رپورتاژ: قومی سمینار- اردوادب اورقومی یکجہتی – – – ڈاکٹرعزیزسہیل

Share

 


رپورتاژ:ایک روزہ قومی سمینار
اردوادب اورقومی یکجہتی

از: ڈاکٹرعزیزسہیل
لیکچرا ر ایم وی ایس ڈگری کالج محبوب نگر

ضلع نظام آباد ابتداء ہی سے تاریخی تہذیبی ،ادبی و مذہبی مرکز رہا ہے ۔تلنگانہ میں حیدرآباد کے بعد نظام آبادشعر و ادب کی سرگرمیوں کا مرکز اور گہوارہ رہا ہے ۔ ضلع نظام آباد میں شہرنظام آبادکے علاوہ بودھن اور شکر نگربھی اردو ادب کے اہم مراکز رہے ہیں۔ بودھن کے نواح میںآصف سابع میر عثمان علی خان نے 1921ء میں ایشیاء کی سب سے بڑی شکر فیکٹری قائم کی تھی اس فیکٹری کے تحت 15,000 ایکڑ اراضی پر گنے کی کاشت ہوتی تھی ۔ فیکٹری ضلع نظام آبادکے عوام کیلئے روزگار کا ایک بڑا ذریعہ تھی۔اس دوران اردو کی کئی اہم شخصیات یہاں آباد تھیں جنہوں نے اردو کی فروغ کیلئے ادبی انجمنیں قائم کی تھی۔ بودھن میں اردو کا بہت اچھا ماحول پایا جاتا ہے۔ اردو کے اس ماحول میں عبدالرحمن داودی نے یوجی سی کے اشتراک سے اردو ادب اور قومی یکجہتی کے موضوع ایک تاریخ ساز سمینار کا انعقاد عمل میں لایا۔

گورنمنٹ ڈگری کالج بودھن ،نظام آباد میں 28جنوری2017ء بروز ہفتہ صبح 10:30 ایک روزہ قومی سمینار بعنوان’’ اردو ادب اور قومی یکجہتی ‘‘ منعقد ہوا ۔اس سمینار کا آغاز کالج کی طالبات نے ترانہ ہندی پڑھ کر کیا۔خطبہ استقبالیہ عبدالرحمن دادوی کنوینر و اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو گورنمنٹ ڈگری کالج بودھن نے پیش کیا اور تمام شرکاء سمینار کا استقبال کیا انہوں نے سمینار کے انعقاد کے مقاصد کو بیان کیا اور کہاکہ اردو محبت اور قومی ہم آہنگی کا دوسرا نام ہے ۔عصر حاضر میں نفرت و تعصب کے زہر نے انسانیت کو شرمسار کردیا ہے،اس نفرت کے ماحول میں محبت کا پیغام عام کرنے کیلئے یہ ایک روزہ قومی سمینار’’اردو ادب اور قومی یکجہتی ‘‘کے عنوان پر انعقاد عمل میں لایا جارہا ہے۔تاکہ اردو ادب کی تخلیقات کو سارے عالم میں پیش کیا جائے یہ وقت کا تقاضہ بھی ہے۔
مہمان اعزازی ڈاکٹر اطہر سلطانہ صدر شعبہ اردو تلنگانہ یونیورسٹی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم اس دور میں بڑے بحران کاشکار ہے اس لیے کہ قومی یکجہتی کا تصور لوگوں کے ذہنوں سے اوجھل ہوتا جارہا ہے اور فرقہ پرستی کو فروغ حاصل ہورہا ہے ،ہمیں جفا کش اور طاقتور قوم کی تعمیر کرنی ہے ہندوستان کے ہر شہری کو آپس میں مل جل کر رہنا ہے ہمیں اتحاد و بھائی چارہ کا درس دینا ہوگا ایسے میں اردو زبان و ادب سے خوب مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ان کے بعد ایک اورمہمان اعزازی ڈا کٹر معید جاوید صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو زبان جو کہ درباروں سے زیادہ بازاروں ،چھاونیوں اور خانقاہوں کی پروردہ ہے چنانچہ یہ کہنا حقیقت کو دہراناہے کہ خود اردو زبان اردو یکجہتی کی پیداوار ہے اگر اردو لمحہ بھر کے لئے بھی اپنے اس وصف کو بھول جائے تو گویا وہ اپنی تاریخ بلکہ اپنے وجود ی مقصد ہی سے محروم ہوجائے!اس تناظر میں اردو اور قومی یکجہتی کے موضوع پر سمینار کا انعقاد اہمیت کا حامل ہے،انہوں نے عبدالرحمن داودی اور ان کی ٹیم کو سمینار کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی۔مہمان اعزازی محمد عبدالعزیز ٹرسٹی ہویمن ویلفر ٹرسٹ نئی دہلی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو زبان نے آزادی ہند کیلئے اہم کردار اداکیا تھا جسے موجودہ دور میں پسِ پشت ڈالا جارہا ہے یہ وہ زبان ہے جس نے انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیا تھا،قومی یکجہتی کے تصور کو تعلیمی اداروں میں فروغ دینے کی ضرورت ہے اگر انسانیت ختم ہوجائے تو قومی یکجہتی بے معنی ہوجاتی ہیں۔ضرورت ہے کہ قومی یکجہتی کو خوب فروغ دیا جائے، انہوں جذباتی انداز میں اردو کے مقبول شعراء کے اشعار کے ذریعے قومی یکجہتی کی اہمیت کا اجاگر کیا۔ ڈاکٹرعسکری صفدر پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج آرمور نے اپنے خطاب میں کہاہندوستانی تہذیب دنیا بھر میں گنگا جمنی تہذیب کے طور پر جانی جاتی ہے اس تہذیب کو پروان چڑھانے میں اردو زبان و ادب نے اہم کردارادا کیا ہے انہوں نے علامہ اقبال ،مخدوم اور فیض احمد فیض کے اشعار کے ذریعہ اپنا پیغام دیا۔

