عہدِ قطب شاہیہ میں دکنی زبان و ادب کا ارتقاء : – پروفیسرابوالفضل سید محمود قادری

Share


عہدِ قطب شاہیہ میں دکنی زبان و ادب کا ارتقاء

پروفیسرابوالفضل سید محمود قادری
سابق صدر شعبہ اردو
عثمانیہ یونیورسٹی پی جی کالج حیدرآباد

کسی بھی ملک کی تہذیبی اور ثقافتی ترقی میں اس خطہ کی زبان اور ادب کا اہم رول رہتا ہے۔ زبان و ادب جس حد تک معیاری ہوں گے، تہذیب اور ثقافت کے معیارات بھی اسی درجہ بلند ہوں گے۔ یوں تو دکنی زبان کی تشکیل گیارہویں صدی ہجری میں ہوچکی تھی ۔ لیکن اِس نئی زبان نے بہت جلد اپنے اطراف و اکناف کے بہت سارے علاقوں کو مسخر کر لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنے ادبی دور میں داخل ہوگئی۔ اس مرحلہ پر یہہ زبان صوفی بزرگوں اور مذہبی رہنماؤں کی سرپرستی میں پروان چڑھتی رہی، جنہوں نے اس کو اپنے اور عوام کے درمیان ایک وسیلہ کی زبان بنایا ۔

دکنی زبان، مرہٹی زبان کے بطن سے پیدا ہوئی اور اس کا بیشتر ذخیرۂ الفاظ مرہٹی سے ماخود ہے، جب کہ امتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اس میں دیگرزبانوں کے الفاظ بھی داخل ہوتے رہے۔ ابتداء ہی سے دکنی زبان کا رسم الخط فارسی رہا ہے۔ جہاں تک اس زبان کی قواعد کا تعلق ہے اس کی بنیاد بھی مرہٹی زبان کی قواعد کی بنیاد پر قائم ہے، اگرچہ کہ بعد کے دور میں اس نے فارسی زبان کی قواعد کے اثر کو بھی قبول کرلیا ۔
دکنی خالصتاً خطہ دکن کی پیداوار ہے اور یہہ علاقہ کوہِ بندھیا چل کے جنوب سے شروع ہوکر دکن کی پانچ خود مختار ریاستوں کے حدود تک پھیلا ہوا رہا ہے، لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ ان مختلف علاقوں کی مقامی زبانیں مختلف نسانی خاندانوں سے تعلق رکھنے کے باوجود اس نئی زبان نے خطہ دکن کے بیشتر حصوں پر اپنا اثر و نفوذ پیدا کرلیا اور وہ نہ صرف ایسے علاقوں میں مقبول ہوئی جہاں آریائی خاندان کی زبانیں رائج تھیں بلکہ جہاں دراوڑی زبانیں بھی اپنے ایک معیار پر تھیں۔ مرہٹی زبان کا تعلق آریائی زبان کے خاندان سے ہے، جب کہ کنڑی اور تلگو زبان کا تعلق دراوڑی زبان کے خاندان سے ہے، چنانچہ دکنی نہ صرف مرہٹواڑہ کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی بلکہ کرناٹک اور تلنگانہ کے علاقوں میں بھی یکساں طور پر مقبول رہی ۔ یہاں اس بات کا اظہار بھی بے محل نہیں ہوگا کہ ان دراوڑی زبانوں سے دکنی زبان و ادب میں شائد ہی کوئی ایسا لفظ ہوگا، جو دکنی زبان میں داخل ہوگیا ہو۔ دکنی زبان کے اس سرسری جائیزے کہ بعد دیکھیں کہ سلاطینِ قلب شاہیہ کے عہد میں اس زبان کے ادب کو کس حد تک فروغ حاصل ہوا۔
سلطنتِ قطب شاہیہ ۱۵۱۸ء میں قائم ہوئی اور ۱۶۸۷ء میں اس کا خاتمہ ہوگیا۔ اس سلطنت کا بانی سلطان قلی ، ہمدان کے بادشاہ اویس قلی کا لڑکا تھا۔ اس ترک نثراد شہزادے نے اپنی جان بچا کر ایران سے دکن آیا اور محمود شاہ بہمنی کے جرگہ میں داخل ہوگیا۔ اپنی خداداد صلاحیت اور سخت محنت کی بدولت اس نے جلد اپنا ایک مقام بنالیا اور ۱۴۹۵ء میں تلنگانہ کی صوبہ داری کی خدمت پر مامور ہوا۔ سلطان محمود شاہ بہمنی کی زندگی تک وہ اس کا وفادار رہا اور ۱۵۱۸ء میں اُس کی وفات کے بعد اپنی خود مختاری کا اعلان کردیا اور ایک ایسی مستحکم حکومت کی بنیاد رکھی جو کم و بیش ایک سو ستّر (۱۷۰) سال تک سرزمین دکن پر قائم رہی۔ سلطان قلی نے گولکنڈے کو ’’ محمدنگر‘‘ کا نام دیا اور اُسے اپنا پایۂ تخت بنایا۔
قطب شاہی سلطنت کے قیام اور استحکام سے بہت پہلے سلطنت بہمنیہ میں دکنی زبان ایک مشترکہ عوامی زبان کی حیثیت سے بہمنی سلطنت کے سارے علاقے میں اپنی جڑیں مضبوط کرلی تھیں اور جب دکن کی پانچوں ریاستیں قائم ہوئیں تو اُن کے حدود میں بھی دکنی زبان کو نہ صرف عام بول چال کی زبان کی حیثیت حاصل تھی بلکہ اس کی ادبی روایت کا سلسلہ شروع ہوئے ایک عرصہ گذر چکا تھا۔

