مسائل کاحل اورشیخ چلی کاخواب : – صادق رضا مصباحی

Share
صادق رضا مصباحی

مسائل کاحل اورشیخ چلی کاخواب

صادق رضا مصباحی ، ممبئی
رابطہ نمبر:09619034199

اگر ہم اپنے کسی مرض کے علاج کے لیے کسی ایسے ڈاکٹرکے پاس چلے جائیں جس کی بڑی شہرت ہو،اس کابڑاسااسپتال ہومگروہ حقیقی طورپرمرض کاماہرنہ ہواوراللہ نے اسے دست شفاعطانہ کیاہوتوکیاہم صحت یاب ہوسکتے ہیں؟اسی طرح جو ڈاکٹر صرف کھانسی بخارکا علاج کرنا جانتاہو اس کے پاس اگرہم آپریشن کے لیے چلے جائیں توکیا وہ ہمارا علاج کرسکتا ہے ،ہمارا آپریشن کرسکتاہے ؟کیوںکہ بڑے مرض کے سامنے چھوٹے ڈاکٹرکی کوئی حیثیت نہیں ہوتی لیکن اگرہم بضدہوں کہ ہم اسی چھوٹے ڈاکٹرسے علاج کرائیں گے کیوںکہ وہ مشہور بھی ہے اوراس کابڑاسا اسپتال بھی ہے تو یقینا ہم اپنی موت کاسرٹی فیکیٹ لے کرآئیں گے ۔