اس سمینار کا کلیدی خطبہ ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم چیرمین بورڈ آف اسٹڈیز اورینٹل اردو جامعہ عثمانیہ حیدرآباد نے پیش کیا ۔انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ قومی یکجہتی اور اردو ادب یہ کافی قدیم موضوع ہے جو برسوں سے چلا آرہاہے لیکن اس کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے قومی یکجہتی کا موضوع اپنے اندر محبت رکھتا ہے۔ جب تک محبت زندہ ہے تب تک قومی یک جہتی باقی ہے۔ قومی یکجہتی کی مختلف سطحیں ہیں جیسے مذہب ‘ زبان ‘ علاقہ ‘ مسلک و طبقات اور معاشی نا ہمواری ۔ ۔ ۔ ان تمام سطحوں پر قومی یکجہتی کا مظاہرہ لازم ہے۔ اردو ادب میں قومی یکجہتی کو تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے سورج میں روشنی کو تلاش کرنا ‘ سمندر میں پانی کو کھوجنا اور زمین پر مٹی ڈھونڈنا گویا اردو ادب قومی یک جہتی سے بھراپڑا ہے؟اردو دلوں کو جوڑنے والی زبان ہے ۔اس کے باوجود ہمیں بار بار یکجہتی کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔دوسری زبان والے بھی اس طرح کے سمینارمنعقد کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کو آٹھواں عجوبہ قرار دیا کیونکہ یہاں مختلف رنگ و نسل کے لوگ بستے ہیں بہت سے مذاہب آباد ہیں اور بہت زیادہ زبانیں یہاں بولی جاتی ہیں اور یہ سب مل جل کر رہتے ہیں۔یہ سب باتیں ہندوستان کو انفرادیت عطا کرتی ہے ہندوستان کی خمیر میں یکجہتی شامل ہیں آپس میں ایک دوسرے کا احترام کرنے سے وسیع النظری پیدا ہوتی ہے،ایک دوسرے کے مدد کے جذبہ کو پروان چڑھانا وقت کا اولین تقاضہ ہے،انہوں نے مختلف مثالوں کے ذریعے اردو ادب میں قومی یکجہتی کو اجاگر کیا۔

