نیند نہ دیکھے ٹوٹی کھاٹ ۔ ۔ ۔ علامہ اعجازفرخ

Share

Picture 5نیند نہ دیکھے ٹوٹی کھاٹ 
وہ بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے

علامہ اعجازفرخ – حیدرآباد ۔ دکن
موبائل : 09848080612 –
ای میل :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نوٹ : سماجی مسائل اور معاشرتی الجھنوں کو بیاں کرتی علامہ کی ایک خوب صورت تحریر جوآپ کوغوروفکرکرنے پرمجبور کردے گی ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
روپیہ انسانی زندگی کی اہم ضرورت سہی، لیکن تمام مسائل کا حل نہیں۔فیاض قدرت نے انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی اسے جن نعمتوں سے سرفراز کیا ہے‘ وہ نعمتیں از خود اس کی ضروریات زندگی کے لئے کافی ہیں،لیکن طمع جب ہوس کے پر کھول دیتی ہے تو اس پر نعمتوں کے الطاف کم ہوجاتے ہیں۔یہی ہوس ملک گیری بھی ہے، خواہش اقتدار بھی اور اسی کے تئیں ایک انسان دوسرے انسان کے گلے میں غلامی کا طوق ڈال کر جبریہ اسیر کرلیتا ہے۔یہ نفس ہی تو ہے جو انسان سے انسان کی عظمت کو چھین کر اسے غلامی کے آزار میں مبتلاء دیکھ کر مسرت محسوس کرتا ہے اور پھر یہی ہوس گیری بڑھتے بڑھتے شاہوں کی خبط حکمرانی کو فرعونیت میں بدل کر رکھ دیتی ہے۔ذرا سے تفکر کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جابر حکمرانوں کے کوئی نام نہیں ہوتے، صرف زمرہ ہوتا ہے۔اسی طرح سے فرعون، ہامان،شداد،قارون،یہ صرف نام ہی نہیں بلکہ علامتیں بھی ہیں۔فرعون نے اپنی بقائے حکمرانی کی خاطر بچوں کی ایک نسل تہہ تیغ کروادی کہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ اس کیبقاء صرف اسی طرح ممکن ہے اور آج تک فرعون بدنام زمانہ ہے۔لیکن اس قاتل کو کیا کیا جائے جوکئی نسلوں کی ذہانت کے قتل عام کے مجرم ہیں اور اس پر بھی ستم یہ ہے کہ وہ قتل عام کرکے بھی سبک نام رہا۔ذہانتیں قتل ہوتی رہیں،اس کی عیار مسکراہٹ گہری ہوتی رہی۔ٹمٹماتے چراغ ہمیشہ اندھیروں ہی کے دشمن نہیں ہوتے،کبھی کبھی چکاچوند روشنی کے بھی دشمن ہوتے ہیں،تاکہ اس کے آگے ان چراغوں کی روشنی بھیک مانگتی نظر آتی ہے۔تب یہ چراغ اندھیروں سے اپنی دوستی کرلیتے ہیں،تاکہ ان کی ٹمٹماتی لَوکام بھرم باقی رہ جائے۔

