گھریلو چڑیا House Sparrow :- ڈاکٹر عزیز احمد عرسی

Share


وہ جو کبھی ہمارے گھر کے آنگن میں پھدکتی تھی۔۔
گھریلو چڑیا – House Sparrow

ڈاکٹر عزیز احمد عرسی، ورنگل

میں جیسے ہی گھر میں داخل ہوا دیکھا کہ بڑے کشادہ صحن میں جام کے جھاڑ کے نیچے میرا پوتا فوزانؔ احمد بیٹھا تھا ،بچے کے سامنے ایک برتن رکھی تھی ،جس میں دو تین بسکٹ رکھے ہوئے تھے ۔ جنہیں وہ کھا کم رہا تھا اور پھینک زیادہ رہاتھا۔میں کچھ دیر تک یہ منظر دیکھتا رہا، لیکن اس منظر میں مجھے جس چیز نے حیرت میں ڈال دیا وہ گھریلو چڑیا تھی جو بچے کے ہاتھ سے بسکٹ کا تکڑا چھیننے کی کوشش کر رہی تھی۔بچہ اپنی مدافعت کر رہا تھا لیکن یہ چڑیا اپنی کوشش میں لگی ہوئی تھی بالآخر چڑیا نے تکڑا چھین لیا اور برتن کے بالکل بازو بیٹھ کر کھانے لگی اور بچہ اس کو بڑی حسرت و معصومیت سے دیکھنے لگا۔ جب کبھی بچے کا ہاتھ بے اختیار کسی جانب اُٹھ جاتا تو چڑیا پھدک کر قدرے دور جا بیٹھتی لیکن اونچا اُڑ کرجام کے درخت کی ٹہنی پر نہیں جاتی۔ میں اپنے آپ کو چڑیا کی نگاہوں کے دائرے سے بچا کر اس منظر کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ چڑیا جو بحکم رب اپنے بچوں کو کھلانے پر معمور ہے کیا اس بچے کی معصومیت کو بھی جانتی ہوگی مین نے اپنے آپ میں جواب پایا کہ ۔۔ہاں ۔۔یہ چڑیا نہ صرف بچے کی مؑ صومیت بلکہ ہماری متانت سے ضرور واقف ہوگی اس لئے کہ جب چڑیا نے محسوس کیا کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں تو وہ پُھر سے اُڑ گئی اور دور ایک درخت پر جا بیٹھی۔یہ دیکھ کر مجھے اپنا بچپن یاد آگیا ۔جب میری ماں مجھے کھانا کھلا رہی ہوتی تو کچھ دانے میرے منہ سے نکل کر نیچے میرے ماں کے قدموں میں گر جاتے تو یہی چڑیا آدھمکتی اور ماں کے قدموں سے دانے چننے لگتی،نہ ماں انہیں بھگاتی اور نہ ہی یہ چڑیا ڈر کر اُڑ جاتی تب میرے دل نے کہا کہ میاں۔دنیا کی ہر چڑیا جانتی ہے کہ دنیا کی ہر ماں معصوم ہوتی ہے اور یہی وہ معصومیت ہے جو چڑیا کے دل سے ڈر کو بھگا دیتی ہے کہ خصوصاً جب ماں اپنے بچے کو کھانا کھلا رہی ہو تو وہ نڈر ہوجاتی ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ جب تک وہ دنیا کی کسی بھی ماں کے قدموں سے لپٹی رہے تو نہ صرف محفوظ رہے گی بلکہ اسے کھانا بھی ملتا رہے گا اور یہ ماں بھی جانتی ہے کہ جب تک یہ چڑیا میرے قدموں سے لپٹی رہے گی اس وقت تک اس کا بیٹا کھانا کھاتا رہے گا۔اسی لئے میں نے اس کتاب کو اُسی چڑیا سے منسوب کیا ہے جس نے پہلی بار میری برتن سے دانہ چرایا تھا۔زمانہ گزرتا گیا حالات بدلتے گئے شہروں کی ترقی میں اضافہ ہونے لگا،گھر کے صحن تنگ ہوگئے ،بچوں کو کھانا کھلانے کے ڈنگ بدل گئے تو کچھ عرصے تک یہ چڑیا نہ صرف ہمارے گھروں سے بلکہ ہمارے باغوں سے ، ہمارے شہروں سے بھی غائب ہوگئی ۔