مہمان خصوصی پروفیسر سامبیا وائس چانسلر تلنگانہ یونیورسٹی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو شعراء اور ادیبوں نے ہر دور میں سماجی نا انصافی کے خلاف آواز بلند کی ہے اردو زبان نے ہمیشہ قومی یکجہتی کا درس دیا ہے تلنگانہ میں مشترکہ تہذیب کو فروغ دینا وقت کا تقاضہ ہے وزیر اعلی کے سی آر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں میں تعلیم شعور کی بیداری اور ان کی ترقی کیلئے اقامتی اسکولس و کالجس کا قیام عمل میں لارہے ہیں تلنگانہ میں 45اسمبلی حلقہ ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی اچھی آبادی ہے۔انہوں نے کہا کہ اردو زبان کے فروغ اور قومی یکجہتی کیلئے ہم سب کو کوشش کرنی ہوگی اور سنہرے تلنگانہ کیلئے جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔مہمان خصوصی مسٹر شکیل عامر رکن اسمبلی بودھن نے اپنے خطاب میں کہا کہہ ہندوستان کثرت میں وحدات والا ملک ہے یہاں کے لوگ مل جل کر اتحاد و اتفاق سے زندگی گزارتے ہیں سب شیر و شکر کی طرح رہتے ہیں یہاں مختلف زبانیں بولی جاتی ہے اردو زبان پورے ملک کے علاقوں میں بولی اور پڑھی جاتی ہے یہ وہ زبان ہے جس نے قومی یکجہتی کا عظیم درس دیا ہے ،شعراء کرام نے بھی قومی یکجہتی کیلئے اپنا اہم کردار ادا کیا ہے انہوں نے طلبہ کو مشورہ دیا کہ وہ اردو کے فروغ کیلئے اہم کردار ادا کریں اور مثبت فکر اور سونچ کے ساتھ آگے بڑھیں اور احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔انہوں نے کہا کہ اردو میڈیم ڈگری کالج کیلئے بلدنگ کی تعمیر کیلئے ۲ کروڑ کا بجٹ حکومت تلنگانہ کی جانب سے منظور کیا گیا ہے اور مزید اقلیتوں کی ترقی کیلئے مختلف اسکمیات کا تذکرہ کیا۔مسٹر شکیل عامر کے ہاتھوں سمینار کے سوونیر کا رسم اجراء انجام دیا گیا۔ عبدالرحمن داودی نے پر وگرام کی کاروائی چلائی ،افتتاحی جلسہ کی صدارت ستیہ ورا پرساد پرنسپل نے انجام دی۔دیگر معززین میں ایلیا میونسپل چیر مین ،عابد صوفی ایڈوکیٹ ، عبد الکریم مارکیٹ کمیٹی چیرمین نے شرکت کی ۔اس سمینار میں درس و تدریس اور صحافت سے تعلق رکھنے والے احباب کی تہنیت کی گئی جن میں محمد نظیر الدین،ڈاکٹر لطیف الدین قریشی ،شیخ احمد ضیاء ،حسن سنجری قابل ذکر ہیں۔ساتھ ہی معزز مہمانوں کی بھی تہنیت کی گئی ۔