سلطنتِ قطب شایہہ کوئی اتنی بڑی سلطنت نہیں تھی کہ کوئی دوسری سلطنت اس کا مقابلہ نہ کرسکتی لیکن قطب شاہیوں نے علم و ادب اور تمدن و ثقافت کے چراغ کو کچھ ایسے روشن کیا کہ آج تک تاریخ میں اس سلطنت کا نام روشن ہے۔ دکنی شاعری اور ادب کے ارتقاء کا دور ابراہیم قطب شاہ کے عہد سے شروع ہوتا ہے اور یہہ سلسلہ اس سلطنت کے آخری حکمران سلطان ابو الحسن تانا شاہ کے دور حکومت تک روز افزوں عروج پر رہا۔ ان سلاطین کے درباروں سے ہمیشہ علم و ادب کی فیاضانہ سرپرستی ہوتی رہی اور دور دراز سے بڑے بڑے علماء اور فضلا گولکنڈے میں جمع ہوتے رہے اور مختلف زبانوں کی ترقی ہوتی رہی۔
دکنی ادب کے اولین دور کے شعرأ میں سرفہرست فیروزؔ ، محمودؔ اور خیالیؔ ہیں، جو سلطان ابراہیم قطب شاہ کے عہد سے تعلق رکھتے ہیں ۔ سلطان ابراہیم نے تلگو زبان و ادب کی بھی سرپرستی کی اور اس کے دور کے بہت سارے شعرأ نے بادشاہ کی تعریف و توصیف میں نظمیں لکھی ہیں۔ اس کے دربار میں فارسی زبان کے بہت سارے شاعر اور عالم جمع تھے ۔ بادشاہ خود بھی عالم تھا اور اُس کا ایک خاص کتب خانہ بھی تھا ۔ جس کو اس نے خدا داد محل میں بڑے اہتمام سے جمع کیا تھا ، لیکن عبداللہ قطب شاہ کے عہد میں اس محل کو آگ لگ گئی اور سارا سرمایۂ ادب نذرِ آتش ہوگیا ۔ شائد یہی وہ جہ ہے کہ فیروزؔ ، محمودؔ اور خیالیؔ کے کلام کا بیشتر حصہ ہماری دسترس سے باہر ہے ، البتہ ان شعرأ کا چیدہ چیدہ کلام دستیاب ہوجاتا ہے۔
دکنی شاعری کے اولین دور کے اِن شعرأ کے بارے میں بعد کے ادوار کے کئی شعرأ نے بڑے احترام اور عقیدت سے ان کا تذکرہ کیا ہے۔ وجہیؔ جیسے بلند پایہ شاعر نے اپنی مشہور زمانہ مثنوی قطب مشتری میں فیروزؔ اور محمودؔ کا جس انداز میں ذکر کیا ہے اس سے اِن شعرأ کی فنی صلاحیتوں اور معیار کا کچھ اندازہ ہوسکتا ہے۔ وجہیؔ نے کہا ہے ۔۔۔
کہ فیروزؔ ، محمودؔ ، اچھتے جو آج
تو اس شعر کوں بھوت ہوتا رواج
کہ نادر تھے دونوں بھی اس کام میں
کیا نیءں کنے بول اجھوں فام میں
ایک اور جگہ اپنی اِسی مثنوی میں وجہیؔ نے فیروؔ زکی شاعرانہ عظمت کا یوں اعتراف کیا ہے
کہ فیروزؔ آ رات میں خواب کوں
دعا دے کے چُومے مرے ہات کون
کھیا ہے توں یو شعر ایسا سُرس
کہ پڑھنے کوں عالم کرے سب ہوس
بعد کے دور کے گولکنڈہ کے اور نمائندہ شاعر ابنِ نشاطی نے اپنی مثنوی پھولبن میں فیروزؔ کی استادانہ عظمت کا تذکرہ کچھ اس انداز میں کیا ہے۔۔۔
نہیں وہ کیا کروں فیروزؔ استاد
جو دیتے شاعری کا کچھ مری داد
ابن نشاطی نے ملاخیالیؔ کے بارے میں اپنے خیالات کا یوں اظہار کیا ہے ۔۔۔
اچھے تو دیکھتے ملا خیالیؔ
یوں میں برتیا ہوں سب صاحب کمالی
غرض دکنی ادب میں ایسے اور شعرأ بھی موجود ہیں جنہو ں نے اِن اساتذۂ فن کا نام بڑے احترام سے لیا ہے۔ جس سے اس بات کا صاف اندازہ ہوتا ہے کہ فیروزؔ ، محمودؔ اور خیالیؔ نے اپنے طرزِ سخن سے ایک ایسی راہ نکالی تھی ، جس کے اثر کو بعد کے شعرأ نے نہ صرف قبول کیا بلکہ اُسے آگے بڑھایا ہے۔ فیروزؔ محمودؔ اور خیالیؔ کے کلام کا مطالعہ بھی ہمارے اس نظریہ کو اور تقویت پہنچاتا ہے کہ ان نامور شعرأ نے فارسی اصناف سخن ، اسلوب اور بندشِ الفاظ و تراکیب کو رواج دیا اور دکنی کے سرمایۂ ادب کو گجری اور ہندوی روایتوں سے ہٹا کر فارسی کے سانچے میں ڈھالنے کی ایک اجتہادی کوشش کی ہے۔
فیروزؔ کا نام قطب الدین قادری تھا ۔ بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد وہ گولکنڈہ اُٹھ آیا اور یہاں بھی اُس کی قدر و منزلت ہوئی۔ ہمیں فیروز کا ایک پرت نامہ اور چند غزلیں ہی دستیاب ہوتی ہیں۔ پرت نامہ کے اشعار کی تعداد (۱۲۱) ہے ۔ یہہ ایک منقبتی نظم ہے، جس میں شاعر نے حضرت عبدالقادر جیلانی ؒ کی مدح سرائی کی ہے اور اپنے پیر و مرشد حضرت شیخ ابراہیم مخدوم جیؒ کی توصیف میں بھی اشعار کہے ہیں۔ یہہ ۱۶۶۵ء کی تصنیف ہے ۔فیروزؔ کا وطن بیدر تھا، خود اُس کے شعر سے اس کا یوں اظہار ہوتا ہے۔۔۔