جہل کے اندھیرے،غربت کے اندھیرے،افلاس کے اندھیرے،گناہوں کے اندھیرے،سب ان کے اطراف رقص کرتے ہیں۔ہوا کی بھی نامہربانیاں دیکھئے،اپنے جھونکوں سے زندگی کے چراغ تو گل کردیتی ہے،لیکن ان چراغوں کا کچھ نہیں بگاڑپاتی۔شاید ہوا وہوس اسی کو کہتے ہیں۔یہ صحیح ہے کہ رت بدلتی ہے تو ہوا کا رنگ بھی بدل جاتا ہے، لیکن رت بدلنا تو زمین کی عادت بھی ہے اور بدلتی رت تو خود انسان کی بھی تو خواہش رہی ہے‘ ورنہ جب آسمانوں سے من وسلویٰ بھیجا گیا تو کب انسان کوقرار تھا۔میری آنکھوں نے اتنے رت اور اتنے موسم دیکھ لئے کہ اب بدن پر خزاں کاموسم آگیا،لیکن شاید کسی وقت ایسا ہاؤ ہاؤ نہ رہا کہ آگے آگے ضرورتیں ہیں اورپیچھے پیچھے انسان ہانپتا ہوا دوڑے جارہا ہے، کبھی خواب کے پیچھے اور کبھی سراب کے پیچھے۔
امیری اورغریبی کا چولی دامن کا ساتھ ہے،لیکن حیدرآباد میں امارت اورغربت کا بھید بھاؤ نہ تھا۔اخلاق،تہذیب،مروت،رشتہ داریاں،عزیزواقربا سے قربتوں میں امارت وغربت فاصلے نہیں پیدا کرتے تھے،بلکہ معیار کا پیمانہ شرافت،نجابت اور رکھ رکھاؤ ہوا کرتاتھا۔شادی بیاہ میں جوڑ بے جوڑ ضرور دیکھا جاتا،لیکن اس میں صرف دولت کبھی پیش نظر نہیں رہی۔البتہ ہم رتبہ خاندانوں میں رشتے مناسب سمجھے جاتے۔لڑکی کے لئے معیار سگھڑپن،سلیقہ،صورت وشکل ،قد کانٹھ،شرم وحیاء ،نرم روی،دین داری پیش نظر ہوتی تو لڑکے میں تہذیب،اخلاق،وضعداری،ذریعہ معاش اور اس پر اگر خوبرو ہو تو سونے پر سہاگہ سمجھا جاتا۔گویا پیش نظریہ بات ضرور ہوتی کہ لڑکی کی ازدواجی زندگی پر مسرت گزرے۔خاندان تو مشترکہ ہوتے ہی تھے،شادی کے بعد خاندان سے ٹوٹ کر الگ گھر کرلینا معیوب ہی نہیں بدشگونی کی علامت سمجھا جاتاتھا۔اسی طرح گھر دامادی بھی حیدرآباد میں ہمیشہ بے توقیر رہی۔
شادیوں میں جہیز کا مطالبہ معیوب نہیں بلکہ ذلت تصور ہوتا تھا۔اس کے باوجود از خود لڑکی کو جہیز دینے کا رواج ضرور ہا۔امراء اور جاگیر داروں میں صرف ان کی حیثیت کے مطابق ہی نہیں بلکہ مقابل کی ثروت بھی پیش نظر ہوتی کہ کہیں لڑکی خود کو سبک نہ محسوس کرے۔لیکن متوسط طبقہ اور غریبوں میں بھی جہیز مروج تھا۔دراصل جہیز کی غرض وغایت یہ رہی کہ ماہ عسل کے بعد چند دن زندگی کے یادگارر ہیں کہ امور خانہ داری سے فرصت وفراغت رہے۔اتنے میں مزاجوں کی ہم آہنگی،اونچ نیچ،سردوگرم سب سے سمجھوتہ ہوہی جاتا۔ادھر لڑکی کبھی میکے آتی بھی تو لگتا جیسے اس کی ہم شکل کوئی آئی ہو۔دل تو سسرال ہی میں چھوڑ آتی۔سکھی سہیلیوں کے ساتھ گڈے گڑیا کا کھیل،ساون میں آم کے پیڑ پر جھولے کی پینگیں،بابل کا آنگن،سب کچھ یادوں کے دریچے کھول دیتا،لیکن دل کے دریچے کو کھولنے والے کے آگے کیسا آنگن اور کیاملہار۔
میری چھوٹی بہن شادی کے بعد کچھ دنوں کے لئے میکے آئی تو سہیلیوں،ہمجولیوں نے اسے گھیرلیا،بڑی بوڑھیاں تو چہرے کے رنگ ہی سے بھانپ جاتی ہیں کہ کیا گزررہی ہے‘ کیسے گزر رہی ہے‘ لیکن ٹوہ لینے میں وہ بھی پیچھے نہ رہتیں۔مگر یہ کہ گھر کے ہر فرد کو اپنی اس مہمان کی ہر خوشی،عزیز ہوتی۔جون کا مہینہ تھا،بدلی سی چھائی دیکھ کر میں نے آم کے پیڑ پر جھولا ڈال دیا۔ہمارے گھر ایک بوڑھی ملازمہ تھی،سنتے ہیں ہماری دادی کے ساتھ ان کی شادی میں آئی تھی،آگئی تو یہیں کی ہورہی۔