افتتاحی جلسہ کے بعد اجلاس اول کا انعقا د عمل میں آیا جس کی صدارت ڈاکٹر معید جاوید اور ڈاکٹر اطہر سلطانہ نے انجام دی، اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر ناظم علی نے فرمائی ۔پہلے مقالہ نگارڈاکٹر موسیٰ اقبال نے’’علامہ اقبال کی شاعری میں قومی یکجہتی کے عناصر‘‘دوسرا مقالہ وسیم احمد’’اردو شعر و ادب میں قومی یکجہتی کے عناصر‘‘تیسرا مقالہ ڈاکٹر گلِ رعنا’’اردو ادب اور قومی یکجہتی ‘‘چوتھا مقالہ عبدالقدوس’’اردو مشاعرے اور ملی جلی تہذیب‘‘کے عنوان پر پیش کئے۔ صدور ااجلاس نے مقالوں پر تبصرہ فرمایا۔دوپہر میں ظہرانہ کے بعد اجلاس دوم کا انعقاد عمل میں آیا جس کی صدارت ڈاکٹر زبیر قمر اور دانش غنی نے فرمائی ۔اس اجلاس کی بھی نظامت ڈاکٹر ناظم علی نے ہی انجام دی اس سیشن میں ڈاکٹر اسرار الحق سبیلی’’بچوں کی نظموں میں قومی یکجہتی کے عناصر‘‘ساجد ممتاز’’قومی یکجہتی کے علمبردار نظیر اکبر آبادی‘‘ رضی الدین اسلم،’’ندای فا ضلی کی نظم قومی یکجہتی ایک مطالعہ‘‘،انصار احمد’’اردو غزل اور قومی یکجہتی‘‘محمد عبدالبصیر’’حیدرآباد سے وابستہ اردو کے غیر مسلم شعراء و ادیب‘‘ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل’’آصف سابع میر عثمان علی خان کی قومی یکجہتی ،رواداری‘‘ڈاکٹر اسلم فاروقی’’اردو او ر لسانی یکجہتی‘‘نثار احمد ڈار’’ہندستان میں قومی یکجہتی اور اردو کا کردار‘‘شیخ احمد ضیاء’’اکیسویں صدی کے ہندوستان کی تعمیر میں اردو کا کردار‘‘ہلال احمد شاہ’’پریم چند کے افسانوں میں قومی یکجہتی کا تصور‘‘ڈاکٹر حامد ماہتاب’’ہندوستانی تہذیب کا نمائندہ شاعر امیر خسرو‘‘محمد جابر’’اردو کے غیر مسلم شعراء‘‘ڈاکٹر عبدالقوی ’’تحریک جدوجہد آزادی میں اردو کا کردار‘‘محمد عبداللہ قریشی ’ ’اکیسویں صدی کی اردو صحافت اور قومی یکجہتی‘‘محسن خان (ریسرچ اسکالر مانو)’’قومی یکجہتی کے فروغ میں اردو صحافت کا کردار‘‘ امتیاز احمد خواجہ ’’اقبال کی نظموں میں وطن پرستی‘‘ساجد ممتاز’’قومی یکجہتی کے علمبردار:نظیر اکبر آبادی‘‘ڈاکٹر ناظم علی نے’’قومی یکجہتی کے فروغ میں اردو کا کردار،اور شفیقہ بیگم نے بھی اپنا مقالہ پیش کیا ۔آخر میں صدور اجلاس نے تبصرہ فرمایا۔ 5بجے اختتامی جلسہ کا انعقا د عمل میں آیا۔ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم، ڈاکٹر معید جاوید،ڈاکٹر زبیر قمر ،دانش غنی نے خطاب فرمایا ۔صدارت ستیہ ورا پرساد پرنسپل نے کی۔ شرکاء سمینار میں اسنادات کی تقسیم عمل میں آئی ۔عبدالرحمن داودی کے شکریہ پر سمینار کا اختام عمل میں آیا۔

اس دن رات 9بجے بین ریاستی مشاعرہ بھی منعقد کیا گیا تھا جس کی صدارت سید ریاض تنہا نے فرمائی مہمانان میں ڈاکٹر معید جاوید،نوید اقبال قائد ٹی آر ایس و دیگر،نے شرکت کی مشاعرہ کی نظامت فیروز رشید نے کی شعراء میں جمیل ساحر مالیگاوں،ڈاکٹر زبیر قمردیگلور،کوکب ذکی ،شکیل حیدر،سمیر نعیم ،سلیم ساحل ،حیدرآباد،انور احمد انور نرمل،بدر الدین بدر عادل آباد،جمیل نظام آبادی،رحیم قمر،جلال اکبر،ذکی شطاری،شیخ احمد ضیاء، کبیر احمد شکیل ،اقبال شانہ،حسن سنجری و دیگر نے اپنا کلام سنایا رات دیر گئے مشاعرہ اختتام پذیر ہواسمینار میں کثیر تعداد میں طلبہ واساتذہ دیگر حضرات نے شرکت کی۔

Share
Share
Share