مجھے نانوں ہے قطب دیں قادری
تخلص سو فیروزؔ ہے بیدری
فیروزؔ کی غزلوں پر فارسی زبان کا اثر ، اسلوب اور لہجہ بہت واضح ہے، اس کے فن میں فارسی کی وہی روایتیں موجود ہیں جو بعد کے ادوار میں دکنی شاعری میں مقبول ہو کر بہت سارے شعرأ کو متاثر کیا ہے۔ مثال کے لئے کچھ اشعار پیش ہیں ۔۔۔
یاقوت ہیں سرنگی دو لال ہر اَدھر تج
کیوں کہ عقیق ہوں گے اس رنگ کے یمن میں
سروِ قدت سہاوے جو نوبہار بن میں
نازک نہال پنچیا ، اس جیو کے چمن میں
گوریاں سہیلیاں میں ، سب جگ کیاں بساریاں
جب سانولی سکھی سوں ، مایل ہوا دکھن میں
محمودؔ کی شاعری میں فارسی کا یہہ رنگ اور آہنگ مزید واضح روپ میں اُجاگر ہے۔ ہمیں اس کا بہت سارا کلام مل جاتا ہے ۔ وہ بھی ایک قادراکلام شاعر تھا، جس نے دکنی کے علاوہ فارسی میں بھی شاعری کی ہے، لیکن اس کی شہرت اُس کے دکنی کلام کی وجہ سے ہوئی۔ وہ شاہ شہباز کا مرید تھا، جس کی اس شعر سے وضاحت ہوتی ہے ۔۔۔
کہے شاہ شہباز محمودؔ کوں
قدم رکھ توں ہر فن میانے ثبوت
محمودؔ کا بیشتر کلام غزلیات پر مبنی ہے اس کے علاوہ اس نے مرثیئے اور دوہرے بھی کہے ہیں۔ دکنی شاعری کے اس دور کا کلام اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ لسانی نقطۂ نظر سے اگر اس کا مطالعہ کیا جائے تو صاف اندازہ ہوتا ہے کہ مختلف زبانوں کے درمیان ہم آہنگی کا یہہ دور اپنا ایک منفرد مزاج بنا رہا ہے، دکنی شاعری میں دیگر زبانوں کے الفاظ اور ان کے برتنے کا اندازہ شاعری کو ایک نیا موڑ دے رہا ہے اور دکنی کا سرمایۂ ادب ایک نئے دور میں داخل ہورہا ہے۔ لسانی ہم آہنگی کے اس دور میں موضوعات کا تنوع بھی موجود ہے، اگرچہ کہ دکنی کے اس دور کے شعرأ کی زبان قدیم ہے ، لیکن اس میں وہ ساری خصوصیات موجود ہیں جو بعد کے ادوار کے دکنی کے ترقی یافتہ ادب میں موجود ہیں۔
خیالیؔ کی غزلیات نے اپنے فنی معیارات ، ضائع بدائع کا استعمال اور تشبیہات و استعارات کے نئے اضافوں کے ساتھ دکنی ادب میں نئی روایت کو مزید آگے بڑھایا ہے ۔ خیالیؔ کے چند اشعار اس بات کے ثبوت میں پیش کئے جاتے ہیں ۔۔۔
سنسار کے چتارے ، لکھنے ملے ہیں سارے
مکھ دیکھ سد بسارے ، گم ہورہے اپن میں
تج کیس گھنگر والے ، بادل پٹیاں ہیں کالے
تِس مانگ کے اُجالے ، بجلیاں اُٹھیاں گگن میں
۱۵۸۰ء سے ۱۶۸۷ء تک جتنے بھی قطب شاہی حکمران گذرے ہیں، ان کا عہد دکنی ادب کا زرین عہد کہا جاسکتا ہے۔ جہاں اس زبان کا سرمایۂ ادب روز افزوں بیش بہا ادبی خزانوں سے مالا مال ہوتا رہا ہے۔ اس ایک صدی کی ادبی روایت اور اس کی زبان پر ہمیں فارسی کی بڑی گہری چھاپ ملتی ہے ، اس دور کی ایک اور خصوصیت یہہ ہے کہ فارسی کے ادب پاروں کے ترجموں اور تلخیص کے رحجانات بڑھتے رہے ہیں۔ اس کی کھلی مثال غواصیؔ کی مثنوی سیف الملوک د بدیع الجمال ہے، جس کا موضوع اور قصہ فارسی کی الف لیلیٰ سے ماخوذ ہے۔ غواصیؔ کی دوسری مثنوی مینا ستونتی کا قصہ بھی کسی فارسی رسالہ سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس بارے میں خود شاعر نے یوں واضح کیا ہے ۔۔۔
رسالے اتھا فارسی یو اول
کیا نظم دکھنی سیتے بے بدل
مثنوئی طوطی نامہ بھی فارسی کی مشہور نثری تصنیف طوطی نامہ سے ماخوذ ہے، جو فارسی کے مشہور ادیب نخشبیؔ کی تصنیف ہے۔ غواصیؔ نے اس امر کا اعتراف کچھ اس طور پر کیا ہے ۔۔۔
ہوئے حضرتِ نخشبیؔ مج مدد
دیا میں اسے تو رواج اس سند

