کاکردار ‘‘رکھاگیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس موضوع پر اردو ادب میں کچھ لکھا نہیں گیا بلکہ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، لیکن دانش غنی نے اس موضوع کے پوشیدہ پہلوؤں کا اجاگر کرنے میں اپنی تحقیقی حس کو استعمال میں لاتے ہوئے نئے گوشوں کو اجاگر کیا ہے۔وہ ایک محقق کی حیثیت سے اپنے مضامین میں حوالوں کوبھی پیش نظررکھتے ہیں۔ ان کی تحریر کویہ حوالے سند عطا کرتے ہیں۔ دانش غنی نے اس مضمون میں صحافت سے وابستہ صحافی حضرات کا تذکرہ کیا ہے۔ انہوں نے آزادی ہند میں اردوصحافت کے کردار سے متعلق لکھا ہے کہ’’ بیسویں صدی کے آغاز میں جواردماہنامے جاری ہوئے ہیں ان میں شائع ہونے والے مضامین نثر ونظم سے بھی آزادی ہند کی تحریک کو رفتارملتی رہی‘منشی دیانارائن کے ماہنامے ’’زمانہ کانپور‘‘میں منشی پریم چند کے وہ ابتدائی افسانے شامل ہوئے ہیں جنہیں بعد میں سوز وطن کتاب کی شکل میں شائع کئے گئے ہیں۔ یہ سبھی کہانیاں حب الوطنی اورحریت پسندی سے رچی ہوئی تھیں۔ ان کہانیوں سے جدوجہد آزادی کے جذبات شدید ہورہے تھے چنانچہ انگریز حکومت نے اس مجموعہ کو ضبط کرلیا‘‘۔
کتاب میں شامل دوسرامضمون ’’کتب خانے اور ان کے فرائض‘‘کے عنوان سے شامل ہے۔ اس مضمون میں دانش غنی نے کتب خانوں کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے ساتھ ہی جامعات میں قائم کتب خانوں کے خصوصی حصوں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ دانش غنی نے اس مضمون میں کتب خانو ں میں انجام دی جانے والی سرگرمیوں کااحاطہ بھی کیاہے ۔ اس متعلق وہ لکھتے ہیں کہ’’ بڑے بڑے شہروں میں جہاں لوگ شہر سے دور رہتے ہیں وہاں عوامی کتب خانوں کی شاخیں ہونی چاہئے تاکہ شہر کاکوئی ایسا گوشہ باقی نہ رہے جہاں لوگ اس سے محروم ہوجائے۔ عوامی کتب خانہ کا مقصد یہی ختم نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اس کی بہت سی ذمہ داریاں ہیں۔اس علاوہ عوامی کتب خانہ میں لیکچر ‘ڈرامے اور بحث ومباحثے کی نشستیں ہونی چاہئے اور اس کااعلان مقامی اخباروں میں کردیناچاہئے تاکہ بلا روک ٹوک ہرشخص اس میں حصہ لے سکے اور اس سے استفادہ کرسکے‘‘۔
دانش غنی کے اس مضامین کے مجموعہ میں اکثر مضامین شعرا کے فن اور شخصیت پر شامل ہیں۔ وہیں نثر کے چند ایک اہم مضامین بھی شامل کئے گئے ہیں۔ دانش غنی کے مضامین کافی اہمیت کے حامل ہیں جس میں ان کی جدت‘جستجو‘تحقیق وتنقید اور دیگر خوبیوں کا علم ہوتا ہے۔ دانش غنی ایک نوجوان قلمکارہیں ۔ جن کا قلم نئی نسل میں ادبی شعور کواجاگرکرنے کا کام بہت ہی خوبی کے ساتھ انجام دے رہا ہے۔ محمد دانش غنی کواس مجموعہ کی اشاعت پرمبارکباد پیش کی جاتی ہے ۔اس مجموعہ کو بہترسے بہتربنانے کی دانش غنی نے خوب کوشش کی ہے لیکن کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ اگران کی یہ کتاب ان اغلاط سے پاک ہوتی توبہترہوتا۔امید کہ وہ اس جانب آئندہ ضرور توجہ فرمائیں گے۔ دانش غنی کی یہ کتاب اردو کی نئی نسل کے لئے ایک عظیم تحفہ ہے۔ اس طرح کی کاوشوں کے نتیجے میں اردو ادب عصرحاضرمیں ترقیوں کی منزلیں طئے کرے گا اور اردو والے اپنے ادب واخلاق کی بناء پر ساری دنیا میں منفرد مقام پاسکیں گے۔
152صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 92 روپئے رکھی گی ہے ۔اس کتاب کے ناشر کتاب پبلی کیشنز ،گوریگاوں ۔رائے گڑھ مہاراشٹرا ہیفون نمبر 09343260652 پر ربط کرتے ہوئے کتاب کو خریدا جاسکتا ہے۔
***

ڈاکٹرعزیز سہیل
ڈاکٹر دانش غنی
Share
Share
Share