محمد بن زکریا رازی اورعلم طب میں ان کی خدمات

Share

امانت علی قاسمی

طبی انسائکلو پیڈیا ”الحاوی“ کا مصنف ابو بکر محمد بن زکریا رازی (۲۵۰ھ/۸۶۴ء ۳۱۳ھ/۹۲۵ء) علم طب کے امام تسلیم کئے جاتے ہیں، ”رَے“میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے وطن ہی میں حاصل کی، تذکرہ نویسوں نے ان کے متعلق لکھا ہے:
”رازی غریب خاندان کا فرزند تھا، ابتداء میں اس نے معمولی تعلیم حاصل کی اور چودہ پندرہ سال کی عمر تک اپنے وطن”رَے“ میں کمال بے فکری سے زندگی گذار رہا تھا، عود بجانا، دوستوں کے ساتھ گھومنا،اس کا دن بھر کا مشغلہ تھا“(سو عظیم مسلم سائنسداں ص:۱۴۷)

رازی ابتداء میں کیمیا گری میں مشغول تھا، جس کے لئے اس نے اپنے گھر میں بھٹیاں لگا رکھی تھیں، اس کا گھر دھوئیں سے بھرا رہتا تھا، جس سے آنکھوں میں تکلیف پیدا ہوگئی، وہ مجبوراً ایک حکیم کے پاس گیا اس نے پانچ سو اشرفیاں لے کر علاج کیا اور کہا کیمیا وہ نہیں ہے جس میں تم مصروف ہوبلکہ اصل کیمیا یہ ہے۔(تاریخ الحکما ص:۶) حکیم کے ان الفاظ نے ان کی زندگی بدل دی؛ چنانچہ اس نے بیوی بچوں اور دوست واحباب کو خیر آباد کہہ کر بغداد کا رخ کیا اور یہاں انہوں نے علی بن سہل کی صحبت میں طب میں مہارت پیدا کی اور محنت وجافشانی سے اس درجہ کو پہنچا کہ ان کو اس فن کا امام تسلیم کیا جانے لگا، ابن خلکان کہتے ہیں:

”وہ علم طب میں اپنے وقت کا امام تھا اور اس زمانہ میں اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا جاتا تھا، وہ فن طب میں کامل اور اس کے اصول وقواعد کا ماہر تھا، علم طب حاصل کرنے کے لئے لوگ اس کے پاس سفر کر کے آتے تھے“ (حکماء اسلام ۲۰۱/۱)
طب میں ان کے اسی کمال اور بے مثال خدمات کی وجہ سے دانشوروں کو کہنا پڑا:
”فن طب مردہ ہوگیاتھا، جالینوس نے زندہ کیا، وہ منشتر اور پراگندہ تھا، رازی نے اسے مرتب کر کے اسے ایک شیرازے میں منسلک کردیا، وہ ناقص تھا، ابن سینا نے اس کی تکمیل کی“(ابن خلکان۷۸/۲)
علمی خدمات اور کارنامے
رازی ایک ماہر طبیب تھا، انہوں نے طب کی بے پناہ خدمت کی، ”رَے“ کے سرکاری ہسپتال میں سپرٹینڈنٹ کی جگہ خالی ہوئی تو رازی کا ہی تقرر کیا گیا، اس عہدے پر رہتے ہوئے ان کو اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور اپنی قابلیت نکھارنے کا سنہرا موقع ہاتھ لگا، خلیفہ مکتفی کے زمانے میں ان کا تبادلہ بغداد ہوگیا؛لیکن ۳۰۹ء میں حاکم رے منصور بن اسحاق کی فرمائش پر رازی کو دوبارہ رے کے سرکاری ہسپتال کا افسر اعلیٰ بنادیا گیا، رازی پہلا طبیب ہے جس نے ابتدائی امداد (First Aid) کا طریقہ ایجاد کیا اور اس کے رہنماء اصول وضع کئے، رازی نے دواؤوں کے صحیح وزن کے کے لئے ”میزان طبعی“ ایجاد کیا، یعنی ایک ایسا ترازو جس میں چھوٹی سی چھوٹی چیز کا صحیح صحیح وزن معلوم کیا جاسکتا ہے، الکحل کا موجد بھی رازی کو قرار دیا جاتا ہے، انہوں نے موروثی متعدی امراض کا نظریہ پیش کیا، عمل جراحی میں ایک کار آمد آلہ بنایا جس کو نشتر کہتے ہیں، رازی کی شخصیت جامع تھی، وہ ایک باکمال فلسفی اور ماہر ہیئت داں تھا، علم طبعیات میں اس کو کمال حاصل تھا۔(سوعظیم مسلم سائنسداں ص: ۱۳۸)
رازی کی تصنیفات
رازی نے مختلف موضوعات پر دو سو کتابیں تحریر کیں، جن میں آدھی کتابیں طب پر ہیں، ان میں سب سے مشہور کتاب ”الحاوی“ہے، جو پچیس جلدوں پر مشتمل ہے اور عربی زبان میں سب سے بڑا طبی دائرۃ المعارف (انسائیکلوپیڈیا)ہے، اس کتاب میں طب کے ہر مسئلے پر تمام یونانی اور عرب اطباء کی آراء نقل کی گئی ہے، اس کتاب میں یونان وہند اور ایران کے علوم کو ایک ہی نظام میں مربوط کردیا گیا ہے، اس کتاب کا لاطینی ترجمہ ایک یہودی طبیب نے ۱۲۷۹ء میں صقلیہ(سسل) میں کیا تھا، صدیوں تک یہ کتاب مغرب کی یونیورسٹیوں میں شامل نصاب رہی، اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا پہلا ترجمہ ۱۳۸۶ء میں منظر عام پر آیا تو ۱۵۲۴ء میں اس کا پندرہواں ایڈیشن شائع ہوا، رازی کی دوسری نامور تصنیف ”کتاب المنصوری“ہے، جو انہوں نے حاکم رے منصور بن اسحاق کے نام معنون کی ہے، یہ کتاب دس جلدوں پر مشتمل ہے، اس کا ترجمہ بمقام”میلان“ پندرہویں صدی کے اواخر میں ہوا، اس کے چند حصے حال ہی میں فرانسیسی اور جرمن زبانوں میں بھی منتقل کئے گئے ہیں، رازی کی تیسری تصنیف”کتاب الجدری والحصبہ“ ہے، یہ پہلا رسالہ ہے جس میں چیچک اور خسرے کی معالجاتی تفصیل بڑی صحت کے ساتھ پیش کی گئی ہے، رازی سے پہلے کسی سائنسداں نے اس موضوع پر تحقیق نہیں کی تھی، رازی پہلا طبیب ہے، جس نے چیچک کی تشخیص کی اور اس کے اسباب وعلاج تجویز کئے، اس کا ترجمہ پہلی مرتبہ لاطینی زبان میں ۱۵۶۵ء میں ہوا، اس کے بعد متعدد یورپی زبانوں میں اس کے ترجمے کئے گئے، اس رسالہ نے رازی کو دور وسطیٰ کے عظیم معالج کی حیثیت سے لا زوال شہرت کا مالک بنادیا، اس کا انگریزی ترجمہ ۱۸۷۳ء میں شائع ہوا، فرنچ، یونان اور جرمنی زبان میں بھی اس کا ترجمہ ہوچکا ہے، یہ کتاب بھی کئی صدی تک مشرق ومغرب کی درسگاہوں میں داخل نصاب رہی ہے، رازی کی مشہور کتابوں میں ایک کتاب ”الفصول فی الطب“ ہے،اس کا ترجمہ عبرانی زبان میں ہوا ہے، جو آج بھی لیڈن میں موجود ہے، لاطینی زبان میں بھی اس کا ترجمہ ہوچکا ہے، ان کی ایک کتاب ”کتاب الطب الملوکی“ ہے، جو والی طبرستان علی بن ویمسوذان کے نام معنون ہے، یہ کتاب مخطوطہ شکل میں لیڈن کی لائبری میں موجود ہے۔((اسلامی انسائیکلوپیڈیاص: ۹۱۸،علوم وفنون عہد عباسی میں:۱۲۶) اس کی ایک اہم تالیف ”کتاب الاسرار“ ہے، اہل مغرب نے بچوں کی ولادت، امراض چشم، آشوب چشم اور امراض نسواں کے سلسلے میں اس کتاب کی فضیلت کا اعتراف کیا ہے۔(عربوں کے علمی کارنامے ص: ۷۰)
رازی کے اندر بے پناہ تصنیفی صلاحیتیں تھیں، وہ ہر وقت لکھتا رہتا تھا، طب کے علاوہ فلسفہ، حکمت، نجوم وہیئت، طبعیات اور عقائد کے متعلق اس کی تصنیفات قابل ذکر ہیں، صدیوں تک مغرب پر راز ی کی تصنیفات کا گہرا اثر رہا ہے، اس لئے آج بھی مغرب رازی کے احسان مند ہیں، ۱۹۱۹ء میں لندن میں بین الاقوامی کانگریس نے ایک کانفرنس منعقد کی جس میں رازی کے حیات وکارنامے پر روشنی ڈالی گئی اور اس کا ذکر شاندار مدحیہ الفاظ میں کیا گیا، ۱۹۳۰ء میں رازی کی ہزار سالہ برسی پیرس میں بڑے اہتمام سے منائی گئی اور رازی کو طب کا امام تسلیم کیاگیا۔
اخیر عمر میں رازی نے بصرہ کی مرطوب آب وہوا سے متأثر ہو کر کھانے میں کثرت سے لوبیا کھائی، جس سے آنکھ کی بینائی جاتی رہی، ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ کثرتِ کتابت کی وجہ سے اخیر عمر میں نزول ماء کی شکایت ہوگئی تھی، پھر وہ کچھ لکھ نہ سکا اور ایک طویل عمر پاکر ۹۲۵ء میں ”رَے“ میں وفات پاگیا۔

مفتی امانت علی قاسمی
Share
Share
Share