پراگندہ خاطر نہ کر اس بدل
کیا ترجمہ مختصر اس بدل
دکنی کی پہلی ادبی نثری تصنیف سب رس بھی جس کا مصنف اسد اللہ وجہیؔ تھا، فارسی کے مشہور ادیب اور شاعر فتاحیؔ کی تصنیف دستورِ عشاق کے نثری خلاصے قصۂ حسن و دل سے ماخود ہے۔ ابنؔ نشاطی کی مثنوی پھولبن بھی مشہور فارسی قصہ بُساتین کا ایک طرح سے ترجمہ ہے ، جس کی وضاحت خود ابن نشاطیؔ نے اس انداز میں کی ہے۔۔۔
بُساتیں ، جو حکایت فارسی ہے
لطافت دیکھنے کی آر سی ہے
بچن کے باغ کی لے باغبانی
بُساتیں کی کیئے سو ترجمانی
محمد قلی قطب شاہ کے فن کی رنگارنگی میں بھی فارسی کی روایات کا گہرا اثر موجود ہے، خصوصاً اس کی غزلیں فارسی کے بلند پایہ شاعر حافظ شیرازؔ کا ایک طرح سے ترجمہ ہیں۔ قلی قطب کے عہد میں ایک نئی تہذیب اور ادبی روایت ابھری جسے ہم ہند ایرانی تہذیب کا نام دیتے ہیں، اور یہہ اس جنوبی براعظم کی ایک ایسی تہذیب و ثقافت ہے ، جو آج بھی ارضِ دکن کا طرۂ امتیاز ہے اور یہی وہ روایت ہے جس کو ہم آج ہندو مسلم ثقافت کا نام دیتے ہیں۔ قلی قطب شاہ اس ثقافت کا علمبردار ہے ، جس نے ہندو اور مسلم تہذیبوں کو ایک دوسرے کے ساتھ کچھ اس طرح ملا دیا کہ جس نے مذہبی امتیازات کو ثقافی معیارات کی حد تک یکسر ختم کردیا اور خود دکنی زبان و ادب اس تہذیبی ملاپ کا ایک عظیم ورثہ ہے۔