ماحولیاتی آلودگی نے شاید ان کو شہری علاقوں سے دور کردیا تھا۔اسی لئے عرصہ دراز تک میرے بچوں کی برتن سے وہ چڑیادانہ نہیں لے جاسکی کیونکہ وہ خود اپنے وجود کو بچانے میں لگی ہوئی تھی ، یہ افتاد ان پر کیوںآن پڑی کہنا مشکل ہے کیونکہ بیشتر ماہرین ماحولیات اور سائنسدانوں نے اس تعلق سے مختلف نظریات پیش کئے ہیں،بعض افراد باغوں میں غذا کی کمی کو اس کی وجہہ قرار دیتے ہیں،اس کے علاوہ دوسرے عوامل میں پٹرول کے استعمال سے لے کر کاربن مانو آکسائیڈ،فرٹیلائزرس اور موبائیل فون کا کثرت سے استعمال شامل ہے ۔ لیکن گذشتی چھ آٹھ برسوں سے میں یہ دیکھ رہا ہوں اور محسوس کر رہا ہوں کہ جب اس چڑیا کو معدومیت کے ہاتھوں نے بخش دیا تو وہ پھر سے ہماری اور ہمارے بچوں کی زندگیوں میں رنگ بھرنے واپس چلی آئی ،اسی لئے ہمارے دل کی کلی بھی ’’چوں۔چوں کرنے لگی ہے۔
قرآن میں اس پرندے کا ذکر نہیں ہے۔بائیبل میں اس چڑیا کا ذکر کئی مقامات پر ہے خصوصاً Matthew,Luke اور Psalm میں اس چڑیا کا تذکرہ ہے ۔ ہندوازم میں اس چڑیا بطور خاص تذکرہ مجھے نہیں ملا لیکن ہندوازم میں سینکڑوں پرندوں کا ذکر ہے۔ اس کو تلگو میں ’’پچوکا‘‘ ہندی میں’’ گوریا‘‘،کنڑ زبان میں ’’گوبباجی‘‘،مرہٹی میں ’’چمانی‘‘ فارسی میں’’ گنجشک ‘‘کہا جاتا ہے اور دکن کے علاقے میں اس کو ’’خان چڑی‘‘ کہا جاتا ہے، ان کا اصلی وطن یورپ ہے لیکن اس چڑیا کو دنیا کے دوسرے مقامات پر بھی لے جایا گیا ،اس چڑیا میں جو قوت مدافعت ہوتی ہے اس نے اس چڑیا کو ہر جگہ زندہ رکھا اسی لئے جہاں جہاں اس کو انٹروڈیوس(Introduce)کیا گیا وہاں یہ چڑیا بقا کی جد و جہد میں پوری اتری اسی لئے آج دنیا میں ہر جگہ پائی جاتی ہے ۔ انگریزی ادب میں اس چڑیا کا کئی جگی ذکر ملتا ہے بالخصوص چاسرؔ Chaucer اور شیکسپئرؔ Shakespeare نے اس چڑیا کا ذکر کئی ایک بار کیا ہے۔Egyptian hieroglyphs میں بھی اس چڑیا کی تصاویر کئی جگہ دکھائی دیتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق گھریلو چڑیا کا اور انسانوں کا ساتھ تقریباً زائد از دس ہزاربرس کا ہے۔
چڑیا بحیثیت مجموعی دلکش ہوتی ہے اس کے ’’پر‘‘(Feathers) خوبصورت ہوتے ہیں جس کی وجہہ سے اس کے وجود میں کشش پیدا ہوجاتی ہے۔گھریلو چڑیا سادہ آواز رکھتی ہے ، اس کی آواز chirrup ،chirrup (چرپ چرپ) ہوتی ہے،جب وہ ترنگ میں مسلسل گانے لگتی ہے تو ماحول میں چہچہاٹ کی خوشگوار لہریں دوڑنے لگتی ہیں اور فضا آواز کی سادگی میں ڈوب جاتی ہے۔ شاعرا سی لئے اس مسلسل آواز کو قدرت کی حمد قرار دیتا ہے
یہ پیاری پیاری چڑیاں پھرتی ہیں جو چہکتی
قدرت نے تیری ان کو تسبیح خواں بنایا