ایک لڑکا تھا، جو دوسری جنگ عظیم میں مارا گیا۔پھر تو یہی گھر اس کا ٹھکانہ تھا۔سارے گھر پر اس کا راج تھا۔بس میری دادی کے آگے دم سادھے رہتی،ورنہ کسی کو خاطر میں نہ لاتی۔جس دن میں نے پیڑ پر جھولا ڈالا، اس نے میری ماں سے کہا’’اے دلہن! خیرہو،برسات کی پہلی پھوار آنے کو ہے،کیا دالان میں کڑھائی نہ چڑھاؤ گی!لو میں انگیٹھی جلائے دیتی ہوں۔کوکھ مانگ سے ٹھنڈی رہو‘چوڑیاں سلامت رہیں۔موا پسینہ بھرا گرمی کا موسم گیا۔لڑکیاں بالیاں جھولیں گی۔اب کیا کڑھائی نہ ہوگی!‘‘ ۔ادھر جھولے نے پینگیں لیں اور ادھر برسات کی پہلی بوند ٹپکی،ساتھ ہی دوچار بوندیں اور برس پڑیں تو زمین سے ایسی سوندھی خوشبو اٹھی کہ اس کے آگے نظام عطار کا عطر ہیچ ہو۔ذرا سی دیر میں بدلی گھٹا بن کر چھائی اور جھوم کر برسی تو پیاسی زمین یوںیکجان ہوئی جیسے ساجن سے برہن۔ایسے میں میری پھوپھی نے جواب بھی ان دنوں میکے آنا نہیں بھولیں، انہوں نے بڑھیا سے کہا’’اے اچھی بی! پہلی برسات ہے، ذرا ساملہار تو گادو‘‘ تو بڑی بی نے تنک کر کہا’’لو یہ اچھی کہی،نہ منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت،اب کیا ملہار گاؤں گی!‘‘۔پھر تو سب نے یلغار کردی۔پھوپھی نے ان ہی کے لہجے میں کہا’’خیر ہو،پہلی برسات ہو اورملہار نہ ہو‘ اس میکے سے تو سسرال بھلی،میں تو بھائی جان سے کہوں گی مجھے اپنے گھر چھوڑ آئیں۔‘‘ کچھ یہ دھمکی اور پھر اوپر سے میری دادی نے حکم لگایا’’اچھی بی !یہ کیا! لڑکیاں چند دن کے لئے آئی ہیں،دو بول ملہار کے لئے کہہ رہی ہیں اور تم پہاڑ چڑھی بیٹھی ہو‘‘ اس کے بعد بس ذرا دیر کے لئے چپ رہیں اور پھر تان کھینچ کر جو ملہار میں گیت چھیڑا تو سب کی آنکھوں سے جھڑی لگ گئی۔دادی بھی گاؤ تکیہ سے لگی بار بار رومال سے آنکھیں خشک کررہی تھیں،مگر رستے چشمے بھی کہیں رومال سے خشک ہوتے ہیں۔اچھی بی نے جو دیکھا تو جھٹ دادی کے قدموں میں یوں ڈھیر ہوگئیں کہ کسی کو اتنی ہمت بھی نہ ہوئی کہ انھیں سنبھالے۔جانے کس زخم کا کونسا ٹانکا ٹوٹ گیا تھا اور میں خاموش کھڑا سوچ رہا تھا کہ یہ کیسا ساون ہے، جوچھت کے نیچے اور کمروں کے اندر برستا ہے۔
اب تو سب کچھ بدل گیا،نہ آنگن ہے نہ پیڑ، نہ جھولا نہ پینگیں، نہ کڑھائی نہ ملہار،اب تو لڑکیوں کا میکے آنے کا موسم بھی نہیں،وہ تو بچوں کے اسکول کھلنے کا موسم ہوتا ہے۔اب بارشیں بھی موسم کے اعتبارسے نہیں ہوتیں، آسمان سے بن برسے بادل بھی گزر جاتے ہیں۔کھیت کھلیان دُعاء کرتے ہیں کہ سمندر میں ہوا کا دباؤ کم ہو تو زمین میں کونپل پھوٹے۔اب بھلا کس گھر میں آنگن ہے اور کون ملہار سنتا ہے۔اب تو ٹیلی ویژن I Podسیلولر کا زمانہ ہے۔اب پریم چند کا گلی ڈنڈا نہیں رہا، اب تو بچوں کے ہاتھوں میں کمپیوٹر کےPlay Stationہیں۔
اسکول میں تعلیم مہنگی ،دواخانہ میں ڈاکٹر مہنگے،کالج تو تجارت گاہ ہوگئے،ایسے میں آدمی بچوں کی اچھے اسکول میں تعلیم کا خواب تو دیکھتا ہے، لیکن تعبیر شاید ہی کسی کو میسر آئے۔اسکول کے مطالبے تو جو ہیں سو ہیں،ماحول بھی اس قدر بدل گیا ہے کہ آدمی صرف بچوں کو کتابیں فراہم کرسکتا ہے۔یہی بس تعلیم کا بہانہ ہے تربیت کے لئے نہ ماں باپ کو فرصت ہے نہ بچوں میں قبولیت۔