مرزا اسد اللہ خاں غالب – 221 ویں یوم پیدائش پر :- ڈاکٹر مسعود جعفری

Share
ڈاکٹر مسعود جعفری

مرزا اسد اللہ خاں غالب
27 ڈسمبر۔ 221 ویں یوم پیدائش پر خراج تحسین

ڈاکٹر مسعود جعفری

شاعر مشرق اقبال سے پہلے اور ان کے بعد اگر کسی شاعر کو دائمی شہرت نصیب ہو ئی ہے تو وہ نجم الدولہ دبیر الملک مراز اسد اللہ خاں غالب ہیں۔غالب کی شخصیت و شاعری دونوں ہی دلچسپ،جاذب نظر اور پر کشش ہیں۔

شخص و انسان کی حثیت سے غالب اعلی تہذیبی اقدار کے مالک تھے۔ان کی خوش خلقی،حس ظرافت،درد مندی، صلہ رحمی،وسعت قلب و نظر بے مثال تھی۔غالب عجوبہ روز گار تھے۔ایسا نفیس و شائستہ مذاق کا آدمی مشکل سے کہیں کہیں ملتا ہے۔غالب پر سارا زمانہ ناز کرتا ہے۔
غالب کا دور نسل تیموریہ کے زوال کا زمانہ تھا۔ بادشاہ وقت بہادر شاہ ظفر قلعہ معلی میں مغلیہ تاجداری کی آخری نشانی تھے۔غالب شاہ زماں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنے ایک شعر میں اپنے دلی جذبات و احساسات کا کچھ یوں اظہار فرماتے ہیں۔
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
خموش ،اداس، دکھی فسردوہ و رنجور ان معنی میں کہ اب لال قلعہ میں شاہجہانی شان و شوکت،جاہ و جلال،کروفر،خود مختاری باقی نہیں رہی تھی۔انگریزوں نے بادشاہت کی ساری تب و تاب ماند کر دی تھی۔اب وہ برائے نام حاکم دوراں تھے۔اقتدار کی باگ ڈور برطانوئی آقاوں کے ہاتھ میں تھی۔غالب کو زمینی حقیقتوں کا ادراک تھا۔اسی لئے اس نے بے کم و کاست سچائی کی آئینہ داری کی ہے۔
غالب تمام عمر مالی تنگ دستی میں مبتلا رہے۔آسودگی و عشرت ان کے گھر کے باہر ہی کھڑی رہی۔اندر نہیں آئی۔ان کی زندگی کی سب سے بڑی ٹریجیڈی رہی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا نجی غم ان
کی شاعری میں جھلکنے لگا۔ ان اشعار میں ان کی زبوں حالی دکھائی دیتی ہے۔
ہے خبر گرم ا ن کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
یوں ہی گر روتا رہا غالب تو ائے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تما شائے اہل کرم دیکھتے ہیں
ائے ساکنان کوچہ دلدار دیکھنا
تم کو کہیں جوغالب آشفتہ سر ملے
جوئے خوں آنکھو ں سے بہنے دو کہ ہے شام فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ دو شمعیں فروزاں ہو گئیں
کوئی کوئی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
یہ اور اس طرح کے بہت سے شعروں میں غالب کا روحانی کرب سمویا ہوا ہے۔زندگی نے انہیں نشاط و کیف کم غم زیادہ دیئے۔ان کا دامن مصائب و آلام سے بھرا رہا۔اس کے باوجود انہو ں نے رہبانیت کا راستہ نہیں چنا۔وہ اسی عالم رنگ و بو میں رہے۔ساری کلفتیں،مشکلیں برداشت کرتے رہے اور کہتے رہے۔
رنج کا خو گر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
غالب میں نا مساعد حالات میں بھی دشواریوں پر قابو پانے کی ہمت اور طاقت تھی۔اس کا ثبوت ہیں 1857 کے غدر کے قتل عام کے زمانے مین ملتا ہے۔دوسرا کوئی آدمی ہو تا تو غم سے اس کا کلیجہ پھٹ پڑتا۔لیکن غالب نے سب کچھ صبر و تحمل سے جھیل لیا۔ساری دلی تباہ و برباد ہو گئی۔سارا شہر ایک ملبے میں تبدیل ہو گیا۔شہر کی ناکہ بندی ہو گئی۔غالب اپنے گھر میں اسیر ہو گیا۔اسی آشوب کے دوران غالب کے بھائی یوسف علی خان کی وفات ہو گئی۔میت قبرستان کہاں لے جاتے۔فوج کی طلایہ گردی تھی۔دہلی ایک فوجی چھاونی بن گئی تھی۔وہیں گھر میں قبر بنائی گئی۔چادر کو کفن بنایا گیا اور تدفین کی گئی۔