لیکن سائنسدان کے نزدیک یہ چوں چوں کی مسلسل آواز اس کا تولیدی گانا ہے،مادہ (Female) چڑیاعام طور پر آواز نہیں کرتی لیکن جب پرانا ساتھی چلاجاتا ہے تو یہ کسی نئے ساتھی کو متوجہہ کرنے کے لئے اپنی خوبصورت آواز میں گانا گاتی ہے ۔ ’’نر‘‘ Male کا گانا اس کو گھونسلے کا مالک ظاہر کرنے کے لئے گایا جاتا ہے ۔ہر چڑیا کے گانے میں ’’لئے‘‘ اور ترنم کا تغیر پایا جاتا ہے۔ عام طور پر انسانوں کے ساتھ زندگی گزارنے والی یہ چڑیا بڑی پُھرتیلی ہوتی ہے اس چڑیا کا وزن تقریباً 30 گرام ہوتا ہے، اس کی لمبائی 15 سنٹی میٹر ہوتی ہے۔اس کا جسم متناسب ہوتا ہے پنکھ گول نظر آتے ہیں اور سر وسیع (Head) دکھائی دیتا ہے،اس کی چھوٹی لیکن کارآمد چونچ،چمک دار آنکھیں ، بھورے، کالے اور سفید رنگ کے پر اس کے وجود میں شائستگی پیدا کردیتے ہیں۔نر میں سر پر تاج جیسی شکل دیکھی جاسکتی ہے جبکہ مادہ میں ایسی تاج نما شکل نہیں پائی جاتی۔ان کے نر اور مادہ کو پروں کے رنگوں کی ترتیب کی بنیاد پر بہ آسانی شناخت کیا جاسکتا ہے ۔ ان کی مادہ کسی قدر چھوٹی اور ’’نر‘‘ کسی قدر بڑا ہوتا ہے۔’’نر‘‘ پرندہ بھورا، مٹیالا اور سفید رنگ رکھتا ہے، جبکہ حلق کے مقام پر چونچ کے اطراف کالے رنگ کے پر پائے جاتے ہیں۔مادہ کا رنگ بھورا اور ہلکا Creamہوتا ہے۔ عام طور پر یہ 3تا 5برس تک زندہ رہتی ہے۔ دنیا کے تقریباً ہر مقام پر پائی جانے والی یہ سماجی چڑیاپرندوں کی جماعت Aves کے آرڈر Passeriformes سے تعلق رکھتی ہے۔اس کا زوالوجیکل نام Passer domestic us ہے۔ ویسے اس کی 30مختلف انواع ہیں۔جس گھر میں ان کا بسیرا ہوتا ہے وہاں کسی یہ چڑیا کسی دوسری چڑیا کو آسانی سے داخل ہونے نہیں دیتی اس معاملے میں اس میں تیزی پائی جاتی ہے لیکن بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داری دونوں ہی بڑی محبت سے نبھاتے ہیں ۔Maleچڑیا گھونسلہ بنانے کے بعد Female کواپنی جانب متوجہہ کرتی ا ور لایعنی حرکتیں بھی کرتی ہے جو دراصل تولیدی اشارے ہیں تاکہ ’’نر‘‘ کو اپنی جانب راغب کر سکے۔ اس چڑیا کی غذا زیادہ تر بیج وغیرہ ہوتی ہے۔یہ دانہ دنکا چگتے ہیں کبھی کبھی کیڑے مکوڑے بھی کھا جاتے ہیں اسی لئے یہ کسانوں کی دوست ہوتی ہے۔ یہ چڑیا انسانی آبادیوں کے بالکل قریب اپنے گھونسلے بناتی ہے اور زندگی میں کسی بھی موڑ پر اپنے گھونسلے سے دو ایک کلو میٹر سے دور جانا پسند نہیں کرتیں،جس کی اہم وجہہ شاید غذا کی وافر مقدار میں مسلسل فراہمی ہے۔صبح اُٹھ کر یہ اپنے گھونسلے سے نکل جاتی ہے اور جب واپس ہوتی ہے تو اپنا منہ بھر لاتی ہے تاکہ بچوں کو کھلا پلا سکے۔
چوں چوں کرتی آئی چڑیا دانہ دُنکا لائی چڑیا
اردو زبان میں اکثر شعرا ء اکرام نے بچوں کے لئے اس چڑیا پر نظمیں لکھی ہیں۔جیسے
چڑیا رانی چڑیا رانی تم پرندوں کی ہو رانی
صبح سویرے اُٹھ جاتی ہو نہ جانے کیا کیا گاتی ہو