بھلا جس گھر میں ماں باپ‘ بیٹا بیٹی سب مل کر ٹیلی ویژن سیریل دیکھ رہے ہوں‘وہاں کیا دیکھنا ہے اور کیا نہیں دیکھنا ہے کی تمیز ہی کب باقی رہ جاتی ہے۔باپ تو یہ سوچ کر لڑکی کو تعلیم دلواتا ہے کہ گھر بیٹھ کر کیا کرے گی۔رشتہ آنے تک پڑھ لکھ لے۔امتحانات کے نتائج پر تو آپ کی نظر ہے،لڑکیوں کا تناسب اور نشانات لڑکوں سے بہتر ہیں۔وہ اپنی پوری یکسوئی کے ساتھ پڑھ لکھ کر آگے نکل جاتی ہیں،لیکن مناسب رشتہ نہیں ملتا۔رشتہ آئے بھی تو جہیز کا مطالبہ اتنا زیادہ کہ باپ دل مسوس کررہ جاتا ہے۔یہ نفسیاتی گرہ بھی ساتھ ساتھ ہے کہ لڑکی اعلی تعلیم یافتہ اور صاحبزادے صرف انٹرمیڈیٹ اور جو اگر ڈگری حاصل کرلی تو پھر بیرون ملک بھجوانے کا بندوبست ہو اور اگر خیر سے ملازم بھی ہوئے تو فلیٹ ،موٹر،نقد رقم،سونا چاندی اور اس میں بھی جواہرات جڑے۔معیاری شادی کے نام پر ہزار پندرہ سو مہمانوں کا تناول طعام یہ سب کچھ جب اختیار میں نہیں ہوتا تو بس انتظار ہی ہوتا ہے۔مولوی ہو کہ ملا، مفتی ہو کہ مجتہد،سب نے ایسے دم سادھ رکھا ہے کہ گویا معاشرہ کے اس المیہ سے کسی کو کوئی تعلق خاطر نہیں۔ہاں اگر رویت ہلال کا مسئلہ ہو تو کوئی فرد شہر سے چاند نہیں دیکھ سکتا سوائے ان کے جو عمامہ پوش یا عبابردوش ہوں۔اب آپ اسے میرا جہل جانئے کہ میں اب تک یہ سمجھتا رہا کہ آنکھیں انسان کے چہرے پر ہوتی ہیں اور اسی سے چاند نظر آتا ہے۔
شادیوں کی تقاریب میں قاضی صاحب جب ایجاب و قبول کرواچکیں اور خطبہ وصیغۂ نکاح جاری فرمادیں تو جلو میں موجود سکریٹری نے پہلے تو نیگ کے چاول شکر سمیٹے پھرمٹھی دو مٹھی ڈائس کی طرف اُچھال کر سارے کا سارا بادام،مصری اور چھوارے تھیلے میں اتار لیا اور چپکے سے موٹا لفافہ جیب میں ڈالتے ہوئے بھی شکوہ سنج کہ’’لاکھوں کی شادی میں بس اتنا ہی!‘‘
جن کے پاس دولت کے انبار ہیں، ا ن کے لئے تو بیٹی کی خوشی کی خاطر داماد خریدنا مشکل نہیں۔آخر مرسیڈیز ،بینٹلی اور رولس رائس بھی تو بکنے کے لئے ہی شوروم میں سجی ہے اور اس کے بھی خریدار ہیں،لیکن جس باپ کی زبان فاقوں کے ذائقے سے آشنا ہو اور جس کے وجود میں بے چراغ روشنی ہو، وہ سوائے پلکیں موندلینے کے اور کچھ کر بھی نہیں سکتا۔ہندوستان کی آزادی کے بعد مسلمان بہت برباد ہوئے،زمینیں چلی گئیں،تجارت ختم ہوگئی،فسادات نے صنعتوں کا خاتمہ کردیا۔اگر خلیجی ممالک میں روز گار نہ کھلتے تو جانے کیاانجام ہوتا،غیر منصوبہ بند دولت جس طرح آئی کچھ اسی طرح لٹائی بھی گئی۔لیکن معاشراتی اثرات کو دیکھئے تو جو لڑکے شادیاں کرکے اپنی دلہنوں کے ہاتھ کی مہندی چھوٹنے سے پہلے واپس چلے گئے اور ریگستانوں میں اپنے خیمے لگالئے‘ انہوں نے یہاں بھی نخلستان کو ریگستان ہی بنادیا۔دس دس سال کی سہاگنیں دیکھئے تو مہینے کی دلہنیں ہیں۔شام ڈھلے آئینے کے سامنے بن سنور کر بیٹھنا،جو دیکھنے والا نہ ہو تو سنورنا کیا! اور سلجھی لٹ بگاڑنے والا نہ ہو تو لٹ کیسی۔جہاں بدن کا گھر اَجڑا ہو تو سجے مکانوں کی ویرانی کون دیکھے:
اگ رہا ہے درو دیوار پہ سبزہ غالبؔ
وہ بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہارآئی ہے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مضمون بہ زبانِ مصنف

Share

۱۱ thoughts on “نیند نہ دیکھے ٹوٹی کھاٹ ۔ ۔ ۔ علامہ اعجازفرخ”

Comments are closed.

Share
Share