غالب نے غدر کے زمانے میں گھر کا سازو سامان بیچ کے اپنا گزاراہ کرتے رہے۔
بادشاہ نے انہیں تاریخ تیموریہ لکھنے پر مامور کیا تھا۔وہ کام دھرا کا دھرا رہ گیا۔جان بچی لاکھوں پائے کا مقام تھا۔غالب کے بجائے کوئی اور شخص ہوتا تو شاید وہ خود کشی کر بیٹھتا۔فطرت نے غالب کو سخت جان بنایا تھا۔وہ دردکی منزل سے بہ آسانی گزر گئے۔ غالب گزرے ہوئے سنہری دنوں کی تلاش کرتے رہے۔انہیں یاد کرتے رہے۔انہیں اپنے دل میں بساتے رہے۔ان کے شعروں میں وہ Nostalgia ملتا ہے۔یہ خیالات دیکیئے اور کیف و نشا ط کی وجدانی کیفیعت محسووس کیجیئے۔
مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس
زلف سیاہ رخ پہ پریشاں کئے ہوئے
غالب وہ عیش و طرب میں ڈوبی وصال کی راتیں فراموش نہیں کر سکے اس کا خمار اس کی یاد یں اس شعر میں رقص کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں
جی ڈھوندتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جا ناں کئے ہوئے
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہو گئیں
اک نو بہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ
چہرہ فرو غ مئے سے گلستاں کئے ہوئے
غالب کے ہاں رومانیت کے علاوہ فکر و فلسفہ بھی ملتا ہے۔وہ حیات و کا ئنات کے رموز و اسرار کھولتے چلے جاتے ہیں۔قاری پر قدرت کے چھپے حقائق منکشف کرتے چلے جاتے ہیں۔غالب فطرت کے نباض تھے۔وہ اسرار کی گہری پرتیں آشکار کرتے جاتے ہیں۔قاری حیرت و استعجاب سے ان کا انکشاف دیکھتا رہ جا تا ہے۔غالب کی توحید پرستی مثالی تھی۔وہ پکے موحد تھے۔یہ شعر دیکھیئے جس میں ایک ازلی و ابدی حقیقت آشکارا کی گئی ہے۔
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہو تا تو خدا ہو تا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہو تا میں تو کیا ہو تا
اس نکتہ آرفریں شعر میں وحدت الوجود کا تصور پیش کیا گیا ہے۔اس عقیدہ کا دائرہ پھیلتا چلا جاتا ہے۔ غالب اسے اس پیرایہ میں پیش فرماتے ہیں۔ ملا حظہ کیجیئے۔
سبزہ وگل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
شکن زلف عنبریں کیوں ہے
نگہ چشم سر مسہ کیا ہے
آخر میں غالب خالق ارض و سما سے سوال کر ہی بیٹھتے ہیں۔ آپ بھی سنیئے وہ کیا کہہ رہے ہیں۔
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ ائے خدا کیا ہے
مرزا غالب کی شاعری گل و بلبل کی ترجمان نہیں یہ حقیقتوں کی نگار خانہ ہے۔ اس میں رب،آفاق،آخرت و عقبی،زندگی کے نشیب و فراز پائے جاتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ دوسو برس کے بیت جانے کے باوجود بھی غالب کی شاعری میں ترو تازگی اور تابندگی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ غالب ہمارے اپنے عصر کا شاعر ہے۔روز بہ روز غالب کی معنویت میں اغافہ ہو تا چلا جاتا ہے۔اس کی شاعری کی نئی جہتیں رو برو ہو تی جا تی ہیں۔ہم اس کی فکر و جودت پر سر دھنتے رہتے ہیں۔علامہ اقبا ل نے غالب کی تعریف و توصیف میں کہا ہے۔دیکھیئے۔
محفل ہستی تری بربط سے ہے سرمایہ دار
جس طرح ندی کے نغموں میں سکوت کوہسار
تیر ے فرردوس تخیل سے ہے قدرت کی بہار
تیری کشت فکر سے اگتے ہیں عالم سبزہ زار
زندگی مضمر ہے تیری شو خی تحریر میں
تاب گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں
جب اقبال نے بھی غالب کی شعری عظمتوں کا کھلے دل سے ا عتراف کیا ہے۔اس سے بڑ ھ کر غالب کی کی ولادت پرخراج عقیدت اور کیا ہو سکتا ہے۔

Share
Share
Share