عام طور پر گھریلو چڑیا اپنا گھونسلہ کسی چھت کے نیچے یا کسی برج(Bridge) کے زیریں حصے میں بناتی ہے۔یا گھر کی ’’اولتی‘‘ کے نیچے گھونسلے بنائے جاتے ہیں۔کبھی کبھی یہ درختوں میں موجود قدرتی سوراخوں کو بھی اپنی رہائش میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ مارچ اور اپریل کے مہینوں میں دونوں مل کر گھونسلہ بناتے ہیں لیکن ’’نر‘‘ گھونسلہ بنانے کی ابتدا کرتا اور زیادہ محنت بھی’’نر‘‘ ہی کرتا ہے ،اسی لئے مالکانہ حقوق اسی کے ہوتے ہیں ، مادہ کبھی کبھار صرف اس کا ہاتھ بٹاتی ہے ۔ جمالیاتی اعتبار سے گھونسلہ زیادہ خوبصورت نہیں ہوتا لیکن ان کے استعمال کی حد تک مضبوط ہوتا ہے ۔
تنکے اٹھا اٹھا کے لائیں کہاں کہاں سے
کس خوبصورتی سے پھر آشیاں بنایا
ان کے گھونسلوں میں ایک ندرت پائی جاتی ہے کیونکہ ان کے گھونسلے سرما کے موسم میں دیر تک گرمی کو باقی رکھتے ہیں اور گرما میں دیر تک اندرونی ماحول کو کسی قدر ٹھنڈا رکھتے ہیں ۔ گھونسلہ بنانے کے تقریباً فوری بعد مادہ چڑیا انڈے دینا شروع کرتی ہے ۔یہ چڑیا ایک سال میں دو یا تین مرتبہ انڈے دیتی ہے،ایک مرتبہ میں یہ چڑیا 4 انڈے دیتی ہے کبھی کبھی یہ 6 انڈے تک بھی دیتی ہے ۔ ان انڈوں کا رنگ سفید سے مدہم بھورا تک ہوتا ہے۔کبھی یہ انڈے نیلگوں سفید یا greenish white بھی نظر آتے ہیں تقریباً11تا 12 دن تک انکیوبیشن (Incubation)ہوتا ہے۔ Female چڑیا جلد سے بنی ایک نازک ساخت Brood patch پیدا کرتی ہے انڈوں کی بہتر نگہداشت کے لئے اس ساخت کو خون کی نالیاں بھی پہنچتی ہیں اور Brood patch سے انڈوں کو گرمی منتقل کی جاتی ہے اس طرح یہ ساخت انڈوں کے انکیوبیشن میں مدد دیتی ہے ،جب Femaleگھونسلے میں انڈوں کے ساتھ ہوتی ہے تو Maleگھونسلے سے باہر کسی ایک مقام پر آرام کرتا ہے۔ 11دن کے بعد بچے انڈوں سے باہر آتے ہیں یہ بچے گھونسلے میں تقریباً 15 دن رہتے ہیں اس کے بعدتقریباً سبھی بچے ایک کے بعد دیگرے گھونسلہ چھوڑ دیتے ہیں۔ان بچوں کی پرورش نر اور مادہ ملکرانجام دیتے ہیں۔ شاعر نے کس خوبصورتی سے ماں باپ کی جانب سے بچوں کی نگہداشت کا ذکر کیا ہے کہ
اُونچی اُڑیں ہوا میں بچوں کو پر نہ بھولیں
ان بے پروں کا ان کو روزی رساں بنایا
نہ صرف اس چڑیا کا بلکہ بیشتر چڑیاؤں کا فیڈنگ (Feeding)کا طریقہ متاثر کن ہوتا ہے، جیسے ہی نر یا مادہ گھونسلے میں داخل ہوتے ہیں تو چھوٹے بچے اپنا منہ یعنی اپنی چونچ کھول کر اوپر کی جانب دیکھنے لگتے ہیں اور ماں یا باپ اپنی چونچ میں لائی ہوئی غذا تقریبا ان کی حلق کے اندر داخل کرتے ہیں۔
چڑیا نے مامتا سے پھیلا کے اپنے بازو
اپنے پروں کے اندر بچوں کو ڈھک لیا ہے۔
لیکن چڑا گیا ہے چگّا تلاش کرنے
دانہ کہیں کہیں سے پوٹے میں اپنے بھر کے
جب لائے گا تو بچے منہ کھول دیں گے جھٹ پٹ
ان کو بھرائے گا وہ ماں اور باپ دونوں
Sparrowعام طور پر ایک ہی پارٹنر کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں،اسی لئے گھونسلے کے باہر بھی یہ چڑیا ایک دوسرے کو پہچالیتے ہیں۔ یعنی عام طور پر یہ چڑیا Monogamous ہوتی ہیں لیکن یہ چڑیائیں کبھی کبھی دوسری مادہ چڑیا کے ساتھ بھی سر مستی کرتی دیکھی گئی ہے اسی لئے یہ کئی Broods رکھتی ہے۔
یہ چڑیا 40کلو میٹر کی رفتار سے اُڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔زمین پر بیٹھ کر دانہ چگتی ہوئی چڑیا جب کوئی آہٹ محسوس کرتی ہے تو تیزی سے کسی ایک سمت اُڑ جاتی اس وقت اس اُڑان بڑی دلکش نظر آتی ہے۔اس میں ایک ہموار کیفیت پائی جاتی ہے ۔ایک سکنڈ میں پندرہ مرتبہ وہ اپنے پروں کو حرکت دیتی ہے۔ان میں Dust یا water bathing عام طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔یہ بہترین تیراک ہوتی ہے حالانکہ یہ آبی پرندہ نہیں ہے۔لیکن حسب ضرورت پانی میں تیر کر اپنے دشمنوں کا بچاؤ کرتی ہے۔غذا حاصل کرنے کے لئے ان میں سیکھنے کی صلاحیت مناسب ہوتی ہے۔یہ کالونیوں میں رہتی ہیں جنہیں flocks کہا جاتا ہے۔ان چڑیوں کے بڑے دشمن کتّے اور بلیاں ہیں جو تیزی سے جھپٹ کر انہیں پکڑ لیتے ہیں۔عام طور پر نا تجربہ کار چڑیا ان کے ہاتھ لگتی ہے کیونکہ وہ ابھی زندگی کے گُر سیکھنے کے مرحلے میں ہوتی ہیں۔
کیاگھریلو چڑیا (Sparrow) معدوم ہوجائے گی:
یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری آنے والی نسلیں اس پیاری پیاری چڑیا کو دیکھ سکیں گے۔کیونکہ گذشتہ پندرہ بیس برسوں نے ان چڑیوں پر قیامت ڈھائی ہے۔ ان کے اصلی وطن یعنی یورپ میں بھی ان کی آبادی میں غیر معمولی کمی دیکھی گئی۔ حالانکہ کے یورپ کے گارڈنس میں یہ چڑیا کثرت سے دکھائی دیتی تھی۔آج دنیا کے بیشتر مقامات سے ان کی آبادیاں ختم ہونے کے قریب ہیں ۔ ہر مقام پردن بدن ان کی آبادی گھٹتی جارہی ہے ۔ایک اندازے کے مطابق صرف آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں ان کی تعداد تقریباً 80تا 85فیصد کم ہوئی ہے۔ سائنسدان اور ماہرین ماحولیات اس کی کوئی واضح وجہہ بیان کرنے سے قاصر ہیں۔مختلف قسم کی آراء سامنے آرہی ہیں لیکن دانشوران اس سے سو فیصد متفق نہیں۔اس ضمن میں جو قابل ذکر وجوہات سامنے آئی ہیں اس کو بیان کیا جاتا ہے۔عام علاقوں سے ہٹ کر شہروں بالخصوص بڑے شہروں میں ان کی آبادی بہت گھٹ گئی ہے اکثر سائنسدانوں نے Urbanization،درختوں کی کٹوائی بالخصوص Native plantsکی کٹوائی کو اس کی اہم وجہہ بتایا ہے، ہریالی(Grass) کم ہوگئی حشرات کی آبادیاں کم ہوگئیں اور یہ چڑیا بہت حد تک غذا سے محروم ہوگئی۔ اس کا اثر ان چڑیوں کی بود و باش پر بھی پڑا اور ان کے عادات اطوار میں واضح فرق واقع ہوا ، رہن سہن کے پیمانے بدل گئے اور رہنے کے علاقے میں تبدیلی نے ان چڑیوں پر مضر اثرات مرتب کئے۔ علاوہ اس کے طریقہ ہائے زندگی کے بدلتے تقاضوں کے پیش نظر کرانہ (Grocery) کی دوکانوں میں جدید طرز پر اجناس اور دوسری اشیاء کی پیکنگ بھی ایک بڑی وجہہ بنی کیونکہ اس میں سامان غذا اجناس ضائع نہیں ہوتے، اگر یہ زمین پر پڑے رہتے تو ان چڑیوں غذا فراہم ہوتی۔
ان چڑیوں کی آبادیوں میں کمی کی نشاندہی دنیا میں صنعتی انقلاب کے بعد سے دیکھی جارہی ہے۔بعض سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق چین میں Maoکے زمانے میں Four Step Campaign پروگرام لانچ ہوا، اس کے بعد سے ماحولیاتی نظام(Eco system) میں تبدیلی واقع ہوئی جس کے باعث کئی ملین چڑیاں منصہ شہود سے نابود ہوگئیں۔جس کی وجہہ سے قحط پیدا ہوا اور اس وقت دنیا نے جانا کہ چڑیاں ماحولیاتی نظام کی بہتر برقراری میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔
مختلف سائنسدانوں اور سماجی نمائیندوں نے ان چڑیوں کو بچانے کے لئے کئی ایک تجاویز پیش کی ہیں جیسے دلاور پراجیکٹ وغیرہ

Dilawar Project:
اس میں مکانوں پراونچی عمارتوں اور درختوں پر لکڑی کے بنے ہوئے باکس (Boxes) کو لگوانا شامل ہے۔اس علاوہ اس پروجیکٹ میں Insecticides کے بے جا استعمال کو کم کرنے پر بھی توجہہ دی جاتی ہے۔محمد دلاور نیچر فارایور سوسائٹی کے صدر ہیں جنہوں نے ہندوستان میں اس چڑیا کو بچانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ 20 مارچ کو World Sparrow Day منانے کا طے کیا گیا،اس کے علاوہ بھی ایک اور پروجیکٹ Citizen Sparrow Project بھی شروع کیا گیا۔
انسانوں کے Life Style میں تبدیلی بھی ان چڑیوں کی آبادی میں کمی کی ایک بڑی وجہہ بنی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایک وجوہات ہیں جیسے گھونسلے بنانے کے لئے خام مال کی عدم دستیابی، زراعت کے نئے طریقے اور ان میں لئے استعمال ہونے والی جدید کیمیائی اشیاء، آبی، صوتی اورفضائی آلودگی، آٹو موبائیلس کی وجہہ سے پھیلنے والی آلودگی ، مچھر بتیوں یا مچھر بھگانے والی ادویات (Mosquito repellents)کا کثرت سے استعمال، unleaded پٹرول کا استعمال، قدیم طرز کی عمارتوں کا جدید عمارات میں تبدیل ہونا، نئی تعمیرات میں سوراخوں (Cavities) کا غیر موجود رہنا ، رہائشی علاقوں میں پودوں کی آبادیوں کا قریب قریب موجود نہ ہونا،مختلف تعمیرات کے لئے سمنٹ کا بے جا استعمال ،سیل فون کا بڑھتا چلن،موبائیل فون ٹاورس کی کثیر تعدد میں تنصیب، الکٹرو میگنیٹک لہروں کے ریڈیشن کا بڑھتا دائرہ، کیونکہ اس سے خارج ہونے والے کمزور ریڈیشن بھی ان چڑیوں کے لئے طاقتور بن جاتا ہے جس کو وہ سہار نہیں سکتے ۔یہ ریڈِیشن نہ صرف چڑیوں بلکہ انسانوں کے لئے بھی خطرناک ہے لیکن فی الحال اس عفریت کے نتائج انسانی زندگیوں پر مکمل طور پر سامنے نہیں آئے جس کی وجہہ سے ہمارے دل میں اس ڈر مکمکل طور پر پیدا نہیں ہوا۔، جس دن اس کے بھرپور نتائج سامنے آئیں گے وہ انسانی تاریخ کا سیاہ دن ہوگا ،میرا احساس ہے کہ وہ وقت نہ صرف انسانی زندگیوں بلکہ اس سے متعلق مختلف شعبہ جات کی تباہی نقطہ آغاز ہوگا ۔
—–

ڈاکٹرعزیز احمد عرسی
Share
Share
Share