گولکنڈے کے دیگر مشہور شعرأ میں احمدؔ کی لیلیٰ مجنوں اور یوسف زلیخا ، طبعیؔ کی بہرام و گل اندام، عشرتیؔ کی چت لگن اور دیپک پتنگ ، سید احمد ہنرؔ کی نیہ درپن اور اس طرح کے بہت سارے دکنی شعرأ کی مثنویاں فارسی ادب سے ماخوذ اور ترجمے ہیں، یہاں تک کہ گولکنڈہ کے آخری دور کے میلاد نامے، معراج نامے ، وفات نامے اور واقعاتِ کربلا پر مشتمل مثنویاں، فارسی ادب کے ایک طرح سے ترجمے ہیں۔
بیجاپور کے مقابلے میں گولکنڈے کا نثری ادب نسبتاً وقیع ہے، ملا وجہیؔ کی سب رس دکنی ادب کا ایک ایسا شہکار ہے۔ جس میں ادبیت بھی ہے اور فنکاری بھی اور یہہ دکنی نثر کا ایک ایسا کارنامہ ہے، جہاں وجہیؔ نے ایسا معیار بنانے کی کوشش کی ہے جو فارسی کی معیاری نثر کی سطح تک بلند ہوگیا ہے۔
قطب شاہی حکمرانوں کے عہد میں دکنی زبان و ادب کا اس درجہ ارتقاء ہوا کہ اس دور کے سرمایۂ ادب میں کوئی ایسی صنفِ سخن باقی نہیں رہی، جس میں فن کے اعلیٰ نمونے موجود نہیں ہوں ، چنانچہ مثنوی، غزل ، قصیدہ ، مرثیہ ، رباعی اور مذہبی رسائل سب کچھ دکنی ادب میں ایک معیار پر ہیں۔سقوطِ گولکنڈہ کے بعد بھی دکنی ادب کی یہہ روایتیں مسلسل فروغ پاتی رہیں۔
قطب شاہیوں نے زبان و ادب کے ساتھ ساتھ فن تحریر کی بھی بڑی سرپرستی کی ہے۔ قطب شاہیوں سے ماقبل کے ادوار میں دکنی کے ادبی کارنامے زیادہ ترخطِ نستعلیق میں تحریر کیئے جاتے رہے، جبکہ عہدِ قطب شاہیہ میں نظم و نشر کے ادب پارے نستعلیق کی بجائے خطِ ثلث میں تحریر کیئے جانے لگی۔
گولکنڈہ کے بعد دکنی زبان و ادب کا مرکز اورنگ آباد منتقل ہوگیا ، جہاں کی خاک سے ولیؔ ، سراجؔ ، داوٗدؔ ، شاہ قاسمؔ اور معتبر خاں عمرؔ جیسے باکمال شاعر اُٹھے ۔ اُردو کی پہلی صاحبِ دیوان خاتون شاعر لطف انساء امتیاز بھی اورنگ آبادی تھیں۔
اِن حقائق کی روشنی میں دکنی زبان کو قدیم اُردو کا نام دینا سراسر اس زبان کے ساتھ زیادتی ہے اور دکنی زبان کی انفرادیت کو ختم کرنے کی ایک مذموم اور ناکام کوشش ہے۔
(مشمولہ مقالات محمود قادری ۔ از ۔ ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان)

Share

One thought on “عہدِ قطب شاہیہ میں دکنی زبان و ادب کا ارتقاء : – پروفیسرابوالفضل سید محمود قادری”

Comments are closed.

Share
Share