یہ مثال دینے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ ہم نے اپنی قومی وملی زندگی کے مسائل کے حل کے لیے ایسے ہی ’’چھوٹے ڈاکٹروں‘‘کو’’بڑاڈاکٹر‘‘سمجھ لیاہے اوراس کی ’’اونچی دوکان ‘ ‘ دیکھ کراس سے اپنا’’آپریشن ‘‘کرانے پربضد ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملی اور قومی مسائل جوںکے توں پڑے ہوئے ہیں ،رتی بھرمیں ان کوحل نہیں کیاجاسکاہےبلکہ ان ’’چھوٹے ڈاکٹروں‘‘کی وجہ سے مرض بڑھتاگیاجوں جوں دواکی ۔
مجھ جیسا طفل مکتب کیسے بتائےکہ کسی بھی مسئلے کاحل اسی وقت نکلتاہے جب کوئی ماہراورحقیقی ذمے داراس کے متعلق اپنی قیمتی رائے دیتا اوراس کا’’علاج ‘‘کرتاہےکیوں کہ وہ بیمارمعاشرے کا’’ڈاکٹر‘‘ہوتاہے۔ اسے معلوم ہوتاہے کہ مرض کی جڑیں کتنی گہری ہیںاوراس کاعلاج کیاہے ۔ہم نے دراصل انہیں ذمے دارسمجھ لیاہے جوحقیقی ذمے دارنہیں ہیںکیوںکہ ہم توشہرت ،دولت اوراپنے تعلقات کے پیچھے سرپٹ بھاگنے والے لوگ ہیں ۔ ہم شہرت سے دھوکہ کھانے کے عادی ہیں۔ہم اپنے پیروں پرکلہاڑی نہیں مارتے بلکہ اپنے پیروںکوکلہاڑی پرمارتے ہیں۔ہم کسی نہ کسی طرح اپنے تعلقات وروابط بحال رکھناچاہتے ہیںاسی لیے ہم حقیقی لوگوں کودوسرے درجے پررکھتے ہیں اورغیرحقیقی ،سطحی اورپرلے درجے کے لوگوںکو پہلےدرجے پربٹھاکران کی ’’ذمے داری ‘‘پرایک اورمہرتصدیق ثبت کردیتے ہیں۔ان سطورکے راقم کا تعلق چوں کہ مسلمانوں سے ہے اسی لیے مسلمانوںکے پس منظرہی میں بات کی جارہی ہے ۔مسلمانوں میں یہ وبادوسری کمیونٹی کے لوگوں کی بنسبت بہت زیادہ ہے اوراس وبانے ہماری پوری کمیونٹی کونگل لیا ہے اوریہ وباہماری رگ وپے ایسی پیوست ہے کہ اس کاعلاج بھی ایک بہت بڑامسئلہ بن کرسامنے آیاہے ۔ہم ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں اکثردیکھتے ہیں کہ ہماری کمیونٹی کی نمائندگی وہ لوگ کررہے ہیں جواس کے اہل نہیں ہیںیاانہیں جزوی طورپر یا تیسرے چوتھے درجے کااہل قرار دیا جاسکتا ہے مگریہ دنیا چوں کہ دولت کی ہے ،شہرت کی ہے ،تعلقات کی ہے اور طاقت کی ہے اسی لیے یہ سب چل رہاہے اور ایسا لگتا ہے کہ اب یہ آسانی سے ختم ہونے والانہیں ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ ہر سوسائٹی میں قوم کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے ہمیشہ سے دو طرح کے افراد رہے ہیں ۔ایک وہ جو واقعی ذمے دارہوتے ہیں اوردوسرے وہ جنہیں ذمے دار سمجھا جاتا ہے ۔ کمیونٹی کے مسائل حقیقی ذمے داروں سے ہی حل ہوتے ہیں ،ذمے دارسمجھے جانے والوں سے نہیں ۔اس لیے جب تک اس بات کاتعین نہ کرلیا جائے کہ ذمے دارکون ہے اور ذمے دارنما کون ہے ،مسائل حل کرنے کاخواب شیخ چلی کے خواب کی طرح ہے ۔اس لیے ہمیں تسلیم کرلیناچاہیے کہ ہم شیخ چلی کاخواب دیکھ رہے ہیںکیوںکہ ہم اکثروبیشترحقیقی ذمے داروں کواتنی اہمیت دینے کوتیارنہیں جتنی کہ نام نہاد ذمے داروں کو دیتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ یوں کہہ لیجیے کہ تیسرے اورچوتھے درجے کے لوگوں کو ذمے داروںکی فہرست میں شمارکرتے ہیںیہی وجہ ہے کہ ہم مسائل حل کرنے کے بیٹھتے ہیں مگرمسائل میں اضافہ کرکے ہی اٹھتے ہیں۔ ’’دوا‘‘تلاش کرنے جاتےہیںمگر’’مرض ‘‘میں اضافہ کرکے واپس لوٹتے ہیں ۔آپ سروے کرکے دیکھ لیجیے، آپ کومیرے اس دعوی میں ۸۰فی صد صداقت نظرآئے گی ۔سچائی یہ ہے کہ ہم نے اب تک اپنے مسئلے کاحل شہرت ،دولت اور تعلقات میں تلاش میں کیا ہے اور ذمے داروں سے کنارہ کشی کرکے نچلے درجے کے لوگوں کو ذمے دار بنادیا ہے ۔ہمیں اپنی کمیونٹی کے مسائل حل کرانے کے لیے ’’چھوٹے ڈاکٹر‘‘ نظر آتےہیں۔ہم ان کی ’’اونچی دوکان ‘‘کے گرویدہ ہیں اور’’پھیکےپکوان ‘‘سے آنکھیں پھیرلیتے ہیں۔اس حقیقت سے کسے مفرہے کہ ٹی وی اوراخبارات میں جواشتہارشائع ہوتے ہیں ان میں اکثروبیشتربلکہ اس سے بھی زیادہ ،یہ جھوٹ پرمشتمل ہوتےہیں۔سمجھ دارلوگ ان اشتہاری باتوں پرکبھی نہیں آتے مگرچوں کہ متواتراشاعتوں سے یہ ہماری نفسیات پرچھائے رہتے ہیں اسی لیے ہماری زبانوںپران کے نام چڑھ جاتے ہیں ۔ ٹھیک یہی مثال حقیقی ذمے داروں اورغیرحقیقی ذمے داروں پرصادق آتی ہے مگرہماری عقل اس وقت چرنے چلی جاتی ہے جب ہم ان غیرحقیقی ذمے داروںکے ’’اشتہارات ‘‘پر’’ایمان‘‘ لے آتے ہیں اوران کی سطحی ،غیرمعیاری اورسرسری ’’تشخیص ‘‘کواپنے مرض کا’’علاج‘‘ سمجھتے ہیں۔یادرکھیے ڈاکٹرہونااوربات ہے اورڈاکٹربن جانااوربات ہے۔ اسی طرح ذمے دارہونااورچیز ہے مگر ذمے دار بن جانا یا کہلانا بالکل دوسری چیز ہے ۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ’’اونچی دوکانوں ‘‘پر’’ پھیکا پکوان‘‘ فروخت ہوتا ہے ۔کوئی بھی ہوشیار گراہک اس ’’اونچی دوکان‘‘ کے ’’بورڈ‘‘ یا ’’بینر‘‘ یا’’ اشتہارات‘‘پر یقین نہیں رکھتا بلکہ اسے دیکھ کرہی آگے بڑھ جاتا ہے توپھرہم دینی زندگی ،ملی زندگی اورقومی زندگی میں ان ’’اشتہارات‘‘کو اپنے ساتھ لے کرچلنے کے عادی کیوں ہوگئے ہیں؟یہ اتنا بڑا سوال ہے جس کاجواب عوام کونہیں بلکہ خواص کو تلاش کرنا چاہیے اور بالخصوص ان لوگوں کو جو کھوکھلی شہرت،تعلقات اور’’اونچی دوکان‘‘سے سامان خریدنے کے عادی ہیں۔اپنے دماغ کی ڈائری میں بات نوٹ کرلیجیے کہ ایساکرکے ہم مرض پر مرض بڑھاتے ہی جا رہے ہیں،اس کی سنگینی میں اضافہ کررہے ہیں اور اسے مزیدپیچیدہ تربنا رہے ہیں۔اس لیے ہم ببانگ دہل یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے مسائل میں اضافہ زبردستی ذمے دار بن جانے والوں نے کیاہے،حقیقی ذمے داروں نے نہیں۔

